گوجرانوالا ڈویژن میں کھاد کی قیمتیں بےلگام، ربیع سیزن میں غذائی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ

postImg

احتشام احمد شامی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

گوجرانوالا ڈویژن میں کھاد کی قیمتیں بےلگام، ربیع سیزن میں غذائی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ

احتشام احمد شامی

loop

انگریزی میں پڑھیں

اقبال ساہی گوجرانوالہ کے نواحی قصبہ ایمن آباد میں دس ایکڑ زرعی زمین کے مالک اور روایتی کاشت کار ہیں۔ وہ سال میں دو فصلیں گندم اور چاول اگاتے ہیں اور اگیتی چاول کے بعد ڈیڑھ ماہ کے لیے کچھ زمین پر مٹر بھی کاشت کرلیتے ہیں۔

اقبال آج کل پریشانی سے دوچار ہیں اور اس کی وجہ کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے گندم کی ایک ایکڑ فصل میں چار بوری یوریا ڈالتے تھے۔ لیکن اب جو حالات ہیں ان میں شاید وہ  تین بوری سے زیادہ نہیں ڈال سکیں گے۔ اگر کھاد بلیک میں خریدنا پڑی تو سارا منافع ڈیلر ہی لے جائیں گے۔

اقبال کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں ہر بڑے ڈیلر کے گودام میں ہزاروں بوری کھاد پڑی ہے جو زیادہ منافعے کے لیے ذخیرہ کی گئی ہے۔ اس بات کا سبھی کو علم ہے۔ یقیناً صوبائی حکومت بھی اس سے باخبر ہو گی لیکن اس نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی۔

گوجرانوالہ ، سیالکوٹ ، گجرات ، منڈی بہاوالدین ، حافظ آباد ،نارووال اور وزیر آباد و دیگر اضلاع میں چاول کی اگیتی ورائٹی 386 کی کٹائی شروع ہوچکی ہے۔ 'کائنات 'کی کٹائی اکتوبر کے پہلے ہفتے اور چاول کی سب سے اعلیٰ قسم سپر باسمتی کی کٹائی اکتوبر کے آخری ہفتے شروع ہوگی۔

دھان کی ورائٹی 386 کی کٹائی کے بعد فارغ ہو نے والی زمین پر بیشتر لوگ مٹر کاشت کر لیتے ہیں۔ ڈیڑھ ماہ میں یہ فصل تیار ہو جاتی ہے جس کے بعد اسی کھیت میں نومبر کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں گندم کی کاشت شروع ہوتی ہے اور اس کے ساتھ سپر باسمتی چاول کی جگہ بھی گندم کاشت کر لی جاتی ہے۔

 فصل کی اچھی پیداوارکے لیے کھاد کا استعمال ضروری سمجھا جاتا ہے۔کاشت کار گندم کے لیے کھاد کی بکنگ پہلے ہی کرا لیتے ہیں

ایوان زراعت پنجاب کے صدر اور سابق ایم پی اے چودھری ناصر چیمہ بتاتے ہیں کہ لگ بھگ تیس فیصد کاشتکار اپنی جیب سے کھاد خریدتے ہیں باقی تقریبا ستر فیصد آڑھتیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ آڑھتی کاشتکاروں کو کھاد ، ڈیزل اور بیج خرید کر بطور ایڈوانس دے دیتے ہیں اور فصل تیار ہونے پر مرضی کے نرخ پر اٹھا لیتے ہیں۔ چونکہ یہ سب فریقین کی باہمی رضامندی سےہوتا ہے اس لئے کھلے عام ہورہا ہے۔

کھاد کی قیمتوں کی نگرانی محکمہ زراعت کرتا ہےتاہم مارکیٹ کی صورتحال دیکھ کر لگتا ہے کہ اس پر کسی ادارے کا کنٹرول نہیں۔

پنجاب حکومت کہتی ہے کہ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور محکمہ زراعت کے حکام کھاد کی سرکاری قیمتوں پر فروخت یقینی بنائیں گے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کریں گے۔

لیکن مارکیٹ میں حالات مختلف ہیں۔ ڈی اے پی کھاد کی سرکاری قیمت 12 ہزار910 روپے بوری(50 کلو گرام) ہے۔ لیکن یہ کہیں بھی 14 ہزار سے کم میں دستیاب نہیں۔

اسی طرح یوریا کی بوری کا سرکاری ریٹ تین ہزار 420 روپے ہے مگر یہ چار ہزار 200 روپے تک بک رہی ہے۔ زرخیز اور سرسبز کھاد بھی سرکاری نرخ سے ڈیڑھ ہزار روپے مہنگی فروخت کی جا رہی ہیں۔

کھاد کی ذخیرہ اندوزی یا پیشگی خریداری؟

اسحاق بٹ مارکیٹ کمیٹی گوجرانوالہ کی ایڈوائزری کونسل کے سینئر رکن رہے ہیں اور بطور کاروباری شخصیت کمیٹی کو سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ کھاد کی کوئی قلت نہیں لیکن بڑے ڈیلروں نے مارکیٹ کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

"ڈیلروں نے اگلے سیزن میں ممکنہ ڈیمانڈ کے حساب سے کھاد خرید کر گودام بھرلیے ہیں۔ بڑے سٹاکسٹ فیکٹریوں سے معاملہ کرتے ہیں ۔ تھوک میں لاکھوں بوریاں اٹھا کر رعایت لے چکے ہیں اور اب مرضی کے ریٹ پر بیچیں گے۔یہ دونوں طرف سے مال بناتے ہیں۔

ہفتہ دس دن تک چارے اور سبزیوں کی کاشت شروع ہوگی تو کھاد کے ریٹ بڑھیں گے ۔ آپ توقع رکھیں کہ سردیوں میں سبزیوں کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کررہے ہوں گے۔"

کھاد ڈیلر ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے اسحاق بٹ کے الزامات کو تسلیم نہیں کرتے۔ کھاد ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما رانا راشد کا ماننا ہے کہ جسے ذخیرہ اندوزی کہا جاتا ہے وہ کھاد کی پیشگی خریداری ہے۔ سیزن میں فیکٹریوں سے کھاد مہنگی ملتی ہےتو منافع کم ہو جاتا ہے۔ اس لیےہر ڈیلر چاہتا ہے کہ وہ سیزن سے پہلے کھاد خرید لے۔

وہ کہتے ہیں کہ بڑے ڈیلر کا سالانہ دو سے تین ارب روپے جبکہ چھوٹے ڈیلر کا سالانہ 25 سے 50کروڑ روپے تک کھاد کا کاروبار ہوتا ہے۔

"جب آپ اربوں روپے کا کام کررہے ہوتے ہیں تو منافع بھی درکار ہوتا ہے۔ ہم کوئی فلاحی ادارہ نہیں چلا رہے بلکہ کاروبار کررہے ہیں۔ کھاد کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا ڈالر کی قیمتوں سے براہ راست تعلق ہے۔"

گوجرانوالہ میں محکمہ زراعت توسیع کے ریجنل ڈائریکٹر محمد جاوید بتاتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے ڈائریکٹروں اور ڈپٹی ڈائریکٹروں کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات تفویض کردیے ہیں۔ وہ ذخیرہ اندوزی کی شکایت پر گوداموں پر چھاپہ مار سکیں گے اورگراں فروشی پر دکان دار یا کھاد ڈیلر کو گرفتار کر کے جیل بھجوا سکیں گے۔

"شکایت کےلیے ٹول فری زرعی ہیلپ لائن نمبر 080017000 پر بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے  اور فون نمبر 03002955539 پر ایس ایم ایس یا واٹس ایپ شکایت کا اندراج کروایا جاسکتا ہے۔ "

وفاقی وزارت تجارت کے ترجمان چودھری نوید الحق نے بتایا کہ ملک میں ربیع سیزن کے لیے کھاد کی کوئی قلت نہیں ۔ضرورت کے مطابق 33لاکھ ٹن کھاد کا ذخیرہ موجود ہے۔نگراں وزیر تجارت ڈاکٹر گوہراعجاز واضح کرچکے ہیں کہ کھاد کی صنعت کو گیس کی سپلائی بلاتعطل برقرار رکھی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بدین میں یوریا کھاد کا بحران اور بلیک مارکیٹنگ: انتظامیہ 'طاقتور ذمہ داروں' کے سامنے بے بس

ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ کسانوں کو سرکاری نرخوں پر کھادوں تک رسائی حاصل ہو۔ کھاد مہنگی فروخت کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

نیشنل فرٹیلائزرز ڈویلپمنٹ سنٹر کے ریسرچ آفیسر ڈاکٹر یاسر محمود بتاتے ہیں کہ ملک میں کاشت کے مطابق ہر سال 66 لاکھ ٹن یوریا اور 22 لاکھ ٹن ڈی اے پی استعمال ہونی چاہیے۔ لیکن متواتر دوسرے سال ڈی اے پی کا استعمال کم رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ سال ڈی اے پی کھاد 18 لاکھ ٹن استعمال کی گئی اور رواں سال امکان ہے کہ اس کی کھپت 12 لاکھ ٹن رہے گی۔

"ڈی اے پی کا کم استعمال اوسط پیداوار متاثر ہونے کے خطرے کی نشان دہی کر رہا ہے۔ ڈالر اور گیس کی قیمتیں بڑھنے سے ڈی اے پی مہنگی ہو گئی ہے۔ درمیانے درجے کا کاشتکار یہ بوجھ برداشت نہیں کر پا رہا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ڈی اے پی کھاد کا استعمال کم کرنے پر مجبور ہے۔"

تاریخ اشاعت 22 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.