پیاس بڑھتی جاتی ہے بہتا دریا دیکھ کر: سیہون میں حکومتی اقدامات کے باوجود مقامی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم

postImg

عرس سولنگی

postImg

پیاس بڑھتی جاتی ہے بہتا دریا دیکھ کر: سیہون میں حکومتی اقدامات کے باوجود مقامی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم

عرس سولنگی

حبیب اللہ دن بھر گدھا گاڑی چلا کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ لیکن کام کاج نمٹانے کے بعد بھی انہیں آرام نہیں ملتا بلکہ ہر شام اپنی گدھا گاڑی پر چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے وہ ایک کنوئیں پر جاتے ہیں اور وہاں سے اپنے گھر میں استعمال ہونے والا پانی بھر کر لاتے ہیں۔ 

ان کی عمر 35 سال ہے اور وہ صوبہ سندھ کے مغربی قصبے سیہون شریف کی ایک پسماندہ آبادی چھوٹو عامرانی میں اپنے بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ اگرچہ ان کے گھر میں سرکاری نل لگا ہوا ہے لیکن، ان کے مطابق، اس میں پچھلے کئی ماہ سے پانی نہیں آ رہا جس سے ان کی زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے کیونکہ ان کے گھرانے کے کسی ایک فرد کو ہر روز کم از کم دو بار کنوئیں سے پانی بھر کو لانا پڑتا ہے۔ 

دراصل ان کے پورے قصبے کو یہی مسئلہ درپیش ہے۔ 

سیہون شریف میں پانی کی قلت اِس سال مارچ میں شروع ہوئی جب اسے پانی فراہمی کرنے والا سرکاری نظام تقریباً بے کار ہو کر رہ گیا اور اس میں شامل پانچ تالاب اور تین ٹینکیاں خشک ہو گئیں۔ اس مسئلے کی بنیادی وجہ قصبے کے مشرقی پہلو میں بہنے والے دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے جہاں سے ان تالابوں اور ٹینکیوں کو پانی پہنچایا جاتا ہے۔ 

اس قلت کو دور کرنے کے لیے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے صوبائی محکمے نے دریا سے منسلک سپنا نامی مصنوعی جھیل سے پانی لے کر شہریوں کو پہنچانا شروع کیا۔ یہ جھیل پانچ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور 20 فٹ سے 25 فٹ گہری ہے۔ تاہم اس کا پانی پینے کے لائق نہیں کیونکہ مقامی لوگ اس میں اپنے مویشیوں کو پانی پلاتے اور نہلاتے ہیں جس کے باعث ان کا فضلہ اس کے پانی میں شامل ہو تا رہتا ہے۔ 

سیہون شریف میں واقع سید عبداللہ شاہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ آف سائنسز اینڈ ہاسپٹل کے ایڈمنسٹریٹر بابر کرم اللہ کا کہنا ہے کہ جھیل کے پانی کی قصبے کو فراہمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے پینے والے بیمار پڑنے لگے۔ ان کے مطابق صرف مارچ 2022 میں پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا پانچ سو سے زیادہ مریض ان کے ادارے میں علاج کے لیے لائے گئے جن میں تین سو بچے بھی شامل تھے۔ 

یہ طبی مسائل منظرِ عام پر آتے ہی صوبائی حکومت نے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر پینے کے پانی کی قلت پر قابو پانے کے اقدامات کرے۔ ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے محکمے نے سیہون شریف کے جنوب میں دریائے سندھ کے کنارے واقع گاڑھی واری نامی گاؤں میں ایک بہت بڑی برقی موٹر نصب کر کے زیرِزمین پانی شہریوں کو پہنچانا شروع کیا۔ تاہم اپریل کے آغاز میں ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہونے لگی جس کے باعث اس موٹر کو روزانہ چند گھنٹوں سے زیادہ چلانا ممکن نہ رہا اور یوں پانی کی قلت کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔

اس صورتِ حال سے پریشان شہریوں نے 18 مئی کو سندھ یونائیٹڈ پارٹی نامی سیاسی جماعت کی قیادت میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ اس مظاہرے کے شرکا سیہون شریف سے نکل کر اس کے مغرب سے گزرنے والی مرکزی شاہراہ، انڈس ہائی وے، تک گئے جہاں انہوں نے تمام ٹریفک روک دی۔ بعد ازاں انہوں نے قصبے کے ایک مرکزی چوک میں بھوک ہڑتال شروع کردی۔

یہ احتجاج ختم کرانے کے لیے مقامی انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ جب تک دریائی پانی کی قلت برقرار رہے گی اس وقت تک سیہون شریف کے باسیوں کو فائر بریگیڈ کے ٹرکوں اور ٹینکروں کے ذریعے پانی مہیا کیا جائے گا۔ اگرچہ انتظامیہ نے اپنا وعدہ پورا کیا لیکن اس طرح فراہم کیا جانے والا پانی بھی مقامی ضروریات سے کہیں کم رہا۔  

کچھ نہ دوا نے کام کیا 

سیہون شریف کو پانی کی فراہمی کے لیے پہلا سرکاری منصوبہ 1965 میں صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں بنایا گیا جو 20 ہزار افراد کو پانی مہیا کرنے کے لیے کافی تھا (جبکہ مقامی آبادی اس وقت صرف 15 ہزار نفوس پر مشتمل تھی)۔ بعد ازاں 1975 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سیہون شریف کی برھتی ہوئی آبادی کو پانی مہیا کرنے کے لیے ایک اور منصوبے کو عملی شکل دی جس کے تحت زیرِزمین پائپوں کے ذریعے دریا کا پانی دو تالابوں اور ایک ٹینکی میں لایا جاتا تھا اور وہاں سے گھر گھر مہیا کیا جاتا تھا۔ 2008 میں سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد اس نظام کو توسیع دے کر اس میں تین تالابوں اور دو ٹینکیوں کا اضافہ کیا گیا۔  

لیکن شہری آبادیوں کو پانی کی فراہمی کے ذمہ دار صوبائی محکمے کے مقامی اہلکار پریل خان چانڈیو کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سال سے دریائے سندھ میں بہنے والے پانی کی مقدار مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ مزیدبرآں، ان کے مطابق، دریا کے پاٹ میں ہونے والی جغرافیائی تبدیلیوں کے باعث اس کا پانی سیہون شریف سے چار کلومیٹر دور چلا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں تبدیلیوں کا مجموعی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر سال جنوری، اپریل، مئی، جون اور دسمبر کے مہینوں میں دریائی پانی ان زیرِ زمین پائپوں تک پہنچ ہی نہیں پاتا جو اسے تالابوں اور ٹینکیوں میں لاتے ہیں۔  

سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سیہون شریف کے ایک حالیہ دورے کے دوران دریائے سندھ میں پانی کی کمی کی توثیق کرتے ہوئے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ صوبہ سندھ کو اس کے سالانہ حصے سے 42 فیصد کم دریائی پانی مل رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دریائی پانی کی تقسیم کی نگرانی کرنے والا قومی ادارہ، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا)، "سندھ کو اس کے حصے کے پانی کی مکمل فراہمی یقینی بنائے تو سیہون شریف سمیت سندھ بھر میں پانی کی قلت ختم ہو سکتی ہے"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پیاس جب بڑھتی ہے تو ڈر لگتا ہے پانی سے: حیدرآباد میں آلودہ پانی کے استعمال سے بیماریوں اور اموات میں اضافہ۔

تاہم محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے مطابق صوبائی حکومت نے اپنا تمام تر زور محض دریائے سندھ میں مطلوبہ مقدار میں پانی کی فراہمی پر مرکوز نہیں کیا ہوا بلکہ سیہون شریف میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے دیگر ذرائع استعمال کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ اس محکمے کے مقامی انجینئر عرفان بوک کہتے ہیں کہ اس حکومت نے 2018 میں 12 کروڑ روپے کی لاگت سے سیہون شریف سے ڈیڑھ کلومیٹر مغرب میں واقع لعل باغ کے مقام پر شمسی توانائی استعمال سے چلنے والے پمپ لگائے تھے تاکہ ان کی مدد سے زیرِ زمین پانی قصبے کو فراہم کیا جا سکے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ "انجینئروں اور ٹھیکے داروں کی مبینہ بدعنوانی کے باعث یہ نظام مکمل ہونے کے چند روز بعد ہی خراب ہو گیا"۔

عرفان بوک کا دعویٰ ہے کہ یہ خرابی صرف 10 لاکھ روپے خرچ کر کے دور کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے مراد علی شاہ نے حال ہی میں اپنے آبائی علاقے واہڑ کا دورہ کرتے ہوئے تمام متعلقہ محکموں کو حکم دیا ہے کہ وہ سیہون شریف کو پانی فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر ایک نئی سکیم بنائیں جو ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کے لیے کافی ہو۔

تاریخ اشاعت 14 جولائی 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد عرس سولنگی کا تعلق سندھ کے قدیمی علاقے سیہون شریف سے ہے، گزشتہ سات برسوں سے وہ صحافتی پیشہ سے منسلک ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.