'لاپتہ' محنت کش: پشاور کے مشہور تارو کباب کا خفیہ جزو خواتین کی محنت ہے!

postImg

اسلام گل آفریدی

postImg

'لاپتہ' محنت کش: پشاور کے مشہور تارو کباب کا خفیہ جزو خواتین کی محنت ہے!

اسلام گل آفریدی

پشاور کے تارو کباب اپنے خاص ذائقے اور لذت کی بنا پر ملک بھر میں مشہور ہیں۔ یہ کباب شہر کے مشرقی حصے میں جی ٹی روڈ کے قریبی علاقے تارو میں رامبیل ہوٹل پر ملتے ہیں جنہیں کھانے کے لئے دیگر شہروں سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے۔

لذیز ہونے کے علاوہ ان کبابوں کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ان کی تیاری کے بیشتر مراحل خواتین کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں۔

چھپن سالہ زر بی بی انہی خواتین میں سے ایک ہیں۔

وہ روزانہ صبح آٹھ بجے قریبی گاؤں سے اس ہوٹل پر آتی ہیں اور دوپہر ڈھائی بجے تک یہاں کام کرتی ہیں۔ یہاں وہ ہاتھوں سے کباب کا قیمہ اور مصالحہ تیار کرتی ہیں۔ان کے دو شادی شدہ بیٹے ہیں جو الگ گھروں میں رہتے ہیں۔

زر بی بی چونکہ ان پر بوجھ نہیں بننا چاہتیں اس لئے خود کام کر کے روزی کماتی ہیں۔

اس ہوٹل کے مالک رامبیل گل کے بیٹے روایل گل تیار شدہ قیمے کو کوئلوں پر بھون کر اور گھی میں تل کر کئی طرح کے کباب تیار کرتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں یہ ہوٹل ان کے دادا حضرت گل نے شروع کیا تھا اور پچھلے چالیس سے ان کے والد اسے چلا رہے ہیں۔اس عرصے میں انہوں  نے یہاں مقامی علاقے کی تقریباً 50 خواتین کو روزگار مہیا کیا ہے جن میں بیشتر بیوہ اور غریب ہیں۔

ہوٹل پر کباب کھانے کے لئے آئے افغان شہری عزیزاللہ کہتے ہیں کہ وہ مہاجر کی حیثیت سے پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور بارہ سال پہلے اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان واپس چلے گئے۔ تاہم جب بھی کسی کام کے سلسلے میں ان کا پاکستان آنا ہو تو وہ تارو کباب کھانے ضرور آتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ کباب لڑکپن میں کھائے تھے اور تب سے اب تک ان کے ذائقے میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا۔

'اجرت کم ہے پر کام کی کمیابی کو دیکھا جائے تو یہ بھی غنیمت ہے'

تارو کباب کی تیاری کے لئے علی الصبح دو یا تین بڑے جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والی خواتین اس گوشت کو ٹکڑوں میں تقسیم کرتی اور پھر اس کا قیمہ تیار کرتی ہیں۔ اس کے بعد کباب کا مصالحہ بنایا جاتا ہے اور قیمے کو مصالحے کے ساتھ شامل کر کے کباب بھوننے اور تلنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔

یہاں کام کرنے والی بیشتر خواتین قریبی علاقے میں رہتی ہیں اور انہیں اس کام کے عوض روزانہ تین سے چار سو روپے اور کچھ گوشت ملتا ہے۔

روایل گل بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں مشینوں پر قیمہ یا مصالحہ تیار کرانے کے بجائے خواتین کے ذریعے ہاتھوں سے یہ کام کیا جاتا ہے۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں ضرورت مند خواتین کو روزگار مہیا کرنے کی دیرینہ روایت ہے جسے وہ برقرار رکھیں گے۔

روایل گل نے بتایا کہ منگل کے روز چھٹی کے باوجود ان خواتین کو پورا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ 

کورونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن میں چالیس روز تک ان کا ہوٹل بند رہا تھا لیکن تب بھی انہوں نے تمام کارکن خواتین کو ناصرف اجرت دی بلکہ انہیں راشن بھی مہیا کیا جاتا رہا۔

زر بی بی کہتی ہیں کہ اگرچہ انہیں اس کام کے عوض ملنے والی اجرت بہت  کم ہے لیکن خواتین کے لئے کام کے موقعوں کی کمیابی کو دیکھا جائے تو یہ بھی غنیمت ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کسی کارکن کو کام کے دوران کوئی مسئلہ درپیش ہو تو مالکان اسے حل کرانے میں بھی ہر طرح کی مدد فراہم کرتے ہیں۔

'خواتین ورکرز کی تعداد ہی کسی کو معلوم نہیں'

خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم د خوالور کی چیئرپرسن خورشید بانو کا کہتی ہے کہ پنچاب اور سندھ کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں خواتین کو کام کرنے کے بہت کم مواقع میسر آتے ہیں۔ معاشرتی روایات اور معاشی سرگرمیوں کی کمی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نجی شعبے میں جو خواتین کام کر رہی ہیں انہیں مناسب اجرت، ملازمتی حقوق اور کام کے لئے سازگار ماحول میسر نہیں ہوتا۔

صبح سے شام تک کام کرنے والی خواتین کو اوسطاً چھ سے آٹھ ہزار روپے ماہانہ مزدوری دی جاتی ہے جبکہ اجرت کی کم از کم حد 26 ہزار روپے ہے۔

زچگی کے ایام میں انہیں معاوضے کے بغیر بھی بمشکل چھٹی ملتی ہے۔ کام کے دوران حادثے کا شکار ہونے والی خواتین کو عام طور پر فوری طبی امداد کے علاوہ کوئی علاج فراہم نہیں کیا جاتا۔

خورشید بانو کہتی ہیں آجر خواتین کارکنوں کے ساتھ نوکری کا کوئی تحریری معاہدہ بھی نہیں کرتے اور کام کرنے والی خواتین  کی اصل تعداد بھی ظاہر نہیں کی جاتی۔

سرکاری و غیرسرکاری سطح پر محنت کش خواتین کو مدد کی فراہمی اس لئے بھی مشکل کام ہے کیونکہ مختلف شعبوں میں ایسی خواتین کی تعداد سے متعلق کوئی مصدقہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پشاور کی سینئر نائب صدر انیلا خالد کا کہنا ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں خواتین کی نمایاں تعداد گھریلو صنعتوں، فیکٹریوں اور گھروں میں کام کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'مشکلیں اتنی پڑیں': سکیورٹی گارڈ خواتین کو درپیش نامناسب حالاتِ کار کا حل کیسے ممکن ہے۔

چیمبر نے ان خواتین کو فنی تربیت کی فراہمی اور انہیں اپنا کام شروع کرنے میں مدد دینے کے لئے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کا انتظام بھی کر رکھا ہے لیکن اس کے لئے ان خواتین کا چیمبر کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے۔

اب تک صرف آٹھ سو خواتین نے اپنی رجسٹریشن کرائی ہے جو اصل سے بہت کم تعداد ہے۔

انیلا خالد کہتی ہیں کہ محنت کش خواتین کو اس بارے میں اپنے گھر کے مردوں اور آجروں سے بھی کوئی آگاہی نہیں ملتی۔

انہوں نے بتایا کہ جب کوئی خاتون اپنا نام چیمبر میں رجسٹر کراتی ہے تو اسے اس کے حقوق سے آگاہ کرنے اور محنت کا بہتر معاوضہ دلانے کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ سلائی کڑھائی کرنے، زیورات اور روایتی آرائشی چیزیں بنانے والی خواتین کے کام کو نمائشوں کے ذریعے بھی لوگوں کے سامنے لایا جاتا ہے۔

خورشید بانو اور انیلا خالد سمجھتی ہیں کہ کسی بھی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو بینک اکاؤنٹ کھولنے، ٹیکس نمبر مہیا کرنے، انٹرنیٹ کے استعمال اور کام کی جگہ پر یونین سازی کی تربیت اور اس حوالے سے عملی مدد دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آجروں کے استحصال سے محفوظ رہیں۔

تاریخ اشاعت 17 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

'اینوں پڑھا کے کیہہ کرنا جے؟' پنجاب کی اعلیٰ تعلیم میں پنجابی زبان

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ

ساہیوال: پاشی دی یاد وچ 'پاشی رھس میلہ'

thumb
سٹوری

'یہ سندھی بولنے والوں پر ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنی ماں بولی کتنی استعمال کرتے ہیں، کمپنیوں کو تو بس صارفین چاہئیں'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

چیٹ جی پی ٹی، ڈیپ سیک کو پشتو بولنا سکھانے کی جانب ایک پیش رفت؛ پشتو کے اے آئی کی دنیا میں داخلے کے لیے 'پشتو پال' کی کاوشیں

arrow

مزید پڑھیں

علی ارقم
thumb
سٹوری

لوک سجاگ جائزہ: خیبر پختونخوا کے سکولوں میں پانچ مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی

پیرس معاہدہ: امریکہ 'دی گریٹ' انوائرمنٹ سے نہیں پیسے سے بنے گا

thumb
سٹوری

'ہم نے 71ء میں ملک کے لیے اپنا گاؤں چھوڑا اور اب تک پریشان ہیں' گلگت بلتستان کا سرفہ رنگا داس احتجاج کا میدان کیوں بنا رہتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

ذاکر بلتستانی

کتاب میلہ: کتاب سے تعلق کمزور سہی مگر ابھی باقی ہے

thumb
سٹوری

'تین سال ہوگئے ہیں ہم نے ٹکے کا کام نہیں کیا، نہ اختیارات ہیں، نہ فنڈز': خیبرپختونخوا کا برائے نام بلدیاتی نظام

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جبہ ڈیم: پانی دوسرے علاقوں کو ملے گا، مقامی لوگ کرائے پر رہیں گے

چینی بنانے سے پہلے ہی شوگر ملز 25 ارب روپے کما لیتی ہیں

اس کے بال دھاگے کے تھےمگر ماں کے ہاتھ کی بنی گڑیا بیش قیمت تھی

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.