'مشکلیں اتنی پڑیں': سکیورٹی گارڈ خواتین کو درپیش نامناسب حالاتِ کار کا حل کیسے ممکن ہے۔

postImg

ارحبا وسیم

postImg

'مشکلیں اتنی پڑیں': سکیورٹی گارڈ خواتین کو درپیش نامناسب حالاتِ کار کا حل کیسے ممکن ہے۔

ارحبا وسیم

رخشندہ کے ساتھ کام کرنے والے مرد ہر وقت گالی گلوچ کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت بے چینی محسوس کرتی ہیں۔ ان کے بقول وہ مرد ان سے ایسی "نامعقول فرمائشیں" بھی کرتے ہیں کہ "میں ان کے ساتھ وقت گزاروں، ان سے ہاتھ مِلاؤں اور ان کے نامناسب لطیفوں پر ہنسوں"۔ 

وہ ایک سال سے زائد عرصے سے جنوب مغربی لاہور میں واقع ایک معروف شاپنگ مال میں بطور سکیورٹی گارڈ کام کر رہی ہیں۔ لیکن انہیں مال کی انتظامیہ سے شکوہ ہے کہ وہ مرد ملازمین کے خلاف خواتین کی شکایات حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتی بلکہ شکایت کنندہ کا نام سب کو بتا دیتی ہے جس کے بعد "مرد ملازمین اسے اس قدر ہراساں کرتے ہیں کہ یا تو وہ خاتون اپنی شکایت واپس لے لیتی ہے یا نوکری چھوڑ جاتی ہے"۔ یہی وجہ ہے کہ "گارڈ خواتین اس مال میں ایک سال سے زیادہ عرصہ ملازمت نہیں کرتیں"۔

رخشندہ شادی شدہ ہیں تاہم ان کے شوہر ان کے آبائی گاؤں میں ہی رہتے ہیں جب کہ وہ خود لاہور میں ایک ہاسٹل میں رہتی ہیں۔ ان کے خیال میں خواتین کام کی جگہوں پر عدم تحفظ اور ہراس کا اسی وقت میں مقابلہ کر سکتی ہیں جب وہ متحدہ ہوں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ "کچھ گارڈ خواتین اپنے ساتھی ملازم مردوں کی ناجائز پیش رفت کا مثبت جواب دیتی ہیں جس کے باعث ایسی خواتین کو ایسے مردوں سے نمٹنے میں مشکل پیش آتی ہیں جو اُن سے فاصلہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں"۔ 

فوزیہ اور نتاشا کو بھی اپنی نوکری سے اسی طرح کی شکائتیں ہیں۔ وہ دونوں لاہور کی ایک تاریخی سرکاری یونیورسٹی کے سکیورٹی کے شعبے میں گارڈ  کے طور پر ملازم ہیں اور شاکی ہیں کہ کام کے دوران انہیں اکثر بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فوزیہ کا کہنا ہے کہ "لوگ ہمیں ان پڑھ سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہم سے حقارت بھرا سلوک کرتے ہیں"۔ 

ان کی ساتھی نتاشا کا کہنا ہے کہ کچھ طلبا یونیورسٹی کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے باہر کے لوگوں کو کیمپس میں لے آتے ہیں لیکن جب اس معاملے کی تحقیق ہوتی ہے تو یہ طلبا سارا الزام سکیورٹی کے عملے پر لگا دیتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طلبا سوشل میڈیا کے ذریعے ہر وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے رابطے میں رہتے ہیں لیکن سکیورٹی کے عملے کو یہ سہولت دستیاب نہیں۔ چنانچہ کسی تنازعے کی صورت میں گارڈ "اپنا موقف پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور خاموشی سے اپنے نگرانوں کی ڈانٹ ڈپٹ سننے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے"۔

اس قسم کی صورتِ حال میں گارڈ خواتین کو اضافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ، نتاشا کے مطابق، تحقیقات کی صورت میں "مرد گارڈ تو تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں لیکن عورتیں چند ایک ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتیں"۔

انہیں یہ شکایت بھی ہے کہ گارڈ خواتین کے ساتھ بہت سے دقیانوسی تصورات منسلک کر دیے گئے ہیں جیسا کہ وہ مردوں کے برابر کام نہیں کر سکتیں یا یہ کہ وہ مشکل کام کرنے سے گھبراتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس "ہم وہی سخت تربیت حاصل کرتی ہیں جو مردوں کو دی جاتی ہے اور انہی کی طرح ہمیں بھی آٹھ گھنٹے کی پوری شفٹ کے دوران مسلسل کھڑے رہ کر یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ یونیورسٹی میں کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے"۔

ان کے بقول "یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن ہمیں کبھی سراہا نہیں جاتا"۔

کام زیادہ، معاوضہ کم 

لاہور کی اورنج لائن میٹرو ٹرین کے سٹیشن پر کام کرنے والی ایک خاتون گارڈ، صہبا، اپنے گھر میں واحد کمانے والی ہیں۔ وہ کرائے کے مکان میں رہتی ہیں اور ان کے شوہر گردے کی خرابی میں مبتلا ہیں۔ 

اپنے شوہر کا خیال رکھنے کے لیے اکثر انہیں رات دیر تک جاگنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھار صبح دیر سے کام پر پہنچتی ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ جب بھی انہیں دیر ہوتی ہے تو انہیں دو ہزار پانچ سو روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے جو، ان کے مطابق، ان کی پانچ دن کی اجرت کے برابر ہے۔

صہبا سکیورٹی 2000 نامی کمپنی کی ملازم ہیں جو لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین کے لیے سکیورٹی گارڈ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ 

نمیرہ بھی اسی کمپنی کی ملازمہ ہیں اور ایک ٹرین سٹیشن پر ایک سال سے زیادہ عرصے سے بطور گارڈ کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح کچھ عرصہ پہلے انہیں ان کی ہفتہ وار چھٹی کے دن کام پر بلایا گیا حالانکہ اس وقت انہیں تیز بخار تھا لیکن جب وہ کام پر پہنچیں تو انہیں کہا گیا کہ اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ لہٰذا انہیں کوئی اضافی معاوضہ ادا کیے بغیر واپس گھر بھیج دیا گیا۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گارڈ خواتین کو سرکاری تعطیلات پر بھی چھٹی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی اِن چھٹیوں پر کام کرنے کا انہیں اضافی معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔

انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ ان کی تنخواہ میں اکثر کوئی نہ کوئی کٹوتی کر لی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ "میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے کام کر رہی ہوں لیکن ایک مہینے کے علاوہ مجھے کبھی بھی پوری تنخواہ نہیں ملی یہاں تک کہ ان مہینوں میں بھی نہیں جب میں نے کوئی چھٹی نہیں کی"۔

لیکن وہ کہتی ہیں کہ "میں ان کٹوتیوں کے بارے میں کمپنی سے پوچھ بھی نہیں سکتی کیونکہ مجھے اس کی انتظامیہ تک رسائی ہی نہیں ہے"۔

نمیرہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کوئی گارڈ خاتون گھر پر بیمار پڑی ہو تو اس کے باوجود اسے کام پر حاضر ہونے کا کہا جاتا ہے۔ اسی طرح، ان کے مطابق، کام کے دوران بیمار ہو جانے والی خواتین کو بھی اوقاتِ کار ختم ہونے تک گھر نہیں جانے دیا جاتا۔ 

ان کا دعویٰ ہے کہ خواتین کو اضافی کام کا معاوضہ بھی ٹھیک طرح سے نہیں دیا جاتا بلکہ ان کا "شفٹ انچارج اکثر اس معاوضے میں سے کچھ پیسے اپنے لیے رکھ لیتا ہے"۔

ایک بار ان کی ساتھی گارڈ ریحانہ نے کوشش کر کے اس کٹوتی کے بارے میں کمپنی کو شکایت کی تو "شفٹ انچارج نے کاٹے ہوئے پیسے تو واپس کر دیے لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی"۔ 

سکیورٹی 2000 سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اور گارڈ خاتون، شازیہ، کا کہنا ہے کہ ان کا کام روزانہ سہ پہر دو بجے ختم ہوتا ہے لیکن کمپنی کے انتظامی عملے کی نا اہلی کی وجہ سے انہیں محض حاضری لگانے کے لیے اکثر تین بجے تک انتظار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ "اپنی دوسری نوکری پر دیر سے پہنچتی" ہیں اور یوں ان کی "آمدن پر منفی اثر پڑتا ہے"۔

اورنج لائن میٹرو ٹرین کے سٹیشن پر ہی پچھلے 11 ماہ سے کام کرنے والی ایک اور گارڈ، 27 سالہ علیشہ، کا کہنا ہے کہ ایک ہفتہ وار چھٹی کے علاوہ اضافی چھٹی کرنے پر نہ صرف ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے بلکہ انہیں جرمانہ بھی کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں جب انہوں نے ایک رشتہ دار کی موت کا پرسہ دینے کے لیے دو دن چھٹی کی تو انہیں دو ہزار پانچ سو روپے جرمانہ کیا گیا۔ 

وہ چھ ماہ سے حاملہ بھی ہیں لیکن انہیں شکایت ہے کہ دورانِ حمل انہیں ایک چھٹی کرنے کی بھی اجازت نہیں ملی بلکہ اُلٹا انہیں اضافی کام کرنے کا کہا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں بچے کی پیدائش کے لیے بھی چھٹیاں ملنے کی توقع نہیں بلکہ، ان کے بقول، انہیں نوکری سے "استعفیٰ دینا پڑے گا"۔

ان کے مطابق پچھلے چند ماہ میں دو گارڈ خواتین کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ اُن میں سے فرزانہ نامی گارڈ کو وہ جانتی بھی ہیں اور ان کے بارے میں کہتی ہیں کہ "وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ ٹرین سٹیشن پر گارڈ کی نوکری کرتی رہیں لیکن جب ان کے ہاں بچے کی پیدائش کا وقت آیا تو انہیں استعفیٰ دے کر گھر جانے کا کہہ دیا گیا"۔ 

علیشہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ حاملہ گارڈ خواتین کو کہا جاتا ہے کہ کوئی اسامی خالی ہونے کی صورت میں انہیں بچے کی پیدائش کے بعد نوکری پر واپس بلا لیا جائے گا لیکن، ان کے مطابق، "اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ انہیں ضرور ہی دوبارہ کام پر رکھا جائے گا"۔ 

قانون پر عمل درآمد کون کراے گا

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 37 کی ذیلی شق ای میں کہا گیا ہے کہ ملک میں "انسانیت کے تقاضوں سے ہم اہنگ حالاتِ کار یقینی بنائے جائیں گے تاکہ (کچھ دوسری باتوں کے علاوہ) ملازم خواتین کو بچوں کی پیدائش کے لیے درکار مراعات فراہم کی جا سکیں"۔ اس آئینی ضمانت کے تحت ایسی عورتوں کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ تںخواہ کاٹے بغیر انہیں تین ماہ کی چھٹی دینا بھی ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گھریلو ملازم بچوں پر تشدد: با اثر مالکان کے سامنے والدین بے بس اور قانون خاموش۔

لیکن اس آئینی تحفظ کے باوجود علیشہ کو خدشہ ہے کہ ان کی نوکری چلے جائے گی۔ لہٰذا وہ پریشان ہیں کہ آمدنی کا یہ واحد ذریعہ کھو دینے کے بعد وہ "اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ کیسے پالیں گی"۔ 

دوسری طرف سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ کام کی جگہوں کے لیے بنائے گئے قوانین کے تحت ہر کمپنی پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ان کی تنخواہ کاٹے بغیر 14 دن کی سالانہ چھٹیاں اور 10 دن کی اتفاقی چھٹیاں دے جبکہ آدھی تنخواہ پر 16 دن کی طبی چھٹی لینا بھی ملازمین کا قانوںی حقوق ہے۔ اسی طرح یہ قوانین کسی کمپنی کو یہ اجازت بھی نہیں دیتے کہ وہ اپنے ملازمین سے ان کی مرضی کے بغیر ایک ہفتے میں 48 گھنٹے سے زیادہ کام لے۔ 

پنجاب کے محکمہ لیبر کے پبلک انفارمیشن آفیسر داؤد عبداللہ کہتے ہیں کہ ان کے محکمے کی انسپکٹر خواتین وقتاًفوقتاً مختلف دفاتر، فیکٹریوں اور کام کی دوسری جگہوں پر جا کر خواتین کے حالاتِ کار کا معائنہ کرتی رہتی ہیں تاکہ متعلقہ قوانین کا اطلاق یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان جگہوں کی نگرانی کرنے والا یہ عملہ اتنا کم ہے کہ ہر وقت ہر جگہ کا معائنہ یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ 

خواتین کی ترقی کے لیے بنائے گئے صوبائی محکمے نے بھی ملازم خواتین کے لیے ایک فون ہیلپ لائن قائم کر رکھی ہے جس پر وہ اپنی ملازمت سے متعلق کوئی بھی شکایت درج کرا سکتی ہیں۔ لیکن اس محکمے کے پبلک انفارمیشن آفیسر اشفاق بخاری مانتے ہیں کہ سکیورٹی گارڈ خواتین کے مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی گئی لہٰذا ان کے حقوق کا فوری اور موثر تحفظ کیا جانا بہت ضروری ہے۔ 

لیکن ان خواتین کو ملازم رکھنے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم، آل پاکستان سکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن، کا کہنا ہے کہ اس کے ارکان نے ابھی تک صنفی امتیاز کی بنیاد پر دائر کی جانے والی شکایات کے ازالے کے لیے کوئی مجموعی یا انفرادی پالیسی تیار ہی نہیں کی۔ اس کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان میں سے صرف دو، سکیورٹی 2000 اور عسکری گارڈز، ہی خواتین کو ملازم رکھتے ہیں۔ 

تاہم سکیورٹی 2000 کے اہل کار اپنی کمپنی کی ملازم خواتین کی شکایات اور ان کے ازالے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔

نوٹ: اس رپورٹ میں گارڈ خواتین کے اصلی نام استعمال نہیں کیے گئے تاکہ انہیں کسی ذاتی یا پیشہ وارانہ مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ 

تاریخ اشاعت 7 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ارحبا وسیم نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے انگریزی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔ وہ خواتین اور پسماندہ طبقات کو درپیش سماجی و معاشی مسائل پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.