جعفر آباد: سیلاب کے بعد گنداخہ واٹر پلانٹ بحال نہ ہو سکا، لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہو گئے

postImg

تنویر احمد

postImg

جعفر آباد: سیلاب کے بعد گنداخہ واٹر پلانٹ بحال نہ ہو سکا، لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہو گئے

تنویر احمد

آلودہ پانی پینے کی وجہ سے وقار علی کے گھر کے کئی افراد گزشتہ چند ماہ میں پیٹ اور جِلد کی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ 

بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے صدر مقام سے 55 کلومیٹر کی مسافت پر واقع تحصیل گنداخہ کے 23 سالہ وقار علی کا خاندان نو افراد پر مشتمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "روزگار میسر نہ ہونے کے باعث ہمارے مالی حالات اچھے نہیں رہے اس لئے ہم صاف پانی خریدنے یا دور دراز سے پانی بھر کر لانے پر اٹھنے والے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے"۔ وہ تعمیراتی کاموں میں مزدوری کر کے گزر بسر کرتے تھے لیکن سیلاب کے بعد مزدوری کے مواقع ختم ہو گئے ہیں کیونکہ ہر جگہ پانی کھڑا ہونے کے باعث تعمیراتی سرگرمیاں معطل ہیں۔ 

ان کے قصبے میں بہت سے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں صاف پانی فراہم کرنے والا پلانٹ سیلاب میں تباہ ہو گیا ہے۔ 

گنداخہ سٹی کی آبادی تقریباً تین ہزار ہے جسے یہاں واقع واٹر سپلائی پلانٹ سے پانی مہیا کیا جاتا رہا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس سال اگست میں آنے والے سیلاب نے پلانٹ کو ناکارہ کر دیا ہے۔ سیلاب سے جو تباہی ہونا تھی وہ تو ہوئی لیکن پانی اترنے کے بعد انتظامیہ نے بھی پلانٹ کی مرمت پر کوئی توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ اس کی ظاہری حالت سے عیاں ہے۔ 

اس پلانٹ میں بنائے گئے دو بڑے تالابوں میں پانی پر کائی کی تہہ جمی دکھائی دیتی ہے۔ وقار علی بتاتے ہیں کہ ان تالابوں میں قریبی نہر سے پانی لا کر ذخیرہ کیا جاتا تھا اور پھر اسے واٹر سپلائی سنٹر کے پلانٹ میں بنائے گئے چھوٹے تالابوں میں ڈال کر موٹر کے ذریعے ایک ٹینکی میں پہنچایا جاتا جو پورے شہر کی ضروریات کو پورا کرتی تھی۔

پوری عمارت کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔<br>پوری عمارت کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔

پلانٹ کے داخلی دروازے سے اندر جائیں تو پوری عمارت کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں جا بجا سبزی مائل پانی جمع ہے، فرش اور دیواروں پر کائی جمی پڑی ہے اور کھڑے پانی پر مچھروں کی بھرمار ہے۔ یہاں سیم زدہ دیواروں والے ایک کمرے کی کھڑکی سے اندر جھانکیں تو پانی کو ٹینکی تک پہنچانے والی موٹر اور دیگر سامان ناکارہ پڑا ہے۔ ایک مقامی صحافی میجر جمالی بتاتے ہیں کہ "یہ پرانے پمپ ہیں جو خراب ہو چکے ہیں جنہیں تبدیل کرنے کے لئے منگوائے گئے نئے پمپوں کو بھی سیلاب نے قابل استعمال نہیں چھوڑا"۔

وقار اور ان جیسے بہت سے لوگوں کے پاس اب آلودہ پانی استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس علاقے میں علاج معالجے کی سرکاری سہولیات پہلے بھی بہت کم تھیں جو سیلاب کے بعد برائے نام رہ گئی ہیں کیونکہ اس آفت نے مقامی طبّی مراکز کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر وہ علاج معالجے کے لئے نجی ڈاکٹروں کے پاس جائیں تو وہ 2500 سے 3000 ہزار روپے تک فیس طلب کرتے ہیں جسے ادا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔

میجر جمالی بتاتے ہیں کہ انہوں نے کئی مرتبہ ضلعی انتظامیہ کو واٹر پلانٹ سے سیلابی پانی نکالنے اور اس کی صفائی اور مرمت کرنے کے لئے درخواست دی ہے لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر نصب ہینڈ پمپس مقامی لوگوں کے پاس صاف پانی کے حصول کا واحد ذریعہ ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے خرچ پر گھریلو ضرورت کا پانی ان نلکوں سے بھر کر لاتے ہیں۔ بعض لوگ یہ پانی گنداخہ میں فروخت بھی کرتے ہیں جس کا 30 لٹر کا گیلن 170 روپے میں مل رہا ہے جبکہ عام حالات میں یہی گیلن 50 روپے میں دستیاب ہوتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'اس لمحے کی اذیت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا جب کوئی عزیز مصیبت میں مر رہا ہو اور آپ کچھ نہ کر سکیں'

لورالائی میں صوبائی محکمہ صحت کے سابق ترجمان ڈاکٹر منیر اقبال کے مطابق جن علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہے وہاں فنگس (پھپھوندی) انفیکشن کا خطرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیلاب زدگان میں دو طرح کی جِلدی بیماریاں سامنے آ رہی ہیں۔ ان میں ایک بیکٹیریل سکِن انفیکشن ہے جس کا علاج اینٹی بائیوٹک دوا سے با آسانی کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری بیماری فنگس ہے جو کہ خطرناک ہے۔

ان کے مطابق "فنگس کے علاج سے پہلے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے۔ سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے بھیجی گئی امداد میں فنگس سے بچاؤ کا سامان نہیں ہوتا کیونکہ اس کے لئے مخصوص دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے جو فی الوقت سیلاب زدہ علاقوں میں حسبِ ضرورت دستیاب نہیں ہیں"۔

وقار علی کو اپنی مشکلات کا حل معلوم نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتے کے ان کے مسائل کون حل کروا سکتا ہے۔ سیلاب کے دوران نہ تو کوئی امدادی ادارہ ان تک پہنچا اور نہ ہی کوئی مقامی سردار ان کی مدد کو آیا اور نہ ہی حکومت نے ان کی کوئی مدد کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "اگر انتظامیہ واٹر سپلائی پلانٹ کو فعال کر کے علاقے میں صاف پانی کی فراہمی بحال کر دے تو ان کی کم از کم ایک بڑی مشکل ختم ہو جائے گی"۔

تاریخ اشاعت 1 دسمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

تنویر احمد شہری امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایم اے او کالج لاہور سے ماس کمیونیکیشن اور اردو ادب میں ایم اے کر رکھا ہے۔

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

گوادر کول پاور پلانٹ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی مثال بن چکا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.