بارہ سالہ وحید احمد نے اپنی شلوار کا ایک پائینچا اوپر چڑھا رکھا ہے تاکہ وہ اس کے پاؤں پر رِستے ہوئے پھوڑے سے لگ کر اس کی تکلیف میں اضافہ نہ کرے۔
پانچویں جماعت میں پڑھنے والے اس نو عمر طالبِ علم کو روزانہ سیلابی پانی سے گزر کر اپنے سرکاری پرائمری سکول آنا پڑتا ہے جس سے اس کے پاؤں کی جِلد بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ سے تقریباً 350 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ضلع جعفر آباد کے گوٹھ غلام محمد جمالی نامی گاؤں کا یہ سکول اس سال اگست میں سیلابی پانی میں ڈوب گیا تھا۔ اس درس گاہ کو حال ہی میں دوبارہ کھولا گیا ہے جو اب بھی پوری طرح خشک نہیں ہوئی۔
سکول میں زمین اور دیواروں پر کائی جمی دکھائی دیتی ہے جبکہ کئی ہفتے تک پانی میں ڈوبے رہنے کی وجہ سے دیواریں اور چھتیں بھی کمزور پڑ گئی ہیں جن کے منہدم ہونے کا خطرہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ نہ صرف سکول بلکہ پورے علاقے کا یہی حال ہے۔
اسی سکول میں چوتھی جماعت میں زیر تعلیم 12 سالہ اسرار احمد خوش ہے کہ اب وہ اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کر سکے گا لیکن اپنے تین دوستوں—سوئم، رحمت ﷲ اور زین—کی جدائی کی وجہ سے یہ سکول اُسے کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ سیلاب کے کچھ روز بعد گاؤں میں کھڑے پانی کی وجہ سے ملیریا کی وبا پھوٹ پڑی جس سے یہ تینوں دوست جاں بحق ہو گئے تھے۔
اسرار بھی اسی کھڑے پانے سے گزر کر سکول جاتا ہے جہاں سے گزرتے ہوئے ’’مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ کئی مرتبہ اس پانی میں سانپ بھی دیکھ چکا ہے تاہم مشکل حالات میں بھی سکول پہنچنا اس کی مجبوری ہے کیونکہ چند روز کے بعد نوماہی امتحانات شروع ہونے والے ہیں جبکہ تین ماہ تک سکول بند رہنے سے اس کی پڑھائی پہلے ہی خاصی متاثر ہوئی ہے۔
صوبائی محکمہ تعلیم کے مطابق ضلع جعفر آباد میں 240 سرکاری سکولوں میں سو سے زیادہ حالیہ سیلاب میں مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں جبکہ کچھ کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ ضلع جعفر آباد کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اشوک کمار راجپوت کہتے ہیں کہ کئی سکولوں میں ابھی تک پانی کھڑا ہے۔ ان سکولوں سے پانی نہ نکالنے کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’فی الوقت محکمے نے یہ طے کیا ہے کہ پہلے انہی سکولوں میں سے پانی نکالا جائے گا جن کے ارد گرد پانی جمع نہ ہو کیونکہ بعض سکولوں میں سے پانی نکالا گیا لیکن اطراف کا پانی دوبارہ عمارت میں داخل ہو گیا۔‘‘
یہ بھی پڑھیں
بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ: خیرپور کی بستی مہیر ویسر کا سرکاری سکول تین ماہ سے زیر آب، بچوں کی تعلیم چھوٹ گئی
ان کا کہنا ہے کہ محکمے نے 26 ستمبر 2022 سے سکول کھولنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اب تک تقریباً 90 فیصد ادارے کھل چکے ہیں۔ سکولوں سے پانی نکالنے کے لئے بلوچستان کا محکمہ تعلیم بچوں کی تعلیم کے لئے فنڈ فراہم کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے یونیسیف کی مدد سے کام کر رہا ہے۔ ’’اس سلسلہ میں اب تک تقریباً 30 سکولوں سے پانی نکالا جا چکا ہے۔‘‘
زمینی حقائق سے چشم پوشی
تاہم بہت سے طلبہ اور اساتذہ کو سکول کھولے جانے کے فیصلے پر تحفظات ہیں۔ گنداخہ کے سرکاری سکول میں پڑھانے والے ایک استاد کا کہنا ہے کہ ’’محکمہ تعلیم کے افسروں کو سکول کھولنے سے پہلے ان علاقوں کا دورہ کرنا چاہئے تھا تاکہ یہ اندازہ ہو سکتا کہ بچوں کو دوبارہ سکول آنے میں کون سی مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں۔‘‘ لیکن، ان کے مطابق، ایسا کوئی جائزہ لیے بغیر وہ سکول کھول دیئے گئے جن میں طلبہ کی نصف تعداد ہی آ رہی ہے۔
ایک اور استاد کا کہنا ہے کہ ’’سکولوں کو کھولنے سے پہلے ان میں کھڑا پانی نکال کر ان کی مرمت کرنا چاہیے تھی تاکہ بچے اور اساتذہ ملیریا اور دیگر بیماریوں نیز عمارت منہدم ہونے کے خطرات سے محفوظ رہیں۔‘‘ کئی اساتذہ یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ ابھی تک راستے مکمل طور پر بحال نہیں ہوئے اور بعض جگہوں پر مزید پانی بھی آ رہا ہے۔ ان حالات میں ان کے لئے اپنے گھروں سے سکول جانا ممکن نہیں ہے۔
جعفر آباد میں گوٹھ غلام محمد جمالی اور تحصیل گنداخہ سمیت ہر جگہ ملیریا کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ بعض بچوں کو دو سے زیادہ مرتبہ یہ بیماری لاحق ہو چکی ہے۔ گوٹھ غلام محمد جمالی میں بچوں سمیت چھ افراد ملیریا کے باعث انتقال کر چکے ہیں۔
اشوک کمار کہتے ہیں کہ ’’محکمہ تعلیم نے بچوں کو ملیریا سے بچانے کے لئے محکمہ صحت سے اقدامات کی درخواست کی ہے اور امید ہے کہ اس پر جلد عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔‘‘
وحید احمد کو ایک طرف اپنی صحت سے متعلق خطرات لاحق ہیں تو دوسری طرف تعلیم کا حرج ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ پڑھ لکھ کر اپنے گھرانے کی زندگی بدلنا چاہتا ہے جس کا فی الوقت کُلی انحصار اس کے والد کی پینشن پر ہے۔ اس کے والد ایک قریبی گاؤں کے پرائمری سکول میں نائب قاصد تھے جو دو سال پہلے وفات پا چکے ہیں۔ وحید سیلابی پانی اترنے کے منتظر ہے تاکہ بلا خوف و خطر سکول جائے اور اپنے خواب پورے کر سکے۔
تاریخ اشاعت 5 دسمبر 2022