دریائے سندھ کے متوازی چلنے والی قومی شاہراہ، انڈس ہائی وے، کے شمال میں واقع قصبے سوکڑ پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اس کے مرکزی داخلی راستے کے کنارے بہت سے لوگ اداس اور پریشان بیٹھے ہیں جبکہ ایک شخص جوتا ہاتھ میں پکڑے اُس راستے سے ایک ایسی گلی میں داخل ہو رہا ہے جو مقامی ہائی سکول تک جاتی ہے۔ گلی میں اتنا کیچڑ ہے کہ جوتے پہن کر اس میں سے گزرنا ممکن ہی نہیں۔
سوکڑ کی سبھی گلیوں کا یہی حال ہے۔
اس کے بنگل نامی محلے کی زرعی زمینوں میں دور دور تک پانی کھڑا ہے اور اس کے داخلی راستے کے دونوں اطراف گھروں کے کھنڈارت بکھرے پڑے ہیں۔ ان گرے ہوئے گھروں میں سے ایک میں محمد علی اور ان کا خاندان رہتے تھے۔ اب اس میں صرف ایک کمرہ ایسا باقی ہے جس کی دیواریں ابھی تک کھڑی ہیں اگرچہ اس کی چھت بھی گر چکی ہے۔
21 اگست 2022 کو وہ اپنے گھر کے ملبے پر لگے ایک ٹینٹ کے نیچے کرسی پر بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک ہفتہ پہلے آنے والا سیلاب ان کا "سب کچھ بہا کر لے گیا ہے"۔ وہ گھروں میں بجلی کی تنصیب اور مرمت کا کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے تمام اوزار بھی سیلابی پانی کی نذر ہو گئے ہیں۔
ان کا گاؤں ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ کا حصہ ہے جس کے مغرب میں واقع کوہ سلیمان نامی پہاڑی سلسلے پر اس موسم برسات میں اتنی بارشیں پڑیں جتنی پچھلے 50 سال میں نہیں ہوئی تھیں۔ ان غیرمعمولی بارشوں کا پانی 14 اگست 2022 کو درجنوں بستیوں اور ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں میں آ گھسا جس سے نہ صرف بڑی تعداد میں گھر گر گئے بلکہ مقامی لوگوں کے روزگار کے ذرائع بھی بڑے پیمانے پر ملیامیٹ ہو گئے۔
ان ذرائع میں محمد علی کی مرغیاں بھی شامل تھیں۔ ان مرغیوں کی ہلاکت ان کے لیے ایک بہت بڑا معاشی نقصان تھا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے انڈے فروخت کر کے وہ ہر ماہ اپنی محدود آمدنی میں کچھ نہ کچھ اضافہ کر لیا کرتے تھے۔
اسی طرح سوکڑ کے ایک اور رہائشی فاروق احمد کا نہ صرف گھر کیچڑ کا ڈھیر بن چکا ہے بلکہ ان کی تمام فصلیں بھی تباہ ہو گئی ہیں۔ وہ ایک بڑے زمیندار کے مزارعے کے طور پر کاشت کاری کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے پاس اپنی فصلوں کے پیداواری اخراجات کا قرض اتارنے کے ذرائع بھی باقی نہیں رہے۔
لیکن ٹخنوں تک کیچڑ میں دھنسے اور اپنے گھر کی ٹوٹی پھوٹی باقیات کے درمیان بیٹھے وہ کہتے ہیں کہ ان کا گاؤں اس تمام تباہی سے بچ سکتا تھا اگر ضلعی انتظامیہ نے اپنے فرائض ٹھیک طرح سے ادا کیے ہوتے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ سوکڑ کو کھجی والا واہ نامی ایک برساتی نالے سے بچانے کے لیے انتظامیہ نے مٹی کا ایک بند تو بنا رکھا تھا لیکن "کئی سالوں سے اس بند کی مرمت نہیں کی گئی تھی"۔ چنانچہ اس کے ٹوٹنے سے ان کا گاؤں سیلاب کا شکار ہو گیا۔
ایک اور مقامی باسی، میر احمد بلوچ، بھی اسی بند کے ٹوٹنے کو سوکڑ کی تباہی کی وجہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ماضی قریب میں گاؤں کے لوگوں نے متعدد بار ضلعی انتظامیہ کو اس بات سے آگاہ کیا کہ اس کی حالت بہت خستہ ہے اور اسے فوری مرمت کی شدید ضرورت ہے۔ مگر، ان کے مطابق، "اسے مضبوط کرنے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی اور آخر کار اسی کو توڑ کو سیلاب کا پانی گاؤں میں داخل ہوا"۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں کوہ سلیمان سے آنے والا بارشی پانی، جسے مقامی زبان میں رود کوہی کہتے ہیں، پہاڑوں سے اتر کر سنگھڑ نامی آبی گزرگاہ میں آتا ہے جہاں سے اس کا کچھ حصہ جنوب کا رخ کرتے ہوئے کھجی والا واہ کے ذریعے سوکڑ کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ پانی کاشتکاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر واہ میں مقامی ضرورتوں سے زیادہ پانی آ جائے تو اسے ذخیرہ کرنے کے لیے گاؤں کے جنوب مغربی کونے میں ایک تالاب بنایا گیا ہے جسے مقامی لوگ 'شہرپناہ' کہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 14 اگست 2022 کو اس واہ میں اتنا پانی آ گیا کہ اس نے نہ صرف گاؤں کا حفاظتی بند توڑ دیا بلکہ اس نے شہرپناہ کے کناروں کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بارشی پانی نے دو اطراف سے سوکڑ میں داخل ہو کر آبادی کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
قدرتی آفت یا خودساختہ مصیبت
کھجی والا واہ 21 اگست کو بھی بارشی پانی سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے باوجود اس کے اندر کئی چھوٹے بڑے پودے اور درخت دیکھے جا سکتے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ صوبائی محکمہ آب پاشی اور ضلعی انتظامیہ نے اس کی صفائی پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس میں اُگے ہوئے جھاڑ جھنکار اور نباتات کی وجہ سے بھی اس کے پانی نے اپنا عمومی راستہ تبدیل کر کے آبادی کا رخ کر لیا۔
رود کوہی نالوں کے راستوں میں تبدیلی کا مسئلہ تونسہ کے ان سبھی دیہات میں دیکھنے میں آتا ہے جو حالیہ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم زیادہ تر جگہوں پر اس کی وجہ قدرتی رکاوٹیں نہیں بلکہ انسانی مداخلت ہے۔ ایک مقامی قصبے وہووا کے رہنے والے محمد وقاص دنڑ گنگ نامی نالے کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے اس کے پاٹ میں واقع زمینیں رہائشی تعمیرات کے لیے بیچ دی ہیں جبکہ کئی دوسروں نے اس کے بعض حصوں پر قبضہ کر کے وہاں اپنے گھر بنا لیے ہیں۔
لہٰذا، ان کے مطابق، پچھلے ماہ "جب اس نالے میں آنے والے سیلاب کو اپنی قدرتی گزرگاہ بند ملی تو اس نے وہووا اور اس کی کئی نواحی آبادیوں میں تباہی پھیر دی"۔
تونسہ کے رہنے والے فضل رب لُنڈ کا بھی یہی کہنا ہے۔ وہ پچھلے 20 سال سے مقامی ماحولیاتی اور آبی مسائل کے بارے میں آواز اٹھاتے چلے آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ مختلف ترقیاتی منصوبے اور سرکاری عمارتیں بھی ایسی جگہوں پر تعمیر کیے جا رہے ہیں جو روایتی طور پر رود کوہی کی گزرگاہیں رہی ہیں۔ ان کے مطابق تونسہ میں انڈس ہائی وے کے ساتھ بنائی جانے والی کئی عمارتیں، جن میں عدالتیں، وائلڈ لائف پارک، سٹیڈیم اور یونیورسٹی شامل ہیں، سنگھڑ نالے کے پاٹ پر کھڑی ہیں جن کی وجہ سے اس کا قدرتی راستہ اس قدر سکڑ گیا ہے کہ پچھلے ماہ "اس میں آنے والا سیلابی ریلا اس میں سما ہی نہ سکا اور باہر نکل کر اردگرد کی انسانی آبادیوں میں پھیل گیا"۔ اس لیے، ان کی نظر میں، "حالیہ سیلاب کوئی قدرتی آفت نہیں ہے بلکہ ہم انسانوں کی اپنی لائی ہوئی مصیبت ہے"۔
نہری نظام بمقابلہ قدرتی نظام
ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں دو سو کے قریب چھوٹے اور 13 بڑے رود کوہی نالے ہیں جن کے ذریعے کوہ سلیمان پر برسنے والی بارشوں کا پانی کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ فضل رب لُنڈ کہتے ہیں کہ یہ پانی "پہاڑوں کے دامن میں رہنے والے لوگوں کے لئے رحمت سے کم نہیں ہوتا تھا"۔ اسی لیے، ان کے بقول، ان کے "بزرگ تو دعائیں مانگا کرتے تھے کہ کب بارشیں ہوں اور کب رود کوہی کے نالوں میں پانی آئے تاکہ وہ اسے کاشت کاری میں استعمال کر سکیں"۔
یہ بھی پڑھیں
تونسہ میں سیلاب کی تباہ کاریاں: رود کوہی نے 'ہمیں اتنا وقت ہی نہیں دیا کہ ہم اپنے مویشیوں اور گھر والوں کے سوا کچھ اور بچا سکتے'۔
ان کی بات کی تصدیق برطانوی راج کے دوران تیار کی گئی ایک سرکاری دستاویز سے بھی ہوتی ہے جس میں رود کوہی نالوں کا پانی زرعی مقاصد کے لیے مختلف موضع جات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اُس دور میں رود کوہی کا انتظام سنبھالنے کے لیے ایک محکمہ بھی بنایا گیا تھا جو نہ صرف پانی کی تقسیم کی نگرانی کرتا تھا بلکہ مقامی لوگوں کو مشورے بھی دیتا تھا کہ وہ کس طرح، کہاں اور کب مٹی کے بند باندھ کر بارشی پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
لیکن فضل رب لُنڈ کہتے ہیں کہ تقریباً 30 سال پہلے حکومت نے آب پاشی کا ایک ایسا منصوبہ بنایا جس نے "رود کوہی کے اس قدیم نظام کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے"۔ اس منصوبے کے تحت 1990 کی دہائی میں دریائے سندھ سے چشمہ کے مقام سے ایک نہر، چشمہ رائٹ بنک کینال، نکالی گئی جو ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع کو سیراب کرتی ہے۔ دریا کے مغربی کنارے کے متوازی بنائی گئی یہ نہر شمال سے جنوب کی طرف بہتی ہے اور، مقامی لوگوں کے مطابق، مغرب سے مشرق کی سمت بہنے والے رود کوہی نالوں کی قدرتی گزرگاہوں کو جگہ جگہ روکتی ہے۔
جہاں جہاں اس نہر کے پانی کی تقسیم کا نظام اور رودکوہی نالے آپس میں ٹکراتے ہیں وہاں وہاں ان نالوں کے پاٹ کو مختصر یا تبدیل کر کے انہیں نہروں کے نیچے سے گزارا گیا ہے۔ کچھ جگہوں پر یہ گزرگاہیں اتنی چھوٹی ہیں کہ ان میں سے محض 20 ہزار مکعب میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے بہتا پانی ہی گزر سکتا ہے لیکن، فضل رب لُنڈ کے مطابق، "جب ان نالوں میں اس سال کے سیلاب کی طرح ڈیڑھ لاکھ مکعب میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے پانی آ جاتا ہے تو یہ گزرگاہیں ناکافی ثابت ہوتی ہیں اور نالوں کا پانی ان کے پاٹ سے باہر نکل کر انسانی بستیوں کو ڈبو دیتا ہے"۔
ان کا کہنا ہے کہ چشمہ رائٹ بنک کینال کے ڈیزائن میں اسی خامی کی وجہ سے تونسہ کے لوگ 1991 سے اس کی تعمیر کی مخالفت کرتے چلے آئے ہیں "حالانکہ کاشت کار عام طور پر نہری پانی کی فراہمی پر خوش ہوتے ہیں"۔
ان کے اس موقف کی تصدیق جاپان میں قائم غیرسرکاری ادارے جاپان سنٹر فار اے سسٹین ایبل انوائرنمنٹ اینڈ سوسائٹی کی 2003 میں تیار کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چشمہ رائٹ بینک کینال کی تعمیر نے رود کوہی نالوں کا قدرتی بہاؤ تبدیل کر دیا ہے جس کے باعث یہ نالے مقامی آبادی کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بن گئے ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہروں کے نیچے سے گزارنے کے لیے کئی نالوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا گیا ہے جس سے ان میں آنے والا سیلابی پانی اکٹھا ہو کر پہلے کی نسبت زیادہ تباہی کا موجب بن جاتا ہے۔
اس رپورٹ کے مصنفین کے خیال میں اگر حکومت نے اس سلسلے میں "مقامی لوگوں کی رائے لی ہوتی اور ان کی لوک دانش کو استعمال کیا ہوتا تو نہر کے ڈیزائن میں اس خامی کو دور کیا جا سکتا تھا"۔
تاریخ اشاعت 14 ستمبر 2022