پینسٹھ سالہ خدا بخش بڈلانی رہتے تو راجن پور کے صحت افزا مقام ماڑی میں ہیں لیکن ان کا خاندان تالاب کا مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔
ان کے گھر سے دو کلومیٹر دور پانی کی ایک نوتعمیر شدہ ٹینکی کبھی انہیں اچھے دونوں کے آنے کی نوید دیتی ہے اور کبھی ان کی بے بسی کا منہ چڑاتی ہے۔
ماڑی کوہ سلیمان کی ایک اونچی پہاڑی پر ہموار جگہ پر واقع ہے جہاں دس ہزار سے زیادہ لوگ بستے ہیں۔ موسم گرما میں اس جگہ کا درجہ حرارت راجن پور کے دیگر علاقوں سے دس تا پندرہ ڈگری کم رہتا ہے اس لئے ہر سال سیاحوں کی معقول تعداد اس جگہ آتی ہے۔ یہ سیاح بذریعہ انڈس ہائی وے فاضل پور، حاجی پور اور پھر لنڈی سیدان سے ہوتے ہوئے ماڑی پہنتے ہیں۔
ماڑی میں بارڈر ملٹری پولیس کا تھانہ، بنیادی مرکز صحت، سیاحوں کے لئے چند ہوٹل اور ریسٹ ہاؤس بھی واقع ہیں۔ یہاں کی مقامی آبادی اس پہاڑی کی چوٹی کے ارد گرد رہتی ہے۔ قبائلی علاقوں کے بلوچ عام طور پر بستی کی صورت میں نہیں رہتے اسی طرح ماڑی میں بھی لوگوں کے گھر ایک دوسرے سے فاصلے پر واقع ہیں۔ ان لوگوں کی اکثریت کا پیشہ گلہ بانی ہے۔
ماڑی قومی اسمبلی کے حلقے این اے 194 اور صوبائی حلقے پی پی 294 کی حدود میں آتا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں ان دونوں حلقوں سے بالترتیب سردار نصراللہ دریشک اور ان کے بیٹے حسنین بہادر دریشک رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ویسے تو یہ علاقہ بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے لیکن صاف پانی کی عدم دستیابی یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ ہمہ وقت بیماریوں سے لڑتے رہتے ہیں۔ یہاں پانی کے حصول کا واحد ذریعہ وہ تالاب ہیں جن میں بارش کا پانی ذخیرہ ہوتا ہے اور تمام انسان اور حیوان اسی پانی سے پیاس بجھاتے ہیں۔
مقامی سماجی کارکن سیوا خان بڈلانی کہتے ہیں کہ علاقے میں اسہال، ہیضہ، ہیپاٹائٹس اور ٹائفائیڈ جیسی بیماریاں عام ہیں اور خاص طور پر بچے بڑی تعداد میں ان سے متاثر ہوتے ہیں اور ان امراض کی بنیادی وجہ تالابوں کا آلودہ پانی ہے۔
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے فروری 2021ء میں ماڑی کے دورے میں اس علاقے کے لئے واٹر سپلائی سکیم کا اعلان کیا تھا جو علاقے کے لئے بہت بڑی خوشخبری تھی۔
اعلان کے کچھ ہی عرصہ بعد پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے واٹر سپلائی منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا۔ سروے میں ماڑی سے تقریباً چھ کلومیٹر دور زیارت کے مقام پر زیر زمین میٹھا پانی دریافت ہوا تو وہاں ڈرلنگ کر کے بور کر دیا گیا۔ چونکہ علاقے میں بجلی کی سہولت نہیں ہے اس لئے واٹرسپلائی کی موٹر چلانے کے لئے سولر پینل نصب کئے گئے۔ زیارت سے ماڑی تک پانی پہنچانے کے لئے فولادی پائپ بچھائے گئے اور پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ٹینکی بھی تعمیر کر دی گئی۔ لیکن صاف پانی اب بھی ماڑی کے لوگوں تک نہیں پہنچا۔
خدابخش یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اب تک واٹرسپلائی چالو کیوں نہیں ہو سکی۔"میں ہر روز اپنے بچوں کے لئے صاف پانی ملنے کی امید پر ٹینکی تک آتا ہوں اور دبے (سرائیکی زبان میں گدلے پانی کا تالاب) کا پانی لے جاتا ہوں۔ اگر حکومت نے واٹر سپلائی سکیم پر بیشتر کام مکمل کر لیا ہے تو اسے فعال کرنے میں کیا رکاوٹ ہے اور اسے دور کیوں نہیں کیا جاتا۔"
یہ بھی پڑھیں
اسی آلودہ پانی میں عمر بہتی جا رہی ہے: نارووال کے شہری آلودہ پانی کے استعمال سے ہسپتالوں کا رخ کرنے لگے
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ایکسیئن عامر رند نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سابق حکومت میں اس سکیم پر اخراجات کا تخمینہ تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔ اس میں سے ابتداً تین کروڑ روپے جاری کئے گئے جس سے بورنگ، پائپ لائن بچھانے اور ٹینکی کی تعمیر کا کام مکمل ہوا۔ ابھی اس سکیم میں شامل ایک پمپنگ سٹیشن اور آٹھ چھوٹی ٹینکیوں کی تعمیر کے علاوہ ڈیزل جنریٹر کی تنصیب باقی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسرے مرحلے میں اس منصوبے کے لئے دسمبر 2022ء میں مزید ایک کروڑ روپے جاری کئے گئے تھے جو چند روز بعد حکومت نے واپس لے لئے۔ عبوری حکومت آنے پر یہ فنڈ منجمد ہو گئے اور منصوبے پر کام رک گیا۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جون میں نیا بجٹ آنے کے بعد باقی ماندہ فنڈ جاری ہو جائیں گے جن سے منصوبہ مکمل کر لیا جائے گا۔
تاریخ اشاعت 7 جون 2023