ملک کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد میں آئندہ ماہ چار قومی اور نو صوبائی حلقوں پر انتخاب ہو گا۔ ابھی تک یہاں الیکشن کا روایتی رنگ تو نہیں جما تاہم آہستہ آہستہ رونق میں اضافہ ہو رہا ہے۔
2018ء کے عام انتخابات میں شہر کی چاروں قومی نشستیں پی ٹی آئی لے گئی تھی مگر اب یہ چاروں سابق ایم این اے پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور پی ٹی آئی نے ان کی جگہ نئے امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ جبکہ ن لیگ نے دو قومی حلقوں میں سابقہ امیدوار برقرار رکھے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی ترتیب کے لحاظ سے شہر کا پہلا قومی حلقہ این اے 101 ہے جس میں مدینہ ٹاون، خیابان کالونی سے لے کر ڈوگر بستی، پیپلز کالونی نمبر2، ریلوے کالونی اور اس سے ملحق کچی آبادی تک کے علاقے آتے ہیں۔
اس حلقے میں شہر کی پوش آبادیوں کے ساتھ متوسط اور محنت کش طبقے کی بستیاں شامل ہیں جہاں ارائیں، راجپوت اور گجر اکثریتی برادریاں سمجھی جاتی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں اس نشست پر تحریک انصاف کے فیض اللہ کموکا کامیاب ہوئے تھے۔ مگر وہ نو مئی کے بعد بیرون ملک جا چکے ہیں۔
یہاں مسلم لیگ ن نے سابق رکن قومی اسمبلی میاں عبدالمنان کے بیٹے عرفان احمد کو امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے رانا عاطف آزاد امیدوار ہیں۔ اس نشست پر سابق سپیکر پنجاب اسمبلی محمد افضل ساہی کے بھائی اکرم ساہی، ندیم آفتاب سندھو اور سابق صوبائی وزیر لطیف نذر بھی پی ٹی آئی کے نام پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے اس نشست پر شیخ محمد افضل کو ٹکٹ جاری کیا ہے تاہم میاں عرفان اور ندیم آفتاب سندھو کو فرنٹ رنر بتایا جا رہا ہے۔ ن لیگ کے میاں عرفان کو پارٹی کے ساتھ ارائیں برادری کا اس حلقے کا کافی ووٹ ہے جبکہ ندیم رانا عطف کو پاپولر پارٹی سپورٹ حاصل ہے۔
اس حلقے میں شامل نعمت کالونی کے رہائشی سابق کونسلر بشیر احمد بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف نے پہلے اکرم ساہی کی جگہ آفتاب سندھو اور اب رانا عاطف کو امیدوار نامزد کیا ہے جن کو زیادہ ووٹر نہیں جانتے۔ دوسرے پی ٹی آئی کے تین چار امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں جس سے پارٹی کی پوزیشن کمزور اور ووٹرز کنفیوز ہو رہا ہے۔
فیصل آباد نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 109 فیصل آباد 9 اب این اے 101 فیصل آباد 7 ہے
اس حلقے میں فیصل آباد کی شہری آبادی شامل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے کا سیریل نمبر بھی تبدیل ہوا ہے جیسا کہ 2018ء کے الیکشن میں یہ فیصل آباد 9 تھا اب فیصل آباد7 ہوگیا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے کی جغرافیائی حدود میں ایک تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اس میں میٹروپولیٹن کارپوریشن کے چارج نمبر 46 کو شامل کیا گیا ہے۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 108 فیصل آباد 8 اب این اے 102 فیصل آباد 8 ہے
یہ حلقہ بھی فیصل آباد کے شہری علاقوں پر مشتمل ہے۔ جس میں نئی حلقہ بندیوں کے تحت فیصل آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے چارج نمبر 49 اور چارج نمبر 50 کو شامل کیا گیا ہے جبکہ چارج نمبر 46 اور چارج نمبر 05 اور فیصل آباد سٹی کے قانون گو حلقہ سمن آباد کو نکال دیا گیا ہے۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 107 فیصل آباد 7 اب این اے 103 فیصل آباد 9 ہے
یہ حلقہ فیصل آباد کے چار شہری حلقوں میں سے ایک ہے۔ اس میں ایک تبدیلی تو یہ آئی ہے کہ اس حلقے کا سیریل نمبر فیصل آباد 7 سے فیصل آباد 9 ہو گیا ہے۔ دوسرا اس حلقےمیں میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے چارج نمبر 05 کو شامل کیا گیا ہے اور فیصل آباد سٹی تحصیل کے قانون گو حلقے فیصل آباد سٹی کو نکال دیا گیا ہے۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 110 فیصل آباد 10 اب این اے 104 فیصل آباد 10 ہے
فیصل آباد کی شہری آبادی پر مشتمل اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یعنی 2018ء کے انتخابات کے وقت جو علاقے اس حلقے میں شامل تھے 2024ء کے انتخابات میں بھی وہی رہیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم پر بدمزگیوں کی وجہ سے اس حلقے میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے قومی و صوبائی نشستوں پر امیدوار الگ الگ انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ جس کی وجہ شاید پارٹی سے زیادہ برادری اور دھڑے بندی پر انحصار ہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے شہر کی نو صوبائی نشستوں میں سےچار اور ن لیگ نے پانچ جیتی تھیں۔
این اے 101 کے نیچے لگ بھگ چار صوبائی حلقے پی پی 111، پی پی 112، پی پی 113 اور پی پی 114 آتے ہیں۔
پی پی 111 میں ن لیگ کے سابق ایم پی اے چوہدری فقیر حسین ڈوگر کا مقابلہ تحریک انصاف کے بشارت علی ڈوگر اور پیپلز پارٹی کے اشفاق حسین سے ہو گا۔ یہاں پی ٹی آئی کے سابق ٹکٹ ہولڈر محبوب عالم سندھو اور ضیا علمدار بھی میدان میں موجود ہیں۔
اس حلقے سے فقیر حسین ڈوگر ماضی میں بھی دو مرتبہ ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں۔
اسی طرح پی پی 112 میں اسرار احمد خان ن لیگ اور پی ٹی آئی کے رانا اسد محمود آزاد نامزد امیدوار ہیں۔ تاہم یہاں سے ن لیگ کے دو سابق ایم پی اے خواجہ محمد اسلام اور حاجی خالد سعید جبکہ پی ٹی آئی کے حسن مسعود اور نجم حسین بھی انتخابی میدان میں خم ٹھونک کر آ چکے ہیں۔
یہاں اسرار احمد خان اور رانا اسد محمود دونوں کا زیادہ تر انحصار پارٹی ووٹوں پر ہے جبکہ دیگر امیدوار حلقے میں ذاتی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس لیے اس نشست پر کوئی بھی اپ سیٹ ہو سکتا ہے۔
پی پی 113 سے ن لیگ کے سابق ایم پی اے رانا علی عباس اور پی ٹی آئی کے شہباز امیر علی نامزد امید وار ہیں۔ جبکہ یہاں سے پی ٹی آئی کے احتشام جاوید، ندیم صادق ڈوگر اور بلال اشرف بسرا بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
اگر تحریک انصاف کے چاروں امیدوار آخر تک میدان میں موجود رہتے ہیں تو ووٹوں کی تقسیم کا زیادہ فائدہ ن لیگ کو ہو گا۔
اس علاقے کے رہائشی اور سیاسی کارکن وسیم کا خیال ہے کہ پی پی 111 اور پی پی 113 میں مسلم لیگ ن کےامیدواروں کا ابھی تک پلہ بھاری ہے تاہم پی پی 112 میں کڑا مقابلہ متوقع ہے۔
پی پی 114 پر مسلم لیگ ن نے اس مرتبہ سابق ڈپٹی میئر شیخ محمد یوسف کو امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر لطیف نذر آزاد اور پیپلز پارٹی کے محمد شکور گجر امیدوار ہیں۔
اس حلقے سے ن لیگ کے سابق ایم پی اے شفیق گجر بھی امیدوار ہیں جو پچھلے الیکشن میں آزاد حیثیت میں 20 ہزار کے قریب ووٹ لے کر ن لیگ کی شکست کا باعث بن چکے ہیں۔
کونسلر بشیر احمد کے مطابق اس صوبائی حلقے پی پی 114 سے لطیف نذر کا پلہ بھاری ہے۔ وہ پہلے بھی یہاں سے جیت چکے ہیں اور انہیں اپنی گجر برادری کے علاوہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔
شہر کا دوسرا قومی حلقہ این اے 102 مرکزی کاروباری علاقے گھنٹہ گھر کے آٹھ بازاروں، ڈی ٹائپ کالونی، ملکھانوالہ اور دیگر ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے۔ جہاں ملک، ارائیں، رحمانی، قریشی، انصاری، راجپوت اور شیخ بڑی برادریاں ہیں جبکہ شہر کی سب سے بڑی مسیحی آبادی وارث پورہ بھی اسی حلقے میں آتی ہے۔
اس نشست پر مسلم لیگ ن نے سابق وزیر عابد شیر علی کو امیدوار نامزد کیا ہے جو گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف کے فرخ حبیب سے ہار گئے تھے۔ تاہم وہ ماضی میں یہاں سے تین بار اور ان کے والد دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔
فرخ حبیب چند ماہ قبل استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرائے تھے۔ لیکن اس نشست پر ن لیگ کے سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے انکار کے بعد وہ الیکشن سے دستبردار ہو گئے تھے۔
اس مرتبہ عابد شیر علی کا مقابلہ تحریک انصاف کے چنگیز خان کاکڑ آزاد اور پیپلز پارٹی کے سٹی صدر رانا نعیم دستگیر سے ہو گا۔ چنگیز خان کے علاوہ یہاں سے پی ٹی آئی کے پرانے کارکن یعقوب راسم مغل بھی الیکشن لڑ رہے ہیں جنہیں پارٹی ورکرز میں پذیرائی مل رہی ہے۔
چنگیز خان کاکڑ اگرچہ پنجاب بار کونسل کے رکن ہیں تاہم وہ پہلے پی ٹی آئی میں فعال نہیں تھے۔ یہاں ن لیگ دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ بہتر پوزیشن میں نظر آتی ہے۔
فیصل آباد کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے حماد احمد سمجھتے ہیں کہ ان شہری علاقوں میں برادری سے زیادہ پارٹی کو ووٹ ڈالنے کا رجحان ہے۔ اگرچہ اس نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار نئے ہیں تاہم انہیں صوبائی حلقوں سے پارٹی کے امیدواروں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ صوبائی حلقوں میں ن لیگ اور پی ٹی آئی نے دونوں بڑی برادریوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو نامزد کیا ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ یہاں قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر دونوں جماعتوں میں کڑا مقابلہ متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی زیادہ تر امیدیں قومی اسمبلی کے امیدوار رانا نعیم دستگیر سے وابستہ ہیں جنہیں راجپوت برادری کے علاوہ پیپلز پارٹی کے پرانے جیالوں کی سپورٹ حاصل ہے۔
اس قومی حلقے کے نیچے دو صوبائی نشستیں پی پی 115 اور پی پی 116آتی ہیں۔
پی پی 115 میں ن لیگ کے سابق ایم پی اے میاں طاہر جمیل، پی ٹی آئی کے شیخ شاہد جاوید (آزاد) اور پیپلز پارٹی کے یعقوب نعیم گل نمایاں امیدوار ہیں۔
میاں طاہر جمیل اس حلقے سے دو مرتبہ ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں اور شیخ شاہد جاوید پی ٹی آئی کے پرانے کارکن ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے یعقوب نعیم گل کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔
یعقوب نعیم کا دعویٰ ہے کہ اس حلقے میں مسیحی برادری کے 45 ہزار سے زائد ووٹ رجسٹر ہیں۔ اگرچہ ن لیگ اس نشست کو آسان سمجھ رہی ہے تاہم پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ یعقوب نعیم گل پولنگ ڈے پر سرپرائز دے سکتے ہیں۔
حماد احمد کے مطابق پی پی 115 سے پیپلز پارٹی نے سابق ایم پی اے ملک اصغر علی قیصر کو چھوڑ کر نعیم یعقوب گل کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اگر وہ مسیحی ووٹرز کی اکثریت کو پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے پر آمادہ کر لیتے ہیں تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہو گی۔
پی پی 116 میں ن لیگ کے رانا احمد شہر یار، پی ٹی آئی کے ملک اسماعیل سیلا آزاد اور پیپلز پارٹی کے ریاض الحق اہم امیدوار ہیں۔
احمد شہریار ن لیگ کے صوبائی صدر رانا ثناء اللہ کے داماد ہیں اور پہلی بار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ پہلے یہاں سے رانا ثنا اللہ الیکشن لڑتے تھے۔ ملک اسماعیل سیلا سابق ایم پی اے ہیں جو پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ یہاں رانا احمد شہریار کی پوزیشن دیگر امیدواروں کے مقابلے میں بہتر بتائی جا رہی ہے۔
شہر کے اگلے قومی حلقے این اے 103 میں جناح کالونی، گلبرگ سے لکڑ منڈی، گوبند پورہ، ناصرت کالونی، سول لائنز ودیگر ملحقہ علاقے شامل ہیں جن میں زیادہ تر سرکاری ملازمین، درمیانے درجے کے تاجر اور صنعتی مزدور رہائش پذیر ہیں۔
ان علاقوں میں انصاری، ملک، راجپوت، ارائیں، جٹ، مغل، شیخ، اعوان اور گجر برادریوں کی آبادی زیادہ ہے۔
اس قومی نشست پر حاجی اکرم انصاری بدستور ن لیگ، رانا مبشر علی پیپلز پارٹی اور علی سرفراز پی ٹی آئی کے نامزد (آزاد) امیدوار ہیں۔ ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے شیخ خرم شہزاد اور ابرار الحق بھی الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ ن لیگ کے سابق ایم پی اے خواجہ محمد اسلام بھی آزاد امید وار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ننکانہ صاحب میں روایتی حریفوں میں مقابلے، بڑی برادریاں کس امیدوار کے ساتھ کھڑی ہوں گی؟
گزشتہ عام انتخابات میں یہاں سے پی ٹی آئی کے خرم شہزاد کامیاب ہوئے تھے جو اب پارٹی چھوڑ چکے ہیں لیکن اب بھی امیدوار ہیں۔ ان سے پہلے ن لیگ کے حاجی اکرم انصاری اس حلقے سے پانچ بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور انہیں اس حلقے میں انصاری برادری کی اکثریت کے باعث پارٹی ٹکٹ ملتا رہا ہے۔
تاہم نئی حلقہ بندی میں یہاں ارائیں برادری اکثریت میں آ گئی ہے اور تعداد کے لحاظ سے انصاری، ملک اور شیخ بالترتیب دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر آ گئے ہیں۔
علاوہ ازیں پچھلے انتخابات میں برادری کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کے رحجان میں نمایاں کمی دیکھی گئی تھی اور اس حلقے کی دو بڑی برادریوں سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے دونوں امیدوار (قومی نشست پر حاجی اکرم انصاری اور صوبائی پر ملک محمد نواز ) ہار گئے تھے۔
غلام محمد آباد کےرہائشی سماجی کارکن آصف انصاری بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے اس حلقے میں میاں علی سرفراز کو امیدوار بنا کر مسلم لیگ ن کے امیدوار حاجی اکرم انصاری کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ علی سرفراز کا تعلق ارائیں برادری سے ہے جو حلقے میں اکثریتی برادری ہے اور ان کے والد زاہد سرفراز بھی شہر کی اہم شخصیت ہیں۔ اگر برادری کھل کر ان کی حمایت میں آ گئی تو اکرم انصاری کے لیے جیتنا آسان نہیں ہو گا۔
اس قومی حلقے کے نیچے دو صوبائی حلقے پی پی 117 اور پی پی 118 آتے ہیں۔
پی پی 117 میں ن لیگ نے چوہدری شیر علی گروپ کے سابق ناظم خواجہ محمد رضوان کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ ن لیگ نے یہ ٹکٹ پہلے سابق ایم پی اے ملک نواز کو دیا تھا لیکن جب فیصلہ واپس لیا گیا تو ملک نواز دستبردار نہیں ہوئے۔ جبکہ ن لیگ کے سابق ایم پی اے خواجہ محمد اسلام بھی میدان میں ہیں۔
یہاں پی ٹی آئی نے رانا بابر کو نامزد کیا ہے جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ اس حلقے سے متعلق ابھی کوئی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح پی پی 118 میں بھی مسلم لیگ ن نے سابق ایم پی اے شیخ اعجاز کو جاری کیا گیا ٹکٹ واپس لے کر ملک نواز کے بھائی سابق میئر ملک محمد رزاق کو ایڈجسٹ کیا ہے۔ ان کا پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے خیال احمد کاسترو سے مقابلہ متوقع ہے جبکہ ن لیگ کے خواجہ محمد اسلام اس حلقے میں بھی بطور آزاد امیدوار موجود ہیں۔
آصف انصاری کا کہنا ہے کہ پی پی 117 میں پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں کے امیدوار نئے ہیں اور ان کی برادری بھی زیادہ نہیں ہے اس لیے ان کی جیت اور ہار کا فیصلہ پارٹی ووٹ سے ہو گا۔ جبکہ پی پی 118 پر ملک محمد رزاق اور خیال احمد کاسترو دونوں برادری، اثر و رسوخ اور مالی اعتبار سے تگڑے ہیں۔
شہر کا آخری قومی حلقہ این اے 104 گلستان کالونی، نشاط آباد، راجے والا، لاثانی ٹاون، گوکھووال، پی ایم سی کالونی، مسلم ٹاون، اسلام نگر، نور پور اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے۔
اس حلقے کی اکثریتی آبادی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے جو کہ حلقے کے گرد و نواح میں واقع ٹیکسٹائل انڈسٹری اور دیگر صنعتی اداروں میں کام کرتی ہے۔ اس حلقے میں راجپوت، انصاری، مغل، ارائیں اور جٹ برادیوں کے علاوہ 20 ہزار کے قریب مسیحی آبادی کا ووٹ قابل ذکر ووٹ ہیں۔
گزشتہ عام انتخابات میں یہاں سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر راجہ ریاض احمد کامیاب ہوئے تھے جو اب ن لیگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس بار انہوں نے پارٹی ٹکٹ اپنے بیٹے کو دلوا دیا تھا۔
اب اس نشست پر ن لیگ سے راجہ یاض کے بیٹے راجہ دانیال، سابق وفاقی وزیر فضل کریم مرحوم کے بیٹے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ حامد رضا اور پیپیلز پارٹی کے بشارت علی امیدوار ہیں۔
یہاں تحریک انصاف کے تین پرانے کارکن نجم الحسن، حسن مسعود اور ضیا علمدار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔تاہم حامد رضا کو پی ٹی آئی کے ساتھ مذہبی ووٹر کی حمایت بھی حاصل ہے۔
ہجویری ٹاون کے رہائشی سابق یو سی ناظم یوسف عدنان کا خیال ہے کہ راجہ دانیال کو ان کے نیچے صوبائی حلقوں کے تینوں ن لیگی امیدواروں نے اگر کھل کر سپورٹ کیا تو اس نشست پر زبردست مقابلہ ہو گا۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی الیکشن میں کارکردگی زیادہ بہتر نظر نہیں آ رہی۔
اس قومی نشست کے نیچے ایک ہی صوبائی حلقہ پی پی 110 پورا اور دو حلقوں کے کچھ علاقے شامل ہیں۔
پی پی 110 سے مسلم لیگ ن نے سابق ایم پی اے مہر حامد رشید کو امیدوار برقرار رکھا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے سابق سٹی صدر حسن ذکا نیازی آزاد امیدوار ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے سابق ٹکٹ ہولڈر حسن مسعود بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔
اس آخری صوبائی حلقے میں مہر حامد رشید کی پوزیشن بہتر دکھائی دے رہی ہے۔
تاریخ اشاعت 24 جنوری 2024