کورونا کے معاشی اثرات: سرکاری سروے کتنا درست ہے؟

postImg

رضا گیلانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کورونا کے معاشی اثرات: سرکاری سروے کتنا درست ہے؟

رضا گیلانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

شماریات کے وفاقی ادارے نے 8 جنوری 2021 کو کورونا وبا کے سماجی اور معاشی اثرات کے بارے میں ایک سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق وبا کی پہلی لہر اور اس کی وجہ سے ہونے والی کاروباری اور عوامی مقامات کی بندش نے اپریل 2020 سے لیکر جولائی 2020 کے دوران صرف تین ماہ کے عرصے میں دو کروڑ سے زائد لوگوں کو ان کے روزگار سے محروم کر دیا۔ اس دوران 65 لاکھ سے زائد دیگر لوگوں کی آمدن میں کمی بھی واقع ہو گئی۔

اس سروے کے مطابق جنوری 2020 سے لے کر مارچ 2020 تک ملک بھر میں معاشی طور پر فعال لوگوں کی تعداد پانچ کروڑ 57 لاکھ تھی لیکن اپریل 2020 اور جولائی 2020 کے دوران یہ تعداد کم ہو کر تقریباً تین کروڑ 50 لاکھ ہو گئی۔

سرکاری سروے کے مطابق کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپریل 2020 سے جولائی 2020 کے دوران پاکستان کے تقریباً 53 فیصد گھرانے معاشی طور پر متاثر ہوئے جن کی کل تعداد تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ بنتی ہے۔ وبا کے سب سے زیادہ منفی معاشی اثرات خیبر پختونخوا میں دیکھنے میں آئے جہاں 64 فیصد گھرانے اس سے متاثر ہوئے۔ اسی طرح سندھ کے 59 فیصد، پنجاب کے 51 فیصد اور بلوچستان کے 49 فیصد گھرانوں پر اس کے معاشی اثرات مرتب ہوئے۔

ان میں سے تقریباً 30 فیصد گھرانوں کو لاک ڈاؤن کے دوران کھانے کی قلت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ تقریباً 10 فیصد گھرانوں میں یہ قلت شدید نوعیت اختیار کر گئی اور تقریباً 22 فیصد گھرانوں میں ان تین ماہ کے دوران کھانے پینے کی اشیا بالکل ختم ہو گئیں۔ اسی طرح کم از کم 29 فیصد گھرانوں میں لوگوں کو فاقہ کشی کرنا پڑی۔

اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تقریباً آٹھ فیصد گھرانوں نے اپنے سارے مویشی بیچ ڈالے، 30 فیصد گھرانوں کو قرض لینے پڑے، پانچ فیصد نے گھر کے دیگر اثاثے بیچے جبکہ آٹھ فیصد نے اپنے بچوں کی تعلیم چھڑوا دی۔

متاثرہ گھرانوں میں سے 33 فیصد کو مختلف ذرائع سے معاشی امداد لینا پڑی۔ ان میں سے 19 فیصد کو حکومتی اداروں نے، 18 فیصد کو نجی اداروں نے اور دو فیصد کو سماجی فلاح کی تنظیموں نے امداد دی۔ اوسطاً ان گھرانوں نے اپریل 2020 سے جولائی 2020 تک تقریباً 21 ہزار روپے کی امداد لی۔

سرکاری سروے کے مطابق لاک ڈاؤن کا سب سے شدید اثر تعمیراتی صنعت پر ہوا جس کی 80 فیصد افرادی قوت بے روزگار ہو گئی۔ اسی طرح مینوفیکچرنگ صنعت کے 72 فیصد، آمد و رفت کے شعبے کے 67 فیصد اور پرچون کی صنعت کے 63 فیصد ملازمین لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزگار سے محروم ہو گئے۔ سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دوران ملک کو پیش آنے والے معاشی دھچکے کی 46 فیصد ذمہ داری تعمیرات اور مینوفیکچرنگ کی صنعتوں کی سرگرمیوں میں کمی پر ڈالی جا سکتی ہے۔

سروے میں مزید بتایا گیا ہے کہ جولائی 2020 کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی اور کاروباری سرگرمیوں کی بحالی کے سبب اگست 2020 سے اس معاشی دھچکے پر قابو پانے کا عمل شروع ہوا جس کے نتیجے میں اکتوبر 2020 تک تقریباً ایک کروڑ ستر لاکھ لوگ دوبارہ معاشی طور پر فعال ہو گئے۔ 

لیکن معاشی بحالی کے اس عمل کے باوجود اب بھی تقریباً 27 لاکھ کے قریب ایسے لوگ بے روزگار ہیں جو کورونا وبا سے پہلے برسرِ روزگار تھے۔ مجموعی طور پر کورونا کی وجہ سے پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں تقریباً دو فیصد اضافہ ہو چکا ہے جو کہ معاشی ماہرین کے نزدیک بہت پریشان کن پیش رفت ہے۔ اسی طرح لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر پاکستانی گھرانے کی کل آمدن میں اوسطاً تقریباً پانچ فیصد کمی آچکی ہے۔

دیہی علاقوں میں وبا کے کم پھیلنے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہاں اس کے معاشی اثرات بھی کم ہوئے ہوں گے۔

کیا یہ سروے حقیقت کی عکاسی کرتا ہے؟

محقق اور مساوی نامی تحقیقی مرکز کے بانی حمزہ اعجاز کے نزدیک شماریات کے وفاقی ادارے کا سروے مستند ہونے کے باوجود ایک ایسے مفروضے پر کھڑا ہے جس سے پاکستان کی معاشی حالت کا ایک اہم پہلو منظرِ عام پر نہیں آ سکا۔

اس مفروضے کی وجہ سے سروے میں زیادہ تر شہری علاقوں میں رہنے والے لوگ شامل کئے گئے ہیں۔

حمزہ اعجاز کے مطابق سروے میں تقریباً 6000 گھرانوں سے معلومات اکٹھی کی گئی ہیں جن میں سے 70 فیصد شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔ سروے کے مصنفین اس کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ کورونا وبا کا پھیلاؤ دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہری علاقوں میں زیادہ دیکھا گیا۔

تاہم حمزہ اعجاز کہتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں وبا کے کم پھیلنے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہاں اس کے معاشی اثرات بھی کم ہوئے ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے: ’میرے نزدیک پچاس فیصد نہ سہی مگر اس سروے میں کم از کم چالیس فیصد معلومات دیہی علاقوں سے لی جانی چاہیئے تھیں تا کہ ملکی معاشی صورتحال مزید واضح ہو سکتی۔‘ 

اکتوبر 2020 میں شائع ہونے والا ایشیائی ترقیاتی بنک (اے ڈی بی) کا ایک سروے ان کی اس تنقید کی تصدیق کرتا ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں کورونا اور ٹڈی دل کے حملوں سے کاشت کاروں کو ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے کیے جانے والے اس سروے میں بتایا گیا کہ وائرس کی وجہ سے اس صوبے کے کاشت کاروں کو سنگین مشکلات سے دو چار ہونا پڑا۔

اس سروے کے مطابق سندھ میں گندم کے 65 فیصد کاشتکار اور سبزیوں اور پھلوں کے 67 فیصد کاشتکار کورونا وبا کے باعث اپنی فصل کو منڈی تک نہیں لے جا پائے۔ ٹماٹر کے 61 فیصد کاشتکار وبا کی وجہ سے فصل کاشت ہی نہیں کر پائے اور 81 فیصد گوالوں نے سروے کرنے والوں کو بتایا کہ آمد و رفت کے ذرائع بند ہونے کی وجہ سے ان کے پاس دودھ روزانہ کی بنیاد پر گاہکوں تک لے جانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔

ایشیائی ترقیاتی بنک کے اس سروے میں ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اس کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں 58 فیصد گھرانے کورونا وبا سے متاثر ہوئے جب کہ شماریات کے وفاقی ادارے کی جانب سے جاری کردہ سروے کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں متاثر ہونے والے گھرانوں کی شرح 51 فیصد ہے۔

دوسرے لفظوں میں ایشیائی ترقیاتی بنک کے سروے کے نتائج اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد شہری علاقوں کی نسبت کم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہاں وبا کے معاشی اثرات بھی اسی تناسب کے مطابق کم ہی ہوں گے۔ لہٰذا اگر شماریات کا وفاقی ادارہ اپنے سروے میں اس مفروضے کے بغیر کام کرتا کہ دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں کورونا کے معاشی اثرات زیادہ ہیں تو ان اثرات کی حقیقی صورتحال سامنے آ سکتی تھی۔

حکومت اس سروے سے کیا  نتائج اخذ کر سکتی ہے؟

کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے حکومتی حکمتِ عملی شروع سے ہی متنازع رہی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے ملک میں مکمل سماجی اور معاشی لاک ڈاؤن کرنے کی ہمیشہ سے ہی مخالفت کی ہے اور اس کے بجائے ’سمارٹ لاک ڈاؤن‘ کی حکمتِ عملی پر عمل درآمد کیا ہے۔

ستمبر 2020 میں اقوامِ متحدہ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے اس حکمتِ عملی کو مثالی قرار دیا۔ وہ متعدد بار یہ دعویٰ بھی کر چکے ہیں کہ حکومت کے فیصلوں نے پاکستان میں کورونا وبا کے پھیلاؤ اور اس کے منفی معاشی اثرات پر قابو پانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

طبی عملے پر کورونا کے وار: فیصل آباد کے ڈاکٹر اور نرسیں کس طرح کووڈ کی دوسری لہر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

اس صورتحال میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا شماریات کے وفاقی ادارے کے اس سروے کے نتائج حکومت کی حکمتِ عملی کی کامیابی کو ثابت کرتے ہیں یا یہ ایسی حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کے پیشِ نظر حکومت کے لئے کچھ اہم فیصلے کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

لاہور میں کام کرنے والے ایک مشہور محقق اور معاشیات کے استاد کے مطابق اگرچہ اپریل 2020 سے جولائی 2020 کے دوران آنے والے معاشی دھچکے کا ملبہ حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ کورونا وبا کے ایسے اثرات پوری دنیا میں دیکھے گئے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ سرکاری سروے کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اگر حکومت نے فوری طور پر کچھ اقدامات نہ اٹھائے تو یہ بات معاشی طور پر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔  اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ’اپنی  زندگی میں پاکستان میں ایسا معاشی دھچکہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘

ان کے مطابق معاشی بحالی کے دور کے بعد بھی 27 لاکھ لوگوں کا بےروزگار رہنا کوئی معمولی بات نہیں اور یہ امید کرنا کہ سب کچھ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا مزید تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ’بےروزگاری کی شرح میں دو فیصد اضافہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اصل بحالی ابھی ہوئی ہی نہیں اور مسئلے پر پوری طرح قابو پایا ہی نہیں گیا۔‘

وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کی آمدن میں ہونے والی کمی بھی پوری نہیں ہو سکی۔ ’اگرچہ عمومی طور پر لوگوں کی آمدن میں اوسطاً پانچ فیصد کمی آئی ہے مگر خوراک کی قیمتوں میں غیر معمولی مہنگائی کی وجہ سے غریب طبقات پر اس کا اثر کئی گنا بڑھ گیا ہے‘۔ آمدن میں یہ اوسط کمی مختلف معاشی طبقات کے لئے ایک ہی تناسب سے بھی نہیں ہوئی بلکہ مزدور اور غیر رسمی شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

کیا پاکستانی معیشت ایسے دھچکوں کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے؟

شماریات کے وفاقی ادارے کے سروے میں یہ بھی درج ہے کہ امداد حاصل کرنے والے گھرانوں میں سے 19 فیصد نے حکومتی اداروں سے امداد لی۔ ان اداروں میں سرِ فہرست نام ’احساس پروگرام‘ کا ہے جس کا اجرا اپریل 2020 میں ہوا ـ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال اس پروگرام کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ گھرانوں میں بارہ ہزار فی گھرانے کے حساب سے امداد تقسیم کی گئی۔ 

اس کے باوجود معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے پروگراموں کی حدود کا نئے سرے سے تعین کرنا کورونا کے پیدہ کردہ بحران کے پیشِ نظر بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ 

لاہور میں کام کرنے والے محقق بتاتے ہیں کہ پاکستان میں غربت کے بارے میں اعداد و شمار آخری دفعہ 2011 میں مرتب کئے گئے جن کے نتیجے میں حکومتی امداد کے پروگراموں کی توجہ کا مرکز دیہی علاقے بنے کیونکہ اس وقت حکومت کے پیشِ نظر یہ مفروضہ تھا کہ شدید غریب گھرانوں کی زیادہ تعداد دیہی علاقوں میں بستی ہے۔ اگرچہ اس سروے میں یہ مفروضہ الٹا دیا گیا ہے اور تازہ معاشی بحران کا مرکز شہری علاقوں کو قرار دیا گیا ہے لیکن، ان کے مطابق، حکومت شہروں میں مالی امداد کی بروقت ترسیل کی نہ تو استطاعت رکھتی ہے اور نہ ہی تجربہ۔

اس تمام صورتحال میں یہ محقق ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں: ’اگر مستقبل میں ایسا معاشی دھچکہ دوبارہ لگتا ہے تو حکومت اس سے نپٹنے کے لئے کس قسم کا نظام بنانا چاہے گی؟‘

اسی ضمن میں ایک سنگین مسئلہ غیر رسمی معیشت کا بھی ہے جس میں روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے اور سڑکوں اور گلیوں میں ریڑھیوں اور چھابڑیوں میں چیزیں فروخت کرنے والے لوگ شامل ہیں۔

اس بات کا مستند اندازہ لگانا کہ روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے ان افراد کی آمدن کورونا کی وجہ سے کس حد تک متاثر ہوئی ہے مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں معیشت کے غیر رسمی حصے کے بارے میں اعداد و شمار کی کمی ہے تاہم 2018 میں سرکاری طور پر جاری کردہ لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستان میں 45 فیصد سے زیادہ لوگ غیر رسمی طور پر کام کرتے ہیں۔

شماریات کے وفاقی ادارے کے سروے کے مطابق اس شعبے کا 74 فیصد حصہ کورونا کی وجہ سے متاثر ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں فعال لوگوں میں سے تین چوتھائی ایسے ہیں جن کی آمدن پر وبا کی وجہ سے اثر پڑا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق یہ معاشی اثر اس بحران کا سب سے پریشان کن حصہ ہے۔ ان کے مطابق احساس پروگرام جیسے منصوبوں کا رخ غیر رسمی مزدوروں کی جانب موڑنا نہایت ضروری ہے۔ ’جیسے احساس پروگرام ڈیڑھ کروڑ افراد کی مالی امداد کر چکا ہے ویسے ہی ان لوگوں کی باقاعدگی سے امداد کرنا ضروری ہے‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ یونین کونسلوں کے ذریعے ان لوگوں کو رجسٹرڈ کیا جائے جو غیر رسمی معاشی سرگرمیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ 

ان کے مطابق سٹیٹ بنک آف پاکستان کو نجی بنکوں سے رابطہ کر کے یہ معلومات مرتب کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کاروباری طبقے کے لئے بنائے گئے حکومتی امداد کے پروگراموں میں کس حد تک چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کی مدد کی گئی ہے اور اس میں مزید کتنی مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ 

غیر رسمی معاشی سرگرمیوں پر کورونا وائرس کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کی بنا پر حفیظ پاشا یہ بھی کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کے قومی معاشی سروے میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح بھی کم بتائی گئی جو کہ منفی 0.4 درج کی گئی ہے۔ اس کے برعکس ان کا کہنا ہے کہ ’موجودہ بےروزگاری اور معاشی اشاریے یہ بتاتے ہیں کہ یہ شرح منفی 0.4 نہیں بلکہ منفی 2.5 ہے لہٰذا حکومت کو اسے اگلے قومی معاشی سروے میں واضح کرنا پڑے گا۔‘

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 26 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 5 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رضا گیلانی نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے سیاسیات میں بی اے آنرز کیا ہے۔ وہ نظم و نسق، ادارہ جاتی بدعنوانی، کارکنوں کے حقوق اور مالیاتی انتظام کے امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.