"خاندان کے چار افراد کے قاتلوں کو عدالت سے ضمانت نہ ملتی تو میرا چھوٹا بھائی آج زندہ ہوتا"۔
یہ الفاظ شیخوپورہ کے رہنے والے محمد منشا ڈھلوں کے ہیں جو خاندانی دشمنی کی وجہ سے اپنے تین بھائی اور دو بھتیجوں کی موت کا غم جھیل رہے ہیں۔
منشا ڈھلوں آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "دشمن" جو پہلے ہی دو بھائیوں اور دو بھتیجوں کو قتل کر چکا تھا، اس نے چھ اکتوبر 2023ء کو میرے چھوٹے بھائی صفدر کو بھی بے رحمی سے مار دیا۔
ان کے بقول 56 سالہ صفدر ڈھلوں اس روز صبح کی سیر کے بعد گھر واپس آ رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے ان پر فائرنگ کر دی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے انہیں سول ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق صفدر ڈھلوں کے قتل کا مقدمہ ان کی اہلیہ کی مدعیت میں فیصل، ناصر اور دو نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں وجہ قتل خاندانی دشمنی کو قرار دیا گیا ہے۔
منشا ڈھلوں کہتے ہیں کہ اس بات کو اتنا عرصہ ہو گیا ہے لیکن پولیس ابھی تک قاتل گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
"اب تو صورتحال یہ ہے کہ خاندان کے باقی بچ جانے والے بچے، بوڑھے اپنے ہی گھر میں محصور ہیں اور پولیس دن رات پہرہ دے رہی ہے۔"
اکہتر سالہ محمد منشا شیخوپورہ کے علاقے گھنگ روڈ کے رہائشی اور پاک فضائیہ کے ریٹائر ملازم ہیں۔ ان کے بقول 2013ء میں ان کے خاندان کی اپنے ہی رشتہ داروں سے صرف اس بات پر ناچاقی ہو گئی تھی کہ ان کے بھتیجے ظہیر عباس نے دوسری شادی کر لی تھی۔ اس کی پہلی بیوی چونکہ رشتے داروں کے خاندان سے تھی تو انھوں نے دوسری بیوی کو طلاق دینے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا لیکن بھتیجے نے ایسا نہیں کیا۔
منشا ڈھلوں کے مطابق یکم دسمبر 2014ء کو ظہیر عباس اپنے والد، والدہ، چچا محمد ریحان اور چھوٹے بھائی عدیل عباس کے ہمراہ مخالفین کی ایک فوتگی پر قصبہ ڈیرہ غلام غوث گئے۔ فاتحہ خوانی کے بعد وہ گھر واپس آنے کے لیے نکلے تو طارق، ناصر، فیصل اور قیصر نامی ملزمان نے ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس سے بھائی محمد عباس اور محمد ریحان جبکہ دونوں بھتیجے ظہیر عباس اور عدیل عباس موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔
"اس وقت میں ابوظبی میں ملازمت کرتا تھا، خبر ملی تو فوراً سے واپس پہنچا اور اپنے ہاتھوں سے بھائیوں اور بھتیجوں کی تدفین کی، اس کے بعد دوبار ابوظبی نہیں جا سکا کیوں کہ اس وقت خاندان کو میری ضرورت تھی۔"
محمد منشا کہتے ہیں کہ اس قتل کا مقدمہ تھانہ بھکھی میں درج ہوا تھا لیکن ملزمان دو سال تک مفرور رہے اور پولیس انہیں گرفتار نہیں کر سکی۔ دو سال بعد ملزمان پکڑے گئے تو ان میں سے تین دو سال بعد ہی ضمانت پر رہا ہو گئے جبکہ چوتھے ملزم فیصل کو چھ سال بعد سپریم کورٹ نے ضمانت دے دی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ملزم فیصل رہا ہوا تو اس نے انہیں پھر سے دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں جس کے بارے میں پولیس کو آگاہ بھی کیا تھا لیکن چوںکہ عدالت میں پیش نہیں ہونے کی وجہ سے وہ اشتہاری ہو گیا تھا تو پولیس بھی ملزم تک نہیں پہنچ پائی۔
ملزم فیصل کے حوالے سے ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس قدر خطرناک ہے کہ اس نے ناجائز تعلقات کے شعبے پر اپنی ہی بیوی کو قتل کر دیا تھا۔ اس کیس میں بھی وہ پولیس کو مطلوب ہے۔
ضلع شیخوپورہ میں خاندانی یا ذاتی دشمنیوں کے ایسے واقعات کی تعداد درجنوں میں ہے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق ضلع بھر میں ایسی بڑی خاندانی دشمنیوں کی تعداد 32 ہے جن میں اب تک 139 افراد قتل ہو چکے ہیں۔
پولیس کے مطابق ان 32 ذاتی یا خاندانی دشمنیوں کے اب تک 187 مقدمات درج ہوئے ہیں جن میں 723 نامزد ملزموں اور ان کے سہولت کاروں کو تو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن ان کیسسز میں ملوث 63 مفرور ملزم عدالتوں سے اشتہاری قرار پاچکے ہیں۔
پولیس کے مطابق خاندانی دشمنیوں کے حوالے سے تحصیل مریدکے میں حالات سب سے زیادہ خطرناک ہیں کیوں کہ یہاں پر پچھلے 23 سال میں 39 افراد قتل ہو چکے ہیں۔ ان مقدمات میں ملوث 250 ملزمان کو تو پولیس نے گرفتار کر لیا لیکن 44 ملزمان ابھی تک گرفت میں نہیں آ سکے، اسی لیے وہ پولیس ریکارڈ میں مفرور ہیں۔
تحصیل نارنگ منڈی میں ایسی دشمنیوں کی نذر ہونے والوں کی تعداد 32، فاروق آباد میں 19، قصبہ بھیکھی میں 17 ہے۔
تھانہ فیروز والا کے علاقوں میں درینہ دشمنی کے باعث نو افراد قتل ہو چکے ہیں۔ صفدر آباد میں اب تک 23 افراد قتل ہو چکے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ان دشمنیوں میں سب سے خطرناک خاندانی دشمنی شیخوپورہ کے علاقے خان پور میں سیاسی رہنما اشتیاق ڈوگر گروپ اور شفیع گروپ کے مابین ہے جو 1999ء میں زرعی زمین کے تنازعے پر شروع ہوئی تھی اور اب تک دونوں گروپوں کے 20 افراد کی جان لے چکی ہے۔
دونوں گروپوں کے کل نامزد 83 ملزمان میں سے 82 گرفتار ہوئے چکے ہیں۔
اب بھی دونوں گروپوں کی صورتحال ایسی ہے کہ دونوں گھرانوں کے افراد بغیر گن مین کے گھر سے نہیں نکلتے۔
مریدکے میں مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے رپورٹںگ کرنے والے صحافی محمد اجمل جنہوں نے ان خاندانی دشمنیوں پر بھی رپورٹنگ کی ہے۔ ان کے مطابق شیخوپورہ میں بیشتر خاندانی دشمنیاں ایسی ہیں جو معمولی تکرار سے شروع ہوئیں۔
وہ تحصیل مریدکے میں قصائی گروپ اور بٹ گروپ کے مابین دشمنی کی مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 2006ء صرف ایک گروپ کے مویشی دوسرے گروپ کے کھیتوں میں گھس گئے تھے، اس پر دونوں گروپوں میں معمولی تلخ کلامی ہوئی پھر ایک دن محلے میں مٹی ڈالنے کے معاملے پر تکرار، جھگڑے میں بدل گئی جس میں اب تک ان دونوں "پارٹیوں" کے 20 افراد قتل ہو چکے ہیں۔
ان کے خیال میں یہ دشمنی اس لیے ختم نہیں ہو سکی کیوں کہ دونوں خاندانوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ایک وقت تو یہ تھا کہ بٹ گروپ کے ایک ہی دن میں پانچ افراد قتل کر دیے گئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ 2018ء میں مریدکے میں پنجاب پولیس کے انسپکٹر زاہد راٹھور اپنے دو ساتھیوں سمیت خاندانی دشمنی کی بنا پر قتل کر دیے گئے تھے۔
اسی طرح جنڈیالہ شیر خان کے معروف زمیندار سابق ممبر صوبائی اسمبلی شیر اکبر خان کے والد محمود اکبر خان جو 1998ء میں ممبر قومی اسمبلی رہ چکے تھے وہ بھی اپنے پانچ رشتہ داروں سمیت خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ ان دشمنیوں کی وجہ سے اس علاقے میں دیگر جرائم بھی کافی بڑھ گئے ہیں کیونکہ جو لوگ اشتہاری ہو جاتے ہیں پھر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انھوں نے صرف اپنے مخالفین کو ہی نشانہ بنانا ہے۔ وہ چوریاں اور ڈکیٹیاں بھی کرتے ہیں، چونکہ وہ قانون کی گرفت سے خود کو باہر سمجھتے ہیں اس لیے وہ کسی بھی قسم کی مزاحمت پر کسی کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔
شیخوپورہ پولیس ریکاڑڈ کے مطابق خاندانی دشمنیوں سمیت اس ضلع میں پچھلے 12 سال کے دوران مختلف اقسام کے جرائم کے دوران دو ہزار 918 افراد قتل ہوئے ہیں۔
اسی طرح رواں سال کے ابتدائی 11 ماہ میں شیخوپورہ میں قتل ہونے والوں کی تعداد 276 ہے، محمد اجمل کے مطابق یہ اعدادو شمار انتہائی خطرناک ہیں۔
منشا ڈھلوں کے بقول ان کے خاندان نے قانون کا راستہ اپناتے ہوئے مجرموں کو سزائیں دلانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس کوشش میں سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملا ہے۔
"اب وہ میرے خاندان کے ہر فرد کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہم سب چھپے بیٹھے ہیں، مقتول بھائی صفدر کا بڑا بیٹا دسویں اور چھوٹا ساتویں جماعت کا طالب علم ہے لیکن خوف کی وجہ سے وہ پچھلے دو مہینے سے سکول نہیں جاسکے ہیں"۔
وہ کہتے ہیں کہ کوئی بیٹا یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے باپ کے قاتلوں کو سزا نہ ملے؟ ان کے اندر تو دشمنی کی آگ پنپے گی ہی ناں؟
"میرے بھتیجوں کے اندر بھی ایسا ہی کچھ پنپ رہا ہے جو ان کے رویے سے صاف نظر آ رہا ہے۔ اگر ان کو انصاف نہ ملا تو پھر مستقبل میں وہ کیا کریں گے یا پھر ان کے ساتھ کیا ہو گا یہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ بہرحال میں انہیں ہر حال میں پرسکون رہنے کی تلقین کرتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر یہ بچے بھی دشمنوں کے سامنے آ گئے تو شاید وہ انہیں بھی نہیں بخشیں گے"۔
محمد اجمل کے خیال میں پنجاب میں برادری نظام بھی ہے۔ ہر کوئی اپنی برادری کو دوسری برادری سے بہتر سمجھتا ہے۔ کچھ برادریوں کے حوالے سے بے تکی باتیں اور کہاوتیں گھڑی گئی ہیں جیسا کہ فلاں ڈرپوک ہوتے ہیں اور فلاں بہادر۔ "یہ بھی ان دشمنیوں کی ایک وجہ ہے"۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شیخوپورہ زاہد نواز مروت بھی ان دشمنیوں کی بڑی وجہ "چودھراہٹ" کی خواہش کرنے کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں مخالفین خود کو علاقے میں بڑا چودھری یا طاقتور ثابت کرنے کی جو دوڑ لگی ہوئے ہے وہ انہیں مصالحت اور جھکنے پر تیار نہیں ہونے دیتی۔
" فلاں میں اتنی جرآت کہاں سے آ گئی کہ وہ ہمارے ساتھ دشمنی مول لے، ایسی جھوٹی انائیں بھی معمولی جھگڑوں یا باتوں کو دشمنیوں میں بدلنے کو ہوا دے رہی ہیں"۔
وہ مانتے ہیں کہ دشمنیوں کو پروان چڑھانے میں سست نظام انصاف کا بھی حصہ ہے۔ مقدمات کی سماعت میں تاخیر کی وجہ سے کیس لمبے عرصے تک چلتے رہتے ہیں۔
"قانونی نکات میں سقم کو لے کر اگر ملزمان بے گناہ قرار دے دیے جاتے ہیں تو مقتول کے ورثاء غصے و جذبات میں آکر خود ہی بدلہ لینے نکل پڑتے ہیں"۔
لاہور ہائیکورٹ میں فوجداری مقدمات کی وکالت کرنے والے قاسم اقبال شاکر کا تعلق شیخوپورہ سے ہے۔ وہ چونکہ بیشتر قتل یا اقدام قتل کے کیسوں کی پیروی کرتے ہیں تو ان کے خیال میں شیخوپورہ میں جتنے بھی قتل ہو رہے ہیں ان میں بیشتر واقعات زمین جائیداد اور لین دین کے تنازعات کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
خاندانی دشمنیاں ان کے نزدیک ان معمولی تنازعات کی شدید قسم ہے جس میں انا بھی شامل ہو جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پولیس ابتدائی تحقیقات میں کوتاہی برتتی ہے جس سے ملزمان کو فائدہ ملتا ہے۔
"پولیس آج بھی ایسا کرتی ہے کہ اگر کوئی قتل ہو جائے تو شک کی بنیاد پر بہت سے لوگوں کو تھانے میں بند کر دیتی ہے پھر وہ کسی نتیجے پر پہنچ بھی جائے تو اس کی ایسی ٹریننگ نہیں ہے کہ شواہد خاص کر میٹریل ایویڈینس کو صحیح طرح سے صفحہ مثل پر لا سکے۔ ایک اور وجہ معتبر گواہی کی عدم موجودگی ہے۔ غیر جانبدار گواہ، خواری یا ڈر کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوتے"۔
یہ بھی پڑھیں
آئین شکنی یا آئین کی پاسداری: شیخوپورہ میں احمدی عبادت گاہ کے مینار کیوں گرائے گئے؟
ان کے خیال میں چار پانچ سال بعد عدالت کے سامنے ایسے شواہد نہیں ہوتے جس سے ملزموں کو سزا ہو سکے، اس لیے بیشتر مجرم رہا ہو جاتے ہیں۔
اقبال شاکر کا کہنا تھا کہ پولیس مفرور ملزموں کو جلد گرفتار کر لے، تو بھی تنازعہ جلدی نمٹ سکتا ہے لیکن جب ملزم دوسرے شہروں کی جانب فرار ہو گئے ہوں تو پولیس اطلاع کے باوجود انہیں گرفتار نہیں کرتی کیونکہ ان کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہوتے کہ وہ آنے جانے کے اخراجات برداشت کریں۔
"شہر میں قومی اسمبلی کی چار اور صوبائی اسمبلی کی آٹھ نشستیں ہیں لیکن ایک بھی سیاست دان ایسا نہیں جس نے دو مخالف گروپوں کے مابین صلح کرانے کی کوشش کی ہو۔ وہ اپنے ووٹ کے متاثر ہونے کے ڈر سے ایسے معاملات میں غیر جانبدار رہتے ہیں"۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت اس مسئلے کو ترجیحات میں شامل کرے اور مختلف سیاسی لوگوں کی کمیٹی بنائے جو ضلع میں خاندانی دشمنیاں ختم کرنے میں کردار ادا کرے تو صرف ایک سال میں حالات بدل سکتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شیخوپورہ زاہد نواز مروت پرامید ہیں کہ بہت جلد حالات بہتر ہو جائیں گے، اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ نگران پنجاب حکومت نے نمبرداری نظام دوبارہ موثر انداز میں رائج کرنے کا احسن اقدام اٹھا لیا ہے جس کا آغاز بھی شیخوپورہ سے ہی کیا گیا ہے۔
"امید ہے کہ یہ نمبردار دشمنی میں مبتلا خاندانوں میں صلح کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے"۔
ان کا ماننا ہے کہ پولیس کے علاوہ علاقہ معززین بھی ان دشمنیوں کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تھانہ صدر فاروق آباد میں چار خاندانوں کے نو افراد قتل ہو چکے تھے اور یہ خاندان ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن کچھ علاقہ معززین نے کردار ادا کیا اور ان کے درمیان صلح کرا دی۔ اب ان کی دشمنی دوستی میں بدل چکی ہے۔
تاریخ اشاعت 30 نومبر 2023