صوابی کی دونوں سرکاری یونیورسٹیوں میں ماس کمونیکیشن کے شعبے کیوں بند ہو گئے؟

postImg

وسیم خٹک

postImg

صوابی کی دونوں سرکاری یونیورسٹیوں میں ماس کمونیکیشن کے شعبے کیوں بند ہو گئے؟

وسیم خٹک

آسیہ خان، صوابی یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ صحافت میں چوتھے سمسٹر کی طالبہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس یونیورسٹی نے چند سال پہلے ماس کمونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں نئے داخلے اچانک روک دیے گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں انتظار کرنا پڑا اور ان کا ایک سال ضائع ہو گیا۔

آسیہ خان کہتی ہیں کہ خیبر پختونخوا میں قبائلی روایات کی وجہ سے شعبہ صحافت میں طالبات کی تعداد اگرچہ کم ہے لیکن جن لڑکیوں کو یہاں پڑھنے کا موقع ملا وہ دلجمعی کے ساتھ فیلڈ میں کام کر رہی ہیں۔

"میں خاندان سے بمشکل اجازت لےکر یونیورسٹی تک پہنچی ہوں، میرے جیسی نہ جانے کتنی لڑکیاں ماس کمونیکیشن پڑھنا اور فیلڈ میں کام کرنا چاہتی ہیں لیکن اگر یہ شعبہ بند ہو گیا تو یہ صوابی کی طالبات کے ساتھ زیادتی ہو گی۔"

ویمن یونیورسٹی صوابی میں جرنلزم کی طالبات نے ہمیشہ محنت اور لگن سے کام سے کیا جس کے نتیجے میں اس یونیورسٹی کے نہ صرف تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس بشمول یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ایکس ویریفائیڈ (تصدیق شدہ) ہیں بلکہ ان کے ہزاروں فالوور اور لاکھوں ویورز بھی موجود ہیں۔

یہاں جرنلزم کی طالبات ہی ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نشریات اور پوسٹوں کا اہتمام کرتی ہیں جن میں حالات حاضرہ پر تبصرے، سماجی موضوعات و مسائل پر گفتگو اور تفریحی پروگرام شامل ہیں۔ ان پروگراموں کی پروڈکشن سے پیش کش تک تمام مراحل کی ذمہ داری بھی سٹوڈنٹس نے لے رکھی ہے۔

لیکن رواں سال اس شعبے میں یونیورسٹی نے نئے داخلے ہی نہیں کیے۔

 خیبر پختونخوا میں خواتین کی تین جامعات ہیں لیکن ان میں سے صرف 'ویمن یونیورسٹی صوابی' میں 2018ء میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ شروع کیا گیا تھا۔ یہاں سے اب تک 15طالبات بی ایس جرنلزم کی ڈگری لے چکی ہیں اور اس وقت سات طالبات پانچویں سمسٹر میں زیر تعلیم ہیں۔

ضلع صوابی میں دو سرکاری جامعات ہیں جن میں یونیورسٹی آف صوابی اور ویمن یونیورسٹی صوابی شامل ہیں لیکن پچھلے سال ان دونوں جامعات میں بی ایس ماس کمونیکیشن (صحافت) کے نئے داخلے نہیں کیے گئے جبکہ امسال بھی داخلے بند ہیں۔

ضلع صوابی کی کل  آبادی 18 لاکھ 94 ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ اگرچہ یہاں مرد و زن کی تعداد میں زیادہ فرق نہیں تاہم 2017ء کی مردم شماری  کے مطابق یہاں شرح خواندگی میں واضح تفریق موجود ہے جو مردوں میں 73.99 فیصد اور خواتین میں 44.35 فیصد ہے۔

 یونیورسٹی آف صوابی میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کا آغاز2017ء میں ہوا جس کو منیجمنٹ سائنسز کے زیر سرپرستی رکھا گیا تھا۔ لیکن یہاں مستقل اساتذہ کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی تھی اور چار بیجز کو عارضی اساتذہ (وزٹنگ فیکلٹی) پڑھاتے رہے۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے طے کردہ اصولوں کےمطابق کسی بھی یونیورسٹی میں کوئی ڈیپارٹمنٹ شروع کرنے کے لیے مستقل فیکلٹی (اساتذہ) کی ضرورت ہوتی ہے جن میں ایک پروفیسر، دوایسوسی ایٹ پروفیسر، تین اسسٹنٹ پروفیسر اور لیکچرز شامل ہوں۔ تاہم ان دونوں یونیورسٹیوں (یونیورسٹی آف صوابی اور ویمن یونیورسٹی صوابی) میں مستقل اساتذہ کبھی تعینات نہیں کیے گئے۔

محمدارشد، پانچ سال سے صوابی یونیورسٹی میں بطور وزٹنگ لیکچرر پڑھا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جدید تقاضوں کے مطابق صحافت پڑھانے کے لیے ادارے میں کیمرے، نیوز رومز، سٹوڈیو اور ڈیجیٹل لیب کا ہونا ضروری ہے لیکن یہاں ایک کمرے پر مشتمل جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ نامساعد حالات کے باوجود یہاں کے کئی فارغ التحصیل طلبا ملک بھر کے مختلف میڈیا اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ صوابی یونیورسٹی سے اب تک 30 کے قریب طلبا ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں جبکہ یہاں اس وقت سات طلبا آخری سمسٹر میں ہیں۔

آسیہ خان نے بتا یا کہ ویمن یونیورسٹی صوابی میں بھی انہیں جرنلزم کے تمام مضامین ایک ہی ٹیچر پڑھا رہے ہیں۔

"ادارے میں ہمارے پاس تکنیکی سہولیات میسر نہیں ہیں لیکن ہم پریکٹکل کے لیے اپنے فون اور لیپ ٹاپ کی مدد سے پوڈ کاسٹ، ویڈیو میکنگ اور ایڈیٹنگ کی پریکٹس کرتی ہیں۔"

صوبے کی دیگر جامعات، خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک، کوہاٹ یونیورسٹی اور گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان میں بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔

خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک میں ماس کمونیکیش ڈیپارٹمنٹ 2014ء میں شروع ہوا جہاں سے اب تک 40 کے قریب طالب علم ڈگری مکمل کر چکے ہیں۔ یہاں اس وقت مجموعی طور پر20 طلبا زیر تعلیم ہیں تاہم رواں سال ایم فل کی کلاسز کا آغاز کیا گیا ہے جہاں آٹھ امیدواروں کو داخلہ ملا ہے۔

گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں شعبہ صحافت 45 برس سے کام کر رہا ہے لیکن یہاں طلبہ کی تعداد کم ہونے کے باعث پچھلے سال یہ ڈیپارٹمنٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مگر یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے اسے فعال رکھنے کے لیے کچھ ڈپلومہ کورسز شروع کرنے کی تجویز منظور کر لی جس کے لیے علاقائی صحافیوں کی خدمات لی گئیں۔

 لیکن اب گومل یونیورسٹی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کلاسز شروع کی جا چکی ہیں۔ اب اس ڈیپارٹمنٹ میں طلبا و طالبات کی کل تعداد 30 کے قریب ہے جبکہ 20 لوگ ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈین آف سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر خالد سلطان کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں صحافت کے کم مواقع ہونے کے باعث یہاں طلبا کی بہت کم تعداد جرنلزم میں داخلہ لیتی ہے۔

"اسی لیے ہماری یونیورسٹی نے پشاور کیمپس میں ماس کمونیکیشن کا شعبہ ہی قائم نہیں کیا جبکہ پنجاب میں جرنلزم کا شوق مزید بڑھ رہا ہے۔ وہاں نمل یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں ایک ہزار 300 کے قریب طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں اور ہر سال یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔"

نوائے وقت پشاور کے بیورو چیف اور سینئر صحافی ایم ریاض خان بتاتے ہیں کہ سال 2000ء کے بعد ملک میں میڈیا کو عروج ملا۔ نجی چینلز مارکیٹ میں آئے تو تعلیمی اداروں نے نئے تقاضوں کے مطابق ابلاغ عامہ کے شعبہ جات کا آغاز کیا جبکہ طالب علموں نے بھی دھڑا دھڑ داخلے لیے اور جرنلزم 'کمرشل' ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ 2018ء کے بعد جب میڈیا پر مختلف طریقوں سے پابندیاں لگائی گئیں تو میڈیا ہاؤسز نے ملازمین کی تنخواہیں کم کر دیں۔ اس دوران کئی ٹی وی چینل اور اخبارات بند ہو گئے اور بڑے بڑے صحافیوں نے سوشل میڈیا کا رخ کر لیا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

میانوالی کے کالجوں میں اساتذہ کی راہ دیکھتے طلبہ اپنے مستقبل سے مایوس ہونے لگے

"سوشل میڈیا منظرنامے پر چھانے لگا تو لوگوں کو لگا کہ جب وہ اپنے موبائل فون اور ایک فیس بک پیج سے صحافی بن سکتے ہیں تو انہیں کسی تعلیمی ادارے میں چار سال ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔"

"ان خود ساختہ صحافیوں کے آنے سے جہاں صحافت کا جنازہ نکلا وہاں اصلی اور فیک نیوز میں تفریق بھی ختم ہو گئی۔"

ان کا ماننا ہے کہ صرف خیبر پختونخوا ہی نہیں ملک بھر کے تعلیمی اداروں اور میڈیا ہاؤسز کو مل کر سوچنا ہو گا  کہ وہ اس ڈیجیٹل دور میں صحافت کی بقا کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ انہیں تھیوری اور عملی صحافت کے مابین توازن بھی قائم کرنا پڑے گا۔

سرکاری اعداد و  شمار بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی 26 کے قریب سرکاری اور نو نجی یونیورسٹیوں کے شعبۂ صحافت میں مجموعی طور پر 50 اساتذہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جن میں 10 پی ایچ ڈی اساتذہ شامل ہیں۔

 تاہم صوبہ بھر میں صرف ایک ہی ٹیچر کو پروفیسر کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے جبکہ 16 اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ لیکن کسی ایک کو بھی ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی نہیں دی گئی۔

ڈائریکٹر صوابی یونیورسٹی ڈاکٹر روئیداد خان نے لوک سجاگ کو بتایاکہ جامعہ کے کسی شعبےکو فعال رکھنےکے لیے سالانہ کم از کم 20 داخلے ہونے چاہئیں مگر صوابی یونیورسٹی اور ویمن یونیورسٹی صوابی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹس میں امیدواروں کی تعداد پوری نہیں ہو رہی تھی۔ اسی لیے دونوں جامعات میں فی الحال شعبہ صحافت کو غیرفعال کیا جا رہا ہے۔

تاریخ اشاعت 23 مئی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وسیم خٹک صحافی اور مصنف ہیں۔ صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.