عمر ملاح بدین کی تحصیل گولاڑچی کے ایک اجڑے گاؤں امن ملاح میں رہتے ہیں۔ آج سے تیس سال پہلے یہ ایک بھرا پُرا علاقہ تھا جہاں مچھیروں کے تین سو سے زیادہ خاندان آباد تھے۔ یہ لوگ اپنی کشتیوں میں قریبی نریڑی جھیل میں ماہی گیری کرتے اور خوشحال زندگی گزارتے تھے لیکن اب اس گاؤں میں ویرانی کا راج ہے۔ بیشتر لوگ یہ جگہ چھوڑ کر جا چکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ بقا کی جدوجہد میں لگے ہیں۔
اس گاؤں کی آبادی اور خوشحالی نریڑی جھیل سے وابستہ تھی جو اب پہلی حالت میں باقی نہیں رہی۔ یہ جھیل تازہ پانی سے محروم ہو گئی ہے، فیکٹریوں کے آلودہ پانی نے اس میں آبی حیات کا خاتمہ کر دیا ہے اور رہی سہی کسر سمندر نے پوری کر دی ہے جو تیزی سے اسے نگلتا جا رہا ہے۔
اب امن ملاح میں چند ہی گھرانے مقیم ہیں جن میں عمر ملاح کا خاندان بھی شامل ہے۔ چونکہ اب انہیں مچھلی نہیں ملتی اس لیے وہ جھیل کے آس پاس دیوی (ببول) کے جنگلات کی لکڑی اور اس سے کوئلہ بنا کر بیچتے ہیں۔
سندھ کی ساحلی پٹی پر معدوم ہوتی 80 سے زیادہ جھیلوں کے کنارے رہنے والے سینکڑوں ملاح خاندانوں کی یہی کہانی ہے جن کے خواب ان جھیلوں کے ساتھ مرتے جا رہے ہیں۔
بدین سجاول اور ٹھٹہ کی ساحلی پٹی میں تازہ پانی کی 80 سے زیادہ جھیلیں ہوا کرتی تھیں جن میں نریڑی، جھبو، شکور، سائینری، اچھ، کنڈڑی، چورھڈی، کھنبھرو، وایارو، ھڈا ، داسڑا، بہن، سانڈو، بکرانڈی، شیخانی، لوہن، کڈھ، دان، پٹیجی اور میانو جھیل اپنی خوبصورتی اور معاشی افادیت کے باعث بہت مشہور رہی ہیں۔
1999 میں آنے والے سمندری طوفان کے نتیجے میں سمندر کو خشکی کی طرف بڑھنے کا راستہ مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ذرخیز زمین کے ساتھ ساحلی پٹی کی متعدد قدیم جھیلوں کو بھی نگل لیا۔ تباہی کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اب یہ جھیلیں کھارے پانی کے سمندری ڈھورے بن کے رہ گئیں ہیں۔
تیزی سے معدوم ہوتی ان جھیلوں میں نریڑی اور جھبو بھی شامل ہیں اور یہ دونوں رامسر سائٹس (عالمی اہمیت کے حامل آبی مقامات) میں شمار ہوتی تھیں۔ نریڑی جھیل بدین کی تحصیل گولاڑچی اور ساحلی پٹی میں 12 ہزار ایکڑ پر پھیلی ہوتی تھی۔ لیکن کئی سال سے میٹھا پانی میسر نہ ہونے، چینی بنانے کی فیکٹریوں سے نکلنے والے کیمیائی مادوں اور بحیرہ عرب کے کھارے پانی نے اسے ایک سمندری کھاڑی میں تبدیل کر دیا ہے۔
اس سے کچھ دور گولاڑچی اور ضلع سجاول کے تحصیل جاتی کی ساحلی حدود میں ایک ہزار 745 ایکڑ پر پھیلی جھبو جھیل بھی میٹھے پانی کی کمی اور سمندری چڑھاؤ کی لپیٹ میں آ کر تباہ ہو گئی ہے۔ ماضی کی اس حسین کے آثار چند ہی ایکڑ پر باقی ہیں اور یہ بھی سمندر کی نذر ہونے والے ہیں۔
چند دہائیاں پہلے ان جھیلوں کے دامن ڈیڑھ سو سے زیادہ اقسام کے جانوروں اور پودوں کا مسکن تھے جن آبی پرندے، مچھلیاں، آبی پھل اور گھاس خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان جھیلوں میں ڈنبھرو، تھیرو، پوپری، کرڑو، رڑو، فوجی رڑو، منڈھو، کھگھو، تھیری، گراس، دیو، لوہڑ، بوہن، جرکو، موراکھی، گندن، وکھر، ڈاہی، گانیر اور دیگر اقسام کی مچھلیاں ملتی تھیں۔
ان جھیلوں سے نڑ، ٹوپ، کل، ڈیر، پن، سینر، ناڑو، کنول، لوڑھ، قم اور پابوڑو جیسے آبی پھل اور گھاس حاصل کی جاتی تھی۔
سرد موسم میں کونج، چیکھلو، ہنجھ، لاکھے جاجی، تور، نیرگی، تھورانڈو، ڈگوش، بوھاڑ، گہنو، رتونبو، بڈنو، چیہ، آڑی، پین، گوریو، سان، جاہو، چٹوڑو، کہنگ، کیناٹھی، گوھایو، گایو، کانیرو ، ڈیڈوڑو، اور دیگر اقسام کے لاکھوں پرندے وسط ایشیا سے ہجرت کر کے ان جھیلوں پر آتے تھے۔
سندھ کی ساحلی پٹی پر معدوم ہوتی 80 سے زیادہ جھیلوں کے ساتھ لاکھوں لوگوں کی معاشی زندگی جڑی تھی
بدین، ٹھٹہ اور سجاول کی ساحلی پٹی کے 4 ہزار دیہات کی تقریباً آٹھ لاکھ آبادی کی معاشی و سماجی زندگی کسی نہ کسی طرح ان جھیلوں سے منسلک تھی۔ یہاں رہنے والے مچھیرے انہی جھیلوں سے مچھلیاں پکڑ کر گزر بسر کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ جھیلوں پر آنے والے غیر ملکی پرندے بھی ان کی روزی روٹی کا ذریعہ تھے جنہیں بیچ کر انہیں اس قدر رقم مل جاتی تھی کہ اس سے وہ اپنے بچوں کی شادیاں بھی کیا کرتے تھے۔
زیرو پوائنٹ کے خمیسو ملاح کا کہنا ہے کہ میٹھے پانی کی کمی سے جھیلیں برباد ہو گئی ہیں۔ یہاں کے لوگ اور باہر سے آنے والے سیاح پرندوں کا گوشت بہت پسند کرتے ہیں، خصوصاً بڑی دعوتوں میں پرندوں کا گوشت پکایا جاتا تھا جو ہم انہیں انہی جھیلوں سے پکڑ کر مہیا کرتے تھے۔ اب ہماری روزی کا یہ ذریعہ بند ہو گیا ہے کیونکہ جھیلیں ختم ہونے کے باعث سرد ممالک سے آنے والے لاکھوں مسافر پرندوں کی پناہ گاہیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
رگ رگ میں میری پھیل گیا ہے یہ کیسا زہر: انسانی آبادیوں کے آلودہ پانی کی آمد سے حمل جھیل کی آبی حیات تباہی کا شکار۔
جھیلوں کے کنارے وسیع رقبے پر پھیلی گھاس ساحلی پٹی پر رہنے والے لوگوں کے مویشیوں کی خوراک تھی۔ دیہات اور ماہی گیروں کی بستیوں میں رہنے والی خواتین ان جھیلوں کے کنارے مخصوص جھاڑیوں سے عام استعمال کی مختلف چیزیں بنا کر فروخت کیا کرتی تھیں جبکہ مقامی بچے جھیلوں کے اندر اگنے والے آبی پھل بور، پونی، لوڑھ، قم اور پابوڑو کو بازاروں میں بیچ کر جیب خرچ حاصل کرتے تھے۔
سيرانی کے قریبی بھگڑا میمن گاؤں کی فاطمہ ملاح نے بتایا کہ برسوں پہلے ہم جھیل کی پن (آبی جھاڑی جس کے پتوں اور ٹہنیوں سے مختلف چیزیں بنائی جاتی ہیں) سے تڈے اور تئوریاں (چٹائیاں) بناکر بیچتے تھے اور اس کی آمدنی سے ہمارا اچھا گزارا ہو جاتا تھا۔ لیکن جب سے جھیلیں خشک ہونا شروع ہوئی ہیں تو پن بھی اگنا بند ہو گئے ہیں۔
''اب ہمارے مرد شہروں میں جاکر مزدوری کرتے ہیں جو کبھی مل جاتی ہے اور کبھی وہ خالی ہاتھ واپس آتے ہیں۔ پہلے بھی ہم زیادہ خوشحال نہیں تھے لیکن جھیلیں ہماری بنیادی ضرورتیں پورا کر دیتی تھیں۔ اب ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں خالی پیٹ سونا پڑتا ہے۔''
تاریخ اشاعت 23 مارچ 2023