کرے کوئی بھرے کوئی: سروے کنندگان کی غلطیاں حکومتی امداد کے مستحق لوگوں کے لئے بھاری پڑ گئیں۔

postImg

محمد عباس خاصخیلی

postImg

کرے کوئی بھرے کوئی: سروے کنندگان کی غلطیاں حکومتی امداد کے مستحق لوگوں کے لئے بھاری پڑ گئیں۔

محمد عباس خاصخیلی

لیرو بائی پچھلے سال سے ہر مہینے چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اپنے گاؤں سے جنوبی سندھ کے شہر بدین جاتی تھیں جہاں ان کی منزل ایک مخصوص اے ٹی ایم بوتھ ہوتا تھا۔ اس میں داخل ہونے سے پہلے وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے جوتے اتار دیتی تھیں تاکہ ان کی وجہ سے اس کا چمکتا دمکتا فرش میلا نہ ہو جائے۔ 

ان کے پاس بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا کارڈ تھا جسے استعمال کر کے وہ اس پروگرام کے تحت ملنے والی امدادی رقم نکلوانا چاہتی تھیں لیکن ہر ماہ انہیں یہی پتہ چلتا تھا کہ ان کے اکاؤنٹ میں کوئی پیسے موجود نہیں۔ چنانچہ وہ سر جھکائے واپس اپنے گھر چلی جاتی تھیں۔

ان کی عمر 60 سال ہے اور وہ سومار ملاح نامی گاؤں میں رہتی ہیں جسے ایک مسلمان زمیندار، حاجی سومار، نے اپنے کھیتوں میں مزدوری کرنے والے ہاریوں کے لیے بسایا ہے۔ اس بستی میں 40 گھرانے ہیں جن میں سے صرف تین مسلمان ہیں جبکہ باقی لیرو بائی کی طرح کولہی برادری سے تعلق رکھنے والے شیڈولڈ کاسٹ ہندو ہیں۔ 

یہاں کے بیشتر مکین انتہائی غربت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہیں ایک وقت کھانے کو مل جائے تو اگلے دو وقت بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ لیکن لیرو بائی اور ان کے 66 سالہ شوہر ہرکو کی مالی حالت گاؤں کے دوسرے لوگوں کی نسبت اور بھی خراب ہے۔ وہ ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس میں صرف ایک بوسیدہ کچا کمرہ ہے اور ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں۔ اس لیے اکثر اوقات وہ کھانا بھی آس پاس کے گھروں سے مانگ کر کھاتے ہیں۔ 

کچھ عرصہ پہلے ہرکو محنت مزدوری کیا کرتے تھے لیکن اب وہ مسلسل بیمار ہیں اور علاج معالجے کے بغیر چارپائی پر پڑے رہتے ہیں۔ لیروبائی ہر وقت ڈرتی رہتی ہیں کہ کہیں وہ انہیں تنہا چھوڑ کر پرلوک نہ سدھار جائیں۔

لیرو بائی کولہیلیرو بائی کولہی

اے ٹی ایم بوتھ میں اُن کا کارڈ نہ چلنے کی وجہ یہ ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جگہ شروع کیے گئے موجودہ حکومت کے احساس کفالت پروگرام سے فائدہ اٹھانے کے اہل لوگوں میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ بدین سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن چوون کولہی کہتے ہیں کہ صرف لیرو بائی اور ہرکو ہی نہیں بلکہ سومار ملاح کے 32 نادار گھرانوں کو نئے پروگرام کے تحت حکومتی امداد کی وصولی کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔

یہ قدم قومی سماجی و معاشی رجسٹری نامی ایک سروے کی بنیاد پر اٹھایا گیا ہے جو نومبر 2018 سے لے کر 2021 کے آخر تک پورے ملک میں کیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ خاندانوں کے کوائف کی چھان بین کرنا اور نئے پروگرام میں مزید مستحقین کو شامل کرنا تھا۔

چوون کولہی کہتے ہیں کہ یہ سروے کرنے والے لوگوں نے سومار ملاح کے باسیوں کے کوائف بالکل غلط درج کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں سرکاری ریکارڈ میں ان کی مالی حالت ان کی حقیقی زندگی کے برعکس بہت اچھی دکھائی گئی ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال 55 سالہ ہانسو بائی کے کوائف میں دیکھی جا سکتی ہے جن میں ان کے کھیت مزدور شوہر کی ماہانہ آمدنی پچاس ہزار روپے درج کی گئی ہے اور ان کا گھرانہ پانچ بھینسوں اور 16 بکریوں کا مالک ظاہر کیا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں ان کے پاس کوئی اثاثے موجود نہیں اور ان کے شوہر ہر ماہ بمشکل پانچ ہزار روپے کما پاتے ہیں۔ 

لیرو بائی اور ان کے گاؤں کے دوسرے باشندے اپنے کوائف ٹھیک کرانے کے لیے کئی مرتبہ بدین میں واقع احساس کفالت پروگرام کے رجسٹریشن سنٹر کا چکر لگا چکے ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ کئی گھنٹے قطار میں کھڑا رہنے کے بعد جب ان کی باری آتی ہے تو وہاں متعین اہلکار انہیں کہتے ہیں کہ "ماسی تم پہلے ہی دولت کے ڈھیر پر بیٹھی ہو، تم غریبوں کے پیسے لے کر کیا کرو گی؟" 

کوائف کا غلط اندراج

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے قومی سماجی و معاشی رجسٹری سروے کرنے کے لیے پاکستان کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے ہر ایک میں حکومتی امداد کے مستحق خاندانوں کے کوائف جمع کرنے اور جانچنے کی ذمہ داری عورت فاؤنڈیشن، رورل سپورٹ پروگرام نیٹ ورک اور سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) جیسے مختلف غیرسرکاری اداروں کو دی گئی۔

لیرو بائی کا کچہ گھرلیرو بائی کا کچہ گھر

ضلع بدین میں یہ کام رورل سپورٹ پروگرام نیٹ ورک سے ملحق تنظیم نیشنل رورل سپورٹ پروگرام کے سپرد کیا گیا۔ اس کی طرف سے کوائف جمع کرنے کے کام پر مامور کیے گئے ایک اہلکار اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ سروے کے دوران غلط کوائف کے اندراج کا الزام درست ہے۔

ان کے مطابق ان غلطیوں کی بنیادی وجہ کوائف جمع کرنے والے اہلکاروں کو دیا گیا قلیل معاوضہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سروے کی ابتدا میں ان اہلکاروں کو کہا گیا کہ انہیں 35 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملے گی "جو کہ ایک معقول رقم تھی"۔ لیکن "کچھ عرصے کے بعد انہیں کہا گیا کہ انہیں ماہانہ تنخواہ نہیں دی جائے گی بلکہ ہر مستحق خاندان کے مکمل کوائف کا اندراج کرنے کے بدلے میں انہیں سات روپے ادا کیے جائیں گے"۔ ان کے بقول "اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے اہلکار کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خاندانوں کے کوائف درج کرنے کی غرض سے ان میں غیرتصدیق شدہ معلومات بھی شامل کرنے لگے"۔  

عورت فاؤنڈیشن کے لیے سروے کرنے والے ایک اہلکار اس مسئلے کی وجوہات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ "قواعد کے مطابق ہمیں ہر خاندان کے کوائف کی جانچ پڑتال کا عمل اور اس کی مالی حیثیت کے بارے میں معلومات کا اندراج کم از کم 20 منٹ میں مکمل کرنا ہوتا تھا جس کے باعث ہر اہلکار روزانہ صرف 15 سے 20 خاندانوں کے کوائف کا اندراج کر سکتا تھا۔ لیکن بہت سے اہلکاروں نے زیادہ پیسے بنانے کے لیے قواعد کو نظرانداز کر کے روزانہ ڈیڑھ سو سے دو سو  خاندانوں کے کوائف کا اندراج کرنا شروع کر دیا"۔ ان کے مطابق اس جلد بازی میں "اکثر یہ بھی ہوا کہ ایسے لوگوں کے کوائف دوسروں سے پوچھ کر درج کر لیے گئے جو خود اپنے گھروں میں موجود نہیں تھے"۔ 

بدین میں احساس کفالت پروگرام کے رجسٹریشن سینٹر میں جونیئر ایگزیکٹو کے طور پر کام کرنے والے دانش میگھواڑ ان انکشافات کی توثیق کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سروے میں کوائف کے غلط اندراج کے نتیجے میں بہت سے نادار لوگوں کو حکومتی امداد ملنا بند ہو گئی ہے۔ ان میں سے "متعدد غریب خواتین ہر روز یہ شکایت لے کر ہمارے پاس آتی ہیں کہ وہ حکومتی امداد کی مستحق ہیں پھر بھی انہیں احساس کفالت پروگرام کے تحت کوئی رقم نہیں دی جا رہی"۔

گاؤں سومار ملاح میں غریب کولہی بچےگاؤں سومار ملاح میں غریب کولہی بچے

لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھ سنٹر میں کام کرنے والے دوسرے لوگ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ وہ "سروے کے دوران درج کیے گئے کوائف کو تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے"۔ ان کے مطابق غلط کوائف کی درستگی کرنے کا اختیار صرف ضلعی سطح پر متعین احساس کفالت پروگرام کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو حاصل ہے لیکن "ضلع بدین میں گذشتہ سات آٹھ ماہ سے یہ عہدہ خالی پڑا ہے"۔

انتظامی بے قائدگیاں

سندھ کے مشرقی ضلع تھرپارکر کے شہر مٹھی سے تعلق رکھنے والے راجیش کمار پنچانی عورت فاؤنڈیشن کے مقامی کوارڈی نیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ قومی سماجی و معاشی رجسٹری سروے میں غلط کوائف کے اندراج کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس کا بنیادی سبب اس سروے پر مامور اداروں کے مالی مسائل تھے۔

ان کا اپنا ادارہ انہی مسائل کی وجہ سے تھرپارکر میں نومبر 2018 سے لے کر مئی 2021 تک صرف 21 فیصد سروے مکمل کر سکا۔ ان کے بقول، زیریں سندھ کے دوسرے اضلاع میں بھی یہی صورتِ حال رہی۔ 

تاہم اس تاخیر کی چند دیگر وجوہات بھی تھیں۔ راجیش کمار پنچانی کے مطابق ان میں دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ کی عدم موجودگی،  کوائف اکٹھے کرنے کے لیے ایسے اہلکاروں کی قلت جو ٹیبلٹس چلانے اور ان پر معلومات کا اندراج کرنے میں مہارت رکھتے ہوں اور یونین کونسل کی سطح پر دیہات کے نقشوں کی عدم دستیابی جیسے عوامل نمایاں تھے۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے سال کے نصف آخر میں جب سروے کی تکمیل میں مزید تاخیر کو روکنے کے لیے اس کی رفتار میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا تو کچھ مزید مسائل پیدا ہو گئے جن میں سب سے اہم یہ تھا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے کوائف اکٹھے کرنے والے اہلکاروں کی نگرانی پر متعین عملے کے لیے ہر خاندان کی معلومات کی چھان پھٹک کرنا ناممکن ہو گیا۔ اس وجہ سے بھی بہت سی ناقص اور غیرتصدیق شدہ معلومات سروے کے نتائج کا حصہ بن گئیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

غربت، ناخواندگی، ناکامی اور مایوسی: سندھ میں شیڈولڈ کاسٹ ہندو اپنے مسائل کا حل خودکشی میں ڈھونڈ رہے ہیں۔

قومی سماجی و معاشی رجسٹری کے کراچی ریجن میں آپریشنز کے شعبے کے سابق سربراہ موسیٰ تنیو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سندھ کے جن اضلاع میں عورت فاؤنڈیشن اور نیشنل رورل سپورٹ پروگرام نے سروے کیا وہاں غلط کوائف کے اندارج کی بہت سی شکایات سامنے آئی ہیں۔ ان کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں اداروں نے سروے کرنے کے لیے حکومت سے بہت کم پیسے مانگے تھے (تا کہ اسے کرنے کے لیے ان کی طرف سے کی گئی پیش کش قبول کر لی جائے) لیکن جب انہوں نے کام شروع کیا تو انہیں پتہ چلا کہ اس کے لیے کہیں زیادہ مالی وسائل درکار ہیں۔ چنانچہ اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے انہوں نے "تھرپارکر، عمرکوٹ اور سانگھڑ جیسے اضلاع میں کام کرنے والے اپنے بہت سے اہلکاروں کو سرے سے کوئی تنخواہ ہی نہ دی جبکہ دوسرے بہت سے اہلکاروں کو بھی بہت کم معاوضہ دیا"۔

موسیٰ تنیو کا کہنا ہے کہ ان اہلکاروں کو کچھ دوسری ضروری سہولیات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔ مثال کے طور پر شروع میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں سفر کرنے کے لیے گاڑیاں ملیں گی لیکن بعد میں انہیں بتایا گیا کہ گاڑیاں تو دستیاب نہیں ہیں مگر انہیں بہر حال اپنا کام مکمل کرنا ہے۔ ان کے بقول "ایسی صورتِ حال میں کوئی درست کوائف کے حصول کی بات کیسے کرسکتا ہے؟"

تاریخ اشاعت 16 مارچ 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد عباس خاصخیلی سندھ کے سیاسی، معاشی و سماجی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

thumb
سٹوری

پانی کی تقسیم پر آگ کا کھیل: ارسا آرڈیننس، سندھ، پنجاب کی تکرار کو جھگڑے میں بدل سکتا ہے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

وادی تیراہ میں کھاد کی ترسیل اور امن و امان کے درمیان کیا تعلق ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.