'فلٹر لگ گئے مگر چلائے گا کون؟' اٹک کے دیہات میں کروڑوں مالیتی واٹر فلٹریشن پلانٹ بے کار

postImg

محمد صابرین

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'فلٹر لگ گئے مگر چلائے گا کون؟' اٹک کے دیہات میں کروڑوں مالیتی واٹر فلٹریشن پلانٹ بے کار

محمد صابرین

loop

انگریزی میں پڑھیں

شیخ محمد سعید کے دن کا بیشتر حصہ پینے کے صاف پانی کو ڈھونڈنے میں گزر جاتا ہے کیوں کہ ان کے بقول حکومت نے سرکاری خرچے پر پانی صاف کرنے کا پلانٹ لگایا تھا وہ عرصہ دراز سے خراب پڑا ہے۔ اس لیے انہیں اپنے دن کے آغاز پر ہی ایسے گھر کی تلاش رہتی ہے جن کے نل سے صاف پانی آتا ہو اور وہ پانی دینے کے لیے راضی بھی ہوجائیں۔

محمد سعید کا تعلق پنجاب کے بالائی ضلع اٹک کے تاریخی قصبے فقیر آباد ہے جس کا پرانا نام لارنس پور تھا۔ اس قصبے کی آبادی لگ بھگ آٹھ ہزار کے قریب ہے اور اس میں اکثر مقامات پر زیر زمین پانی پینے کے قابل نہیں۔ چند ایک گھروں میں صاف پانی آتا ہے تو باقی گاؤں والے بھی انھی گھروں سے بھر کر لے کر جاتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ تین سال پہلے یہاں حکومت نے ایک فلٹریشن پلانٹ لگایا تھا جو چند ہی دن چل پایا۔ اس کی وجہ ان کے بقول یہ ہے کہ گاوں میں جس آدمی کو یہ پلانٹ چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ اخراجات اور دیگر مسائل کی وجہ سے اسے جاری نہ رکھ سکا۔

اسی ضلع کی تحصیل حضرو کے گاؤں غور غشی کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ یہاں بھی 2020 میں ایک سرکاری واٹر فلٹریشن پلانٹ لگایا گیا جو مقامی لوگوں کے مطابق بمشکل ایک مہینہ ہی چل سکا۔

گاؤں کے رہائشی محمد صفدر کے مطابق اس پلانٹ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہوا کہ جس شخص کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ اسے سنبھال نہیں سکا۔ اس کی بڑی  وجہ یہ تھی کہ اسے اس پلانٹ کا بجلی کا بل جمع کرانے کے لیے گھر گھر سے پیسے اکٹھے کرنا پڑتے تھے جو مشکل کام تھا۔

ان کے مطابق اس پلانٹ کے بند ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ آبادی سے دور تھا۔ لوگ یہاں سے کم ہی پانی لینے آتے تھے اسی لیے پھر وہ بجلی کے بل کی مد میں پیسے دینے کو بھی تیار نہیں تھے۔

تین سال قبل 2020 میں حکومت نے ضلع اٹک کی تین تحصیلوں اٹک، حضرو اور حسن ابدال میں عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے 60 ملین (چھ کروڑ) روپے کی لاگت سے 45 واٹر فلٹریشن پلانٹ لگائے تھے۔ان پلانٹس کی تنصیب کی ذمہ داری محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو دی گئی تھی۔

ان میں سے پانچ پلانٹ اٹک شہر، چھ تحصیل اٹک کے گاؤں فقیر آباد، حاجی شاہ، گولڑہ، سروالہ، ڈھیر اور گوندل میں، حسن ابدال شہر میں چار جبکہ اس تحصیل کے گاؤں حصار اور شاہیہ میں ایک ایک پلانٹ لگایا گیا تھا۔ اسی طرح تحصیل میں شہری آبادی کے لیے تین جبکہ پیتھی، رحموں، مراڑیہ، ملاں منصور، فورملی، حیدرا، تاجک، ویسہ، کاملپور موسیٰ، ہارون، حمید، یاسین، ملہو، خگوانی، کالوکلاں، کالو خورد، بہبودی، غورغشتی، شینکہ، قطب بانڈی اور جلالیہ نامی گاؤں میں ایک ایک فلٹر یشن پلانٹ نصب کیا۔

جب یہ پلانٹ لگائے گئے تھے تو اس وقت کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے، جن کا تعلق اٹک سے ہے، میڈیا کو بتایا تھا کہ یہ قدم خاص طور پر تحصیل حضرو اور اٹک کے کچھ علاقوں میں پیتھولوجیکل آلودگی میں اضافے کے باعث اٹھایا گیا ہے جس کے نتیجے میں ہیضہ، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ اور بچوں کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

یہ پلانٹ ایک معروف کمپنی سے خریدے گئے تھے اور پھر اسی کمپنی نے انہیں مقررہ مقامات پر نصب بھی کیا۔

اس نمائندے نے ان 45 پلانٹس میں سے 30 کا دورہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 8 مکمل طور پر بند پڑے ہیں جبکہ بیشتر پلانٹ کے فلٹر تبدیل نہیں کیے گئے۔

پلانٹس کی تنصیب کے بعد شہری علاقوں میں ان کی دیکھ بھال میونسپل کمیٹی کے سپرد تھی لیکن دیہات میں ان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی بھی مناسب بندوبست نہیں کیا گیا اور اس کی ذمہ داری دیہات کے لوگوں پر چھوڑ دی گئی۔ مقامی لوگوں کے مطابق جب پلانٹ لگائے گئے تو دیہات کے لوگوں نے رضا کارانہ طور پر یوزر کمیٹیاں تشکیل دیں لیکن وہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکیں۔ کیونکہ اس کے لیے بجلی کے بل اور مرمت کے لیے ایک تو کافی رقم درکار تھی دوسرا ان کو وقت پر چلانا اور پھر بند کرنا بھی ضروری تھا۔

محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے سب ڈویژن آفیسر(ایس ڈی او) ارشاد ناز کے مطابق ان کے ادارے  کا کام واٹر سپلائی سکیم یا واٹر فلٹر یشن پلانٹ کی تنصیب کرنا ہی ہوتا ہے۔ شہروں میں اس کو چالو رکھنے کی ذمہ دار میونسپل کمیٹی نبھاتی ہے لیکن دیہات میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے کہ ان کے لیے کسی سرکاری اہلکار کی ڈیوٹی لگائی جائے۔

وہ بتاتے ہیں کہ 1997 سے پہلے تک ایسا نظام نہیں تھا بلکہ دیہات اور شہروں میں ایسے منصوبوں کو چلانے کی ذمہ داری بھی انہیں محکمہ نبھاتا تھا جس کے لئے حکومت علیحدہ فنڈ مختص کرتی تھی اور تمام سکیمیں کامیابی سے چلا کرتی تھیں۔ لیکن پھر یہ پالیسی بدل دی گئی۔

وہ بھی دیہات کی سطح پر واٹر فلٹریشن پلانٹس جیسے منصوبوں کی ناکامی کو حکومتی سرپرستی نہ ہونے سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ شروع شروع میں تو مقامی لوگ اس میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں لیکن پھر یہ دلچسپی قائم نہیں رہ سکی اور دوسرا وہ لوگ چونکہ نان ٹیکنیکل ہوتے ہیں اس لیے ان پلانٹس کی صحیح دیکھ بھال کا علم نہیں ہوتا۔

ان کی بات کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ تحصیل حضرو میں لگے ہوئے بیشتر پلانٹس دیکھ بھال اور مرمت کے بغیر ہی چل رہے ہیں۔

گاؤں حمید میں بھی ایک ایسا ہی پلانٹ ہے جو کہنے کو تو چل رہا ہے لیکن مقامی لوگوں کے مطابق یہ جب سے نصب کیا گیا ہے اس کے فلٹر تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ اس گاؤں کے رہائشی مسلم خان کے مطابق جب اس کا فلٹر ہی تبدیل نہیں کیا گیا تو پھر یہ صاف پانی کیسے فراہم کرسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے اس پر لاکھوں روپے ضائع کردیے ہیں۔

تحصیل حسن ابدال کے گاؤں حصار اور کامل پور موسی میں بھی فلٹریشن پلانٹ بظاہر چل رہا ہے لیکن مقامی لوگوں کے مطابق تین سال میں ایک بار بھی اس کی مرمت نہیں ہوئی اور نہ ہی فلٹر تبدیل کیا گیا ہے۔

اٹک شہر میں فلٹریشن پلانٹ فروخت کرنے والے ایک نجی کمپنی کے ملازم محمد صدیق ایسے پلانٹ نصب کرنے اور اس کی مرمت کا دس سال تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ دو سال بعد کسی بھی فلٹر یشن پلانٹ کی مرمت ضروری ہے اور اس پر نوے ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک خرچ آتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر زیر زمین پانی اور اس پلانٹ سے حاصل ہونے والے پانی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

ان کے مطابق فلٹر کی بروقت تبدیلی سب سے ہم چیز ہے جو مختلف علاقوں کے زیر زمین پانی کے آلودگی کے حساب سے تبدیل کیا جاتا ہے۔ مثلا جس علاقے میں پانی زیادہ آلودہ ہے اور وہاں پر پلانٹ کا استعمال زیادہ ہے تو وہاں سال میں تین بار بھی فلٹر بدلنا پڑ سکتا ہے۔

لیکن ہر جگہ ایسا ہی نہیں ہے اس ضلع میں ویسہ، شینکہ اور جلالیہ ایسے دیہات جہاں پر مقامی لوگوں کی کاوش سے یہ پلانٹ کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔

ویسہ کے رہائشی اور مقامی سطح پر ایک فلاحی تنظیم چلانے والے شہزاد خان کے مطابق ان کے گاؤں کی آبادی 10 ہزار سے بھی زیادہ ہے اور جب یہ پلانٹ لگایا جا رہا تھا تو حکام کو آگاہ کیا تھا کہ یہ ضرورت پوری نہیں کرپائے گا لیکن وہ لگا کرچلے گئے۔

ان کے بقول بعد میں ان کی تنظیم نے لوگوں کی مدد کے لیے8 لاکھ روپے خرچ کرکے اس کی صلاحیت اور معیار بڑھا دیا ہے۔ اب مقامی لوگ خود اس کی دیکھ بھال کررہے ہیں اور ہر سال اس کی مرمت پر آنے والا کم از کم ایک لاکھ روپے کا خرچ بھی خود ہی دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کا بل جو 15 سے 20 ہزار تک آتا ہے وہ بھی ان کی تنظیم ہی ادا کرتی ہے۔

شینکہ اور جلالیہ میں لگے ان پلانٹس کی دیکھ بھال مقامی فلاحی تنظیمیں کررہی ہیں۔

اٹک سٹی کے سابق ناظم رانا شوکت کہتے ہیں کہ حکومت نے کروڑوں روپے خرچ کرکے عوام کی بہتری کے لیے فلٹریشن پلانٹ تو لگادیے لیکن اب ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ان کی صحیح طرح سے دیکھ بھال نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے ایک تو قومی خزانے پر بوجھ پڑ رہا ہے اور اس کا عوام کو فائدہ بھی نہیں ہوا۔

دیہی مسائل پر کام کرنے والے سماجی کارکن شہزاد خان کہتے ہیں دیہات میں چونکہ کوئی میونسپل نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مستقل ادارے ہیں یعنی سڑک، سولنگ، نالی اور دیگر تعمیراتی کام جو دیہات میں لگائے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گھوٹکی میں کروڑوں کی لاگت سے لگائے گئے واٹر فلٹریشن پلانٹ 2 ماہ بھی نہ چل سکے

اس لیے حکومت ان کی دیکھ بحال اور مرمت سے بری الذمہ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کوئی واٹر فلٹریشن پلانٹ لگ جائے یا سیوریج کے پائپ دیہات میں پہنچ جائیں تو انہیں چلانا، ان کی دیکھ بھال، معمول کی مرمت اور ان پر ہونے والے دیگر تمام اخراجات اہل دیہہ کی ذمہ داری بن جاتے ہیں جبکہ شہروں اور قصبوں میں یہ ذمہ داری سرکار کے پاس رہتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب اور صاف صفائی کی ذمہ داریاں گورنمنٹ اٹھائے جس طرح قصبوں اور شہروں میں باقاعدہ قائم کیے گئے اداروں کے ذریعے اٹھائی جاتی ہیں تو ہی ایسے منصوبے کامیاب ہوسکتے ہیں۔

اٹک میں پانی کی جانچ کے لیے قائم ایک لیبارٹری میں کام کرنے والے فہد حسن خان بتاتے ہیں کہ اس لیبارٹری میں ضلع کے مختلف علاقوں سے پینے کے پانی کے روزانہ اوسطاً پانچ نمونے آتے ہیں جن میں سے تین نمونے پینے کے قابل نہیں ہوتے۔ فہد حسن خان نے کہا کہ لوگوں میں پینے کا پانی ٹیسٹ کروانے کی اہمیت کے بارے میں بالکل آگہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین کے مطابق پینے کے پانی کو ہر تین ماہ بعد ٹیسٹ کروانا ضروری ہے کیونکہ زیر زمین پانی کی کوالٹی میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں اور اس تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوے ہر گھر میں واٹر فلٹر لگوانا بہت ضروری ہے۔

تاریخ اشاعت 11 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد صابرین کا تعلق ضلع اٹک کے گاؤں دکھنیر سے ہے ۔ گزشتہ تین دھائیوں سے انگریزی، اردو اخبارات اور نشریاتی اداروں کیلیے بطور فری لانس جرنلسٹ کام کر رھے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.