فیصل آباد کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں کام کرنے والی نرس پروین اور لیڈی ہیلتھ ورکر فاطمہ کی موت کو چھ ماہ کے قریب کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ ابھی بھی ان کے بچھڑنے کا غم بھلا نہیں پائے۔
شبانہ نامی خاتون نرس تین سال پروین کے ساتھ اکٹھے کام کرتی رہی ہیں۔ ان کے سامنے جب بھی مرحومہ نرس کا ذکر آتا ہے تو وہ ماضی میں کھو جاتی ہیں۔ پروین کی موت سے پہلے کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ 'وہ بڑا مشکل وقت تھا، وارڈز مریضوں سے بھر چکے تھے، کام کا دباؤ بہت زیادہ تھا'۔
پروین ان دنوں حاملہ بھی تھیں چنانچہ جب ان کی طبیعت خراب ہوئی تو ان کے رفقائے کار نے پہلے پہل یہی سمجھا کہ اس کا باعث کام کی زیادتی اور ان کا حمل سے ہونا ہے لیکن جب ان کو سانس لینے میں دقت پیش آنے لگی تو ان کا کورونا ٹیسٹ کروایا گیا جس سے پتہ چلا کہ وائرس ان کے جسم میں داخل ہو چکا ہے۔ ٹیسٹ کے چند ہی روز بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
ہسپتال کی لیڈی ہیلتھ ورکر کی موت کی وجہ بھی کورونا وائرس ہی تھا۔
ان دونوں کے علاوہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے عملے کے 100 کے قریب دیگر ارکان بھی فروری 2020 سے پاکستان میں شروع ہونے والی کورونا وائرس کی پہلی لہر کا شکار بنے تاہم وہ سب اس سے صحت یاب ہو گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس لہر کے دوران فیصل آباد کے مختلف سرکاری ہسپتالوں میں متعین ڈاکٹر اور دوسرے طِبی اہل کار صوبہ پنجاب کے کسی بھی دوسرے ضلعے میں کام کرنے والے طِبی عملے سے زیادہ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے۔ صوبائی محکمہِ صحت سے لئے گئے اعداد و شمار کے مطابق فیصل آباد میں کورونا وائرس کے کل 6385 متاثرین میں سے 376 افراد مختلف سرکاری ہسپتالوں کے اہل کار ہیں۔ ان میں 358 ڈاکٹر، 11 پیرامیڈیکل اہل کار اور سات نرسیں شامل ہیں۔
طبی عملے کی مقامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کورونا کے ان متاثرین میں سے 60 فیصد افراد وائرس کے مریضوں کے لئے مختص وارڈوں میں متعین نہیں تھے بلکہ ان میں وائرس کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ کورونا سے بچاؤ کے لئے درکار حفاظتی سامان-- جس میں پی پی ایز (personal protective equipment) اور ماسک وغیرہ شامل ہیں – کا ان تک مناسب مقدار میں اور مناسب وقت پر نہ پہنچنا تھا۔
وائرس کی دوسری لہر– جو پاکستان میں ستمبر 2020 کے تیسرے ہفتے سے چل رہی ہے – میں بھی اس ضلعے میں اسی طرح کی صورتِ حال نظر آ رہی ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کی انچارج نرس اعجاز فاطمہ کہتی ہیں کہ حکومت نے ان کے ہسپتال کا بجٹ روکا ہوا ہے جس کی وجہ سے ناصرف کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال میں مشکلات پیش آ رہی ہیں بلکہ طِبی عملے کی حفاظت کو یقینی بنانا بھی دشوار ثابت ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس مریضوں کو آکسیجن فراہم کرنے کے لئے کچھ ضروری سامان موجود ہی نہیں۔
اسی طرح ان کے مطابق 'عملے کے لئے این-95 ماسک مناسب تعداد میں موجود نہیں۔ خاص طور پر نرسوں کے لئے تو باقی حفاظتی سامان بھی مطلوبہ مقدار میں دستیاب نہیں'۔
محکمہِ صحت کے کئی دیگر مقامی اہل کاروں کا بھی کہنا ہے کہ این-95 ماسک ہر ہفتے صرف کورونا وارڈ اور آپریشن تھیئٹروں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو فراہم کئے جاتے ہیں۔ باقی جگہوں پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کو یہ ماسک کبھی ملتے ہیں اور کبھی نہیں جبکہ باقی طبی عملہ جو کورونا وارڈ میں کام نہیں کرتا اسے محض سرجیکل ماسک ہی دیے جا رہے ہیں۔
لیکن فیصل آباد حلال احمر میٹرنٹی ہسپتال کے شعبہِ زچہ و بچہ کی سربراہ ڈاکٹر تحسین اسلم کہتی ہیں کہ پیرامیڈیکل اہل کار اور ڈاکٹروں کے علاوہ دیگر طبی عملہ جس جراثیم زدہ ماحول میں کام کرتا ہے اس کی وجہ سے ان میں قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے چنانچہ 'یہ لوگ وائرس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں'۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انہیں بھی تمام تر حفاظتی سامان کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی کہ ڈاکٹروں کو اور کورونا وارڈ میں کام کرنے والے اہل کاروں کو۔
سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر بھی موجودہ صورتِ حال سے مطمئن نہیں۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ضلعی صدر ڈاکٹر نعمان چوہدری کہتے ہیں کہ فیصل آباد میں پی پی ایز اور این-95 ماسک مناسب تعداد میں دستیاب نہیں ہیں۔ 'جو ماسک دستیاب بھی ہیں ڈاکٹر انہیں استعمال کرنے سے گریز کر تے ہیں کیونکہ وہ سانس لینے میں دشواری پیدا کرتے ہیں'۔
نعمان چوہدری کا مزید کہنا ہے کہ وائرس کی دوسری لہر کا سامنا کرنے کے لئے ہسپتالوں میں بیرونی مریضوں کے معائنے کا شعبہ یا تو مکمل طور پر بند کیا جانا چاہئے یا کم از کم اس میں مریضوں کی آمد کو اس حد تک کم کیا جانا چاہئے کہ ان کے درمیان مناسب جسمانی فاصلہ قائم کرنے کی گنجائش پیدا ہو سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'بڑے سرکاری ہسپتالوں میں اس شعبے میں روزانہ چار ہزار سے پانچ ہزار مریض آتے ہیں جن میں سے کئی ایک کو کھانسی ہو رہی ہوتی ہے یا وہ بخار میں مبتلا ہوتے ہیں یا ان میں کورونا وائرس کی کچھ اور علامات نظر آ رہی ہوتی ہیں لیکن ان میں سے اکثر مریض ماسک بھی نہیں پہنتے اور ان کے بیٹھنے کے لئے جگہ بھی محدود ہوتی ہے'۔
لہٰذا، نعمان چوہدری کے مطابق، 'ان سے وائرس کا دوسرے مریضوں، ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کو منتقل ہونے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے'۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے سرکاری ہسپتالوں کی انتظامیہ سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی مریض کو کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروائے بغیر آپریشن تھیٹر میں نہ لے جایا جائے۔ نعمان چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ شرط ابھی جزوی طور پر لاگو ہے لیکن 'اس پر عمل درآمد اس طرح سے نہیں ہو رہا جس طرح ہونا چاہئے'۔
دوسری طرف فیصل آباد کے تین بڑے سرکاری طبی مراکز -- الائیڈ ہسپتال، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور جنرل ہسپتال غلام محمد آباد -- کے انتظامی سربراہ اور فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظفر علی چوہدری دعویٰ کرتے ہیں کہ ضلعے کے طبی ادارے وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ ان کے بقول اس وقت الائیڈ ہسپتال میں 250 اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں 50 ایسے بیڈ موجود ہیں جن پر مریضوں کو فی الفور آکسیجن مہیا کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھٰں
کورونا وبا کے اثرات یا کھاد کمپنیوں کی مَن مانی: ڈی اے پی کی قیمت ایک سال میں دگنی ہو گئی۔
'اس کے علاوہ انتہائی نگہداشت کے وارڈوں میں وینٹی لیٹر بھی پوری طرح فعال ہیں اور کورونا کے مریضوں کے لئے درکار ادویات بھی وافر مقدار میں موجود ہیں'۔
اگرچہ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ فیصل آباد کے ہسپتالوں میں اس وقت مناسب تعداد میں پی پی ایز موجود ہیں لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 'مکمل حفاظتی لباس صرف کورونا وارڈ یا آپریشن تھیٹر میں استعمال کئے جا رہے ہیں' حالانکہ وبا کی سابقہ لہر کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ہسپتال میں کام کرنے والا طبی عملہ کسی بھی جگہ وائرس کا شکار ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ظفر علی چوہدری ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے اس مطالبے کی حمایت بھی نہیں کرتے کہ بیرونی مریضوں کا شعبہ مکمل یا جزوی طور پر بند کر دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا کے ڈر سے یہ شعبہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ 'ہمارے لئے ہر مریض اتنا ہی اہم ہے جتنا کورونا کے مریض ہیں۔ اگر اس کے ڈر سے کسی مریض کا علاج منسوخ کر دیا جائے تو اس کی موت کا ذمہ دار کون ہوگا؟'۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 30 نومبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 9 دسمبر 2021