چھ سال قبل جب پلوشہ* کی شادی ہوئی تو اس وقت ان کے شوہر محمد عرفان ایک نِجی سکول میں پڑھاتے تھے جہاں تنخواہ کم تھی اور نوکری عارضی۔ اس لیے وہ ہمیشہ دعا کرتیں کہ عرفان کو کسی سرکاری سکول میں مستقل ملازمت مل جائے۔
ان کی دعا قبول ضرور ہوئی لیکن عرفان کبھی سرکاری سکول میں پڑھا نہیں پائے۔
یکم جون 2020 کی گرم صبح کو وہ ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے علاقے ذوالفقار گڑھی میں واقع اپنے گھر سے سرکاری نوکری پر تعیناتی کا حکم نامہ وصول کرنے کے لیے نکلے لیکن کبھی واپس نہیں لوٹے۔ ان کے گھر والوں کے مطابق عرفان نے انہیں آخری بار اس دِن سہ پہر ڈھائی بجے فون کیا۔ اس کے بعد اُن کا موبائل فون ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔
پلوشہ کہتی ہیں کہ عرفان کا فون مسلسل بند پا کر 'ہم بہت پریشان ہوگئے۔ ہم نے ان کے دوستوں اور رشتے داروں سے ان کے بارے میں دریافت کیا مگر ان کا کچھ پتا نہ چلا۔ میرے بھائیوں نے جمرود اور تحصیل باڑہ کے تھانوں میں ان کی گمشدگی کی رپورٹیں درج کروائیں اور علاقے کی بااثر شخصیات سے بھی رابطہ کیا لیکن ہمیں کوئی معلومات نہ مل سکیں'۔
22 جون کو خیبر پختونوا کے مقامی اخبارات میں ایک خبر چھپی جس میں بتایا گیا کہ پشاور کے جنوب میں واقع متنی کے علاقے میں انسدادِ دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی) کے ساتھ ایک مبینہ مقابلے میں چار افراد مارے گئے ہیں۔ پلوشہ اور ان کے گھر والوں پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب انہیں معلوم ہوا کہ ان 'مارے جانے والے افراد میں عرفان کا نام بھی ہے'۔
پلوشہ کا دعویٰ ہے کہ ان کے شوہر کو مارنے سے پہلے ان پر شدید تشدد کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں: عرفان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر میرے اور بچوں کے سامنے ایک ایسا سوال رکھ دیا گیا جس کا جواب ملنا ممکن نہیں'۔
ابھی بھی عرفان کی موت کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ 'وہ میری زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔ شوہر کے مرنے کی خبر کی تصدیق ہونے کے باوجود بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے'۔
22 جون کی سہ پہر کو جب عرفان کی لاش ان کے آبائی علاقے میں پہنچی تو ان کے رشتے داروں اور مقامی لوگوں نے اسے دفنانے کے بجائے تحصیل باڑہ کے تجارتی مرکز خیبر چوک میں رکھ کر تمام ٹریفک روک دی جس میں افغانستان جانے والی مال بردار گاڑیاں بھی شامل تھیں۔ مظاہرین نے خود کو سیاسی اتحاد کا نام دیا اور صوبائی حکومت سے عرفان کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ عرفان کے خاندان کو ان کی موت کا ہرجانہ دیا جائے اور اُن کی جگہ ان کی بیوہ کو سرکاری نوکری دی جائے۔
یہ احتجاج آٹھ روز تک جاری رہا جس کے بعد صوبائی حکومت نے بالآخر ان کے مطالبات مان لیے۔ سیاسی اتحاد کے صدر کہتے ہیں:’18 جولائی کو عرفان کی بیوہ کو باڑہ میں واقع صاحبزاہ عبدالقیوم خان نامی نیم سرکاری سکول نوکری دے دی گئی جہاں انہیں ماہانہ پندرہ ہزار روپے تنخواہ ملے گی۔انتظامیہ نے عرفان کے لواحقین کی مالی معاونت کرنے اور ان کے دیگر مطالبات بھی جلد پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے‘۔
تاہم پولیس حکام کا اصرار ہے کہ ان مطالبات کو ماننے کا یہ مطلب نہیں کی حکومت نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ عرفان بے قصور مارے گئے۔ ضلع خیبر کے ضلعی پولیس آفیسر ڈاکٹر محمد اقبال کے بقول سکیورٹی اداروں کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عرفان دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شامل تھے تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے سیاسی اتحاد کے مطالبات تسلیم کرنے اور تعزیت کے لیے اُن کے گھر جانے کو اس لیے مناسب سمجھا تاکہ علاقے میں انتشار پیدا نہ ہو اور امن و امان برقرار رہے‘۔
دوسری طرف پلوشہ کا دعویٰ ہے کہ عرفان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ ایک علم دوست انسان تھے جنہیں فارغ وقت میں کتابیں پڑھنے کا شوق تھا ۔’میں نے ان کے ساتھ چھ سال گزارے۔ اگر وہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے تو ان کے قتل پر مجھے اتنا دکھ نہ ہوتا‘۔
ایک ایسا ہی واقعہ اسی سال 22 فروری کو پیش آیا۔ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب پشاور کے پولیس حکام نے مقامی میڈیا کو اطلاع دی کہ انہوں نے شہر کے قریب ریگی کے علاقے میں ایک مقابلے میں چار دہشت گردوں کو مار دیا ہے۔ مارے جانے والے افراد میں لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے اٹھائیس سالہ عدنان شنواری بھی شامل تھے۔ وہ ایک قبائلی سرحدی پولیس، لیویز فورس، کے اہل کار تھے اور دو بچوں کے باپ تھے۔
جب عدنان کی گولیوں سے چھلنی لاش لنڈی کوتل پہنچی تو مقامی لوگوں نے اسے ماورائے عدالت قتل قرار دے کر حمزہ بابا چوک پر احتجاجی دھرنا شروع کر دیا جو اگلے دس دن تک جاری رہا۔ اس مظاہرے میں بھی مطالبات کیے گئے کہ عدنان کی موت کی عدالتی تحقیقات کروائی جائیں، ان کے بھائی کو سرکاری نوکری دی جائے اور ان کے ورثا کو عوضانہ دیادیا جائے۔
عدنان کے والد اسماعیل شنواری خود بھی خیبر پختونخوا کی قبائلی پولیس، خاصہ دار فورس، سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 10 نومبر 2019 کو ان کے علاقے کی پولیس اور انسدادِ دہشت گردی کے محکمے کے اہلکاروں نے اُن کے بیٹے کو ان کے گھر سے گرفتار کیا اور چند گھنٹوں کی پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا۔’ چند روز بعد عدنان کو دوبارہ گھر سے گرفتار کیا گیا مگر اس بار زندہ لوٹنے کے بجائے اس کی لاش گھر پہنچی'۔
اسماعیل کہتے ہیں کہ ان کا بیٹا کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا لیکن 'اگر وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھا بھی تو اسے عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا گیا‘۔
عدنان کی ہلاکت سے کچھ عرصہ قبل ان کے آبائی علاقے لنڈی کوتل میں ایک اور مقامی نوجوان خاطر شنواری اسی قسم کے حالات میں ہلاک ہو چکے تھے۔
خاطر دو بچوں کے باپ تھے اور کراچی میں ٹرک ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے لیکن چھٹیاں گزارنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع اپنے گاؤں پسد خیل آئے ہوئے تھے۔ 17 دسمبر 2019 کو سکیورٹی اداروں نے ایک سرچ آپریشن کے دوران ان کے بیس ہمسایوں سمیت انہیں اس وقت گرفتار کیا جب ان کے گاؤں میں سرحد پر باڑ کی تنصیب کے دوران فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے تین اہلکار ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہو گئے اور تین زخمی ہوگئے۔
پانچ روز بعد جب خاطر کی لاش ان کے گھر پہنچی تو ان کے گھر والوں کے مطابق اس پر جگہ جگہ شدید تشدد کے نشانات تھے۔ لیکن سرکاری مؤقف کے مطابق خاطر سرکاری حراست سے بھاگنے کی کوشش میں ایف سی کے قلعے کی دیوار سے گر کر ہلاک ہو گئے تھے۔
لیکن ان کے رشتے داروں اور مقامی لوگوں نے اس سرکاری مؤقف کو ماننے سے انکار کر دیا اور خاطر کی ہلاکت کو ایک ماورائے عدالت قتل قرار دیے دیا جس پر احتجاج کرتے ہوئے انہوں سات روز تک پاک افغان شاہراہ کو ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا۔
ایسے کئی اور واقعات بھی خیبر پختونخوا میں گذشتہ چند مہینوں میں پیش آ چکے ہیں۔ اگرچہ صوبائی سطح پر کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کے پاس ان کے بارے میں کوئی اعداد و شمار نہیں لیکن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے مطابق اس طرح کے ماورائے عدالت قتل پچھلے کئی سالوں سے پاکستان بھر میں ہوتے چلے آ رہے ہیں۔
اس کمیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اکتوبر 2013 سے لے کر مئی 2018 کے درمیان 1704 دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں ماورائے عدالت قتل کے کل 2127 واقعات ہوئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس عرصے میں ہر چار دنوں میں پانچ لوگ اس قسم کے واقعات میں مارے گئے۔
نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد ماورائے عدالت قتل کی روک تھام کے مطالبے نے زور پکڑا تھا اور اُمید کی جا رہی تھی کہ اس قسم کے مزید واقعات رونما نہیں ہوں گے لیکن یہ سلسلہ آج بھی ماضی کی طرح جاری ہے: ماہر قانون اسد علی
ان میں سب سے نمایاں واقعہ جنوری 2018 میں کراچی میں پیش آیا جب وہاں کی پولیس نے ایک ستائیس سالہ پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں ایک مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا۔ ان کی ہلاکت پر ملک کے مختلف حصوں میں شدید مظاہرے ہوئے جن میں ان کے ورثا کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا گیا مگر ابھی تک ان کی ہلاکت کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو کوئی سزا نہیں ملی۔
خیبر پختونخوا کے معروف ماہرِ قانون اسد علی کہتے ہیں کہ نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد ماورائے عدالت قتل کی روک تھام کے مطالبے نے زور پکڑا تھا اور اُمید کی جا رہی تھی کہ اس قسم کے مزید واقعات رونما نہیں ہوں گے 'لیکن یہ سلسلہ آج بھی ماضی کی طرح جاری ہے'۔ وہ کہتے ہیں کہ فوج اور خفیہ ایجنسیاں 'دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف موجود شواہد کی کمی اور عدالتوں سے ان کی رہائی کے امکان کو بنیاد بنا کر ایسے ماورائے عدالت اقدامات کرتے ہیں تاہم ان کی جتنی حوصلہ شکنی کی جائے اتنی ہی کم ہے'۔
پشاور ہائی کورٹ کے ایک بنچ نے 18 اکتوبر 2019 کو اس حوصلہ شکنی کے لئے کچھ اہم اقدامات اٹھائے جن کے تحت فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو کہا گیا کہ وہ اپنی نگرانی میں چلنے والے تمام حراستی مراکز میں قید افراد کا ریکارڈ صوبائی پولیس کے حوالے کریں۔ عدالت نے صوبائی انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کو بھی حکم دیا کہ وہ تین روز کے اندر اِن حراستی مراکز کا کنٹرول سنبھال لیں۔
لیکن ایک ہفتے کے اندر ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے اِن احکامات پر عمل درآمد روک دیا۔
*فرضی نام
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 17 ستمبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 18 مئی 2022