آج سے پانچ سال پہلے چاغی میں بسو کاریز کا پرائمری سکول بند ہوا تو اس میں 25 بچے زیر تعلیم تھے جو پڑھائی چھوڑ چکے ہیں کیونکہ ان کے والدین انہیں شہر کے سکول میں تعلیم دلانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
بسو کاریز بلوچستان کے ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین سے 40 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں کے ایک سماجی کارکن اور سیاسی رہنما امین اللہ نوتیزئی بتاتے ہیں کہ یہ سکول اس لیے بند ہوا کہ اس میں پڑھانے کے لیے استاد ہی نہیں تھے۔ اہل علاقہ نے سکول میں اساتذہ کی تعیناتی کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائی اور حکام کی منت سماجت کرتے رہے جس کے بعد سکول میں صرف ایک استاد کی تعیناتی عمل میں آئی لیکن وہ بھی بغیر تنخواہ طویل رخصت پر چلا گیا۔
بسو کاریز کے اس سکول کی طرح چاغی بھر میں بہت سے تعلیمی ادارے غیر فعال ہیں۔
دالبندین کے علاقے ظہور کالونی کے کونسلر اجمل نوتیزئی بتاتے ہیں کہ ان کے حلقے میں لڑکوں کا پرائمری سکول پچھلے چار سال سے بند ہے کیونکہ وہاں پڑھانے والے واحد استاد کی ریٹائرمنٹ کے بعد تدریسی عملہ دستیاب نہیں تھا۔ وقت کے ساتھ سکول ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور اس کے دروازے کھڑکیاں چوری کر لیے گئے۔ اب یہ جگہ منشیات کے عادی لوگوں کا ٹھکانہ بن چکی ہے۔
بلوچستان کے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ضلع کے 315 میں سے 87 سکول غیر فعال ہیں جن میں لڑکوں کے 68 پرائمری سکول جبکہ اور لڑکیوں کا ایک مڈل اور 18 پرائمری سکول شامل ہیں۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر امداد حسین ملغانی ضلع کے 28 فیصد سکول بند ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ان سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ ریٹائر ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلع میں 431 اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں جبکہ لڑکوں کے 101 اور لڑکیوں کے 42 سکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک استاد تعینات ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاغی میں سرکاری اساتذہ کی تعداد 750 ہے جو 227 فعال سکولوں میں 20 ہزار 493 بچوں اور بچیوں کو پڑھاتے ہیں جبکہ ضلع بھر میں سائنس کے مضامین کا ایک بھی سبجیکٹ سپیشلسٹ نہیں ہے۔
ملغانی کے مطابق ان کے محکمے نے کئی بار متعلقہ حکام کو اساتذہ کی تعیناتی کے لیے لکھا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ہر سال تقریباً دس اساتذہ ریٹائر ہو جاتے ہیں اور بیشتر دیہی سکولوں میں ایک ہی استاد تعینات ہوتا ہے اس لیے خدشہ ہے کہ نئی بھرتیاں نہ ہوئیں تو مزید سکول بند ہو جائیں گے۔
چاغی میں سرکاری سکولوں کی نگرانی کرنے والے ادارے (آر ٹی ایس ایم) کے ضلعی مانیٹرنگ کوآرڈینیٹر نعمت اللہ ہفتے میں دو مرتبہ سکولوں کا دورہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2016ء میں 50 سکول بند تھے جس کے بعد اساتذہ کی ریٹائرمنٹ کے نتیجے میں یہ خلا بڑھتا گیا اور اب ضلع میں 80 سے زیادہ سکول بند ہیں۔ اس کے علاوہ جن سکولوں میں ایک ہی استاد تعینات ہے وہ بھی وقفوں وقفوں سے بند پائے جاتے ہیں۔
نعمت اللہ کے مطابق نگرانی کے کام میں انہیں کافی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ سکولوں میں اساتذہ کی غیر موجودگی کے بارے میں رپورٹ نہ دیں۔ آر ٹی ایس ایم کے ایک سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے دباؤ اور مسلسل پریشانی کی وجہ سے نوکری چھوڑ دی تھی۔
گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن چاغی کے ضلعی صدر نذیر ایجباڑی اسی سے متعلق ایک اور مسئلے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اکثر اساتذہ دور دراز علاقوں میں قائم سکولوں میں اس لیے نہیں جاتے کیونکہ بہت سی جگہوں پر پکی سڑکیں نہیں ہیں یا ٹرانسپورٹ کے مسائل ہیں۔ کئی علاقوں میں اساتذہ کو دن رات سکولوں میں ہی رہنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خواتین اساتذہ کے مسائل مرد اساتذہ سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ جن سکولوں میں ایک ہی استاد تعینات ہو وہ اس کی غیرحاضری یا بیماری کی صورت میں بند ہو جاتا ہے۔
مغلانی کہتے ہیں کہ بند سکول کھلوانا ان کے اختیار میں نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ سکول اس لیے بھی بند ہو جاتے ہیں کہ بعض اساتذہ اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ پہلے اپنا تبادلہ دور دراز کسی ایسے سکول میں کروا لیتے ہیں جہاں تعینات استاد وہاں نہیں رہنا چاہتا۔ بعض اساتذہ تعلق اور دوستی میں ایسا کرتے ہیں جبکہ ایسے بھی ہیں جو رشوت لے کر اپنا تبادلہ کراتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ ریٹائر ہوتے ہیں تو وہ سکول بند ہو جاتا ہے۔
اس کے ساتھ مغلانی یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اب ایسے تبادلوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق 44 ہزار 700مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے پر پھیلے ضلع چاغی کی کل آبادی 22 لاکھ سے زیادہ ہے جس میں پانچ سال سے اوپر کی عمر کے صرف ایک لاکھ 88 ہزار افراد خواندہ ہیں جبکہ ایک لاکھ 20 ہزار نے کبھی سکول نہیں دیکھا۔
نذیر ایجباڑی کہتے ہیں کہ اب سکولوں میں طلبہ کی تعداد بڑھنے لگی ہے لیکن بہت سے ہائی سکولوں میں سو سے ڈیڑھ سو طلبہ پر مشتمل جماعت کے لیے ایک ہی استاد میسر ہے اور بعض سکول ایسے ہیں جہاں ایک ہی استاد اپنی جماعت کے طلبہ کو تمام مضامین پڑھاتا ہے۔
انہوں ںے بتایا کہ رواں سال کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 83 ارب روپے رکھے گئے تھے لیکن چاغی میں یہ بجٹ خرچ ہوتا دکھائی نہیں دیتا جہاں محکمہ تعلیم کے پاس اپنا دفتر تک نہیں ہے اور بیشتر ہائی سکول سائنس روم اور کمپیوٹر لیبارٹری سے محروم ہیں۔
چاغی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر چاغی نے اس ضلع میں سینڈک پراجیکٹ میں کام کرنے والی چینی کمپنی کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ وہ اپنے خرچ پر چند سکولوں میں اساتذہ کو بھرتی کرے جبکہ صوبائی حکومت بھی اسی طرح کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ ان تجاویز پر عملدرآمد کے بعد اساتذہ کی کمی کا مسئلہ کسی حد تک کم ہو جائے گا۔
تاریخ اشاعت 9 مارچ 2023