کانجی کولہی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ ان کی 19 سالہ بیٹی لچھمی کی شادی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔
اس دباؤ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے گزشتہ سال انہوں نے دو مرتبہ کیڑے مار دوا پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ان کے گھر والوں نے بروقت علاج کرا کے ان کی جان بچا لی۔
شیڈولڈ کاسٹ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے کانجی کولہی کی عمر 48 سال ہے۔ وہ جنوبی سندھ کے شہر بدین سے 11 کلومیٹر جنوب مغرب میں گولاڑچی روڈ پر واقع گاؤں سونو کولہی میں رہتے ہیں۔ کئی سال پہلے انہوں نے لچھمی کا رشتہ ایک قریبی گاؤں چھوتھو کولہی میں ہرچند نامی شخص کے بیٹے سنتوش کے ساتھ طے کیا تھا۔ اس وقت لڑکی کی عمر پانچ سال تھی اور لڑکے کی عمر آٹھ سال۔
جب 2019 میں دونوں خاندانوں نے فیصلہ کیا کہ لچھمی اور سنتوش کی شادی کر دی جائے تو لڑکے کے خاندان والوں نے مطالبہ کیا کہ لڑکی کے والدین اسے جہیز میں زیورات، برتن، الماری، چارپائی، بستر اور ایک بکری دیں۔ کانجی کولہی کہتے ہیں کہ ان کے پاس یہ سب کچھ دینے کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔
اس لیے ان کی بیٹی کی رخصتی ملتوی ہو گئی۔
جلد ہی ان کے حالات مزید خراب ہو گئے کیونکہ 2020 میں انہیں ساحل سمندر کے قریب واقع سیلو مندھرو نامی بستی میں بنا ہوا اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ اُس علاقے میں پانی کی قلت ہو گئی تھی اور جن زمینوں پر وہ رہتے اور کام کرتے تھے ان کے مالک نے انہیں بیچ دیا تھا۔
کانجی کولہی کہتے ہیں کہ اُس وقت ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ آٹھ افراد پر مشتمل اپنے خاندان اور گھر کے سازوسامان کو کسی دوسری جگہ لے جاتے۔ ان کے مطابق "ان حالات میں گاؤں کے لوگوں نے ہمدردی دکھاتے ہوئے ہمارے لیے کرایہ اکٹھا کیا اور اس طرح ہم سونو کولہی گاؤں پہنچے جہاں ہمارے چند رشتہ دار رہتے ہیں"۔
نئی جگہ پر انہیں 20 دن کھلے آسمان تلے گزارنا پڑے کیونکہ سونو کولہی جس شخص کی زمین پر آباد ہے وہ انہیں ایک کچا گھر بنانےکی اجازت دینے کے عوض ایک لاکھ روپے مانگ رہا تھا جبکہ ان کے پاس ایک پیسا بھی نہیں تھا۔ تاہم ان کے رشتہ داروں اور دیگر لوگوں کی سفارش پر زمیندار نے انہیں اس شرط پر وہاں رہنے کی اجازت دی کہ وہ آئندہ دو سال میں ایک لاکھ روپے جمع کر کے اسے دیں گے۔ مگر ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ انہیں گاؤں سے نکال دے گا۔
کانجی کولہی کہتے ہیں کہ وہ روزانہ ڈھائی سو روپے کماتے ہیں جس میں سے بچت کرنا تو درکنار "گھر والوں کا پیٹ بھرنا بھی مشکل ہے"۔ اس لیے دو سال گزرنے کے باوجود ان کے پاس مطلوبہ رقم جمع نہیں ہو سکی-
اس سارے عرصے میں وہ لچھمی کے جہیز کے لیے محض لکڑی کی ایک الماری کا ہی بندوبست کر پائے ہیں اور جانتے ہیں کہ "جب تک باقی سامان کا انتظام نہیں ہوتا اس وقت تک اس کی رخصتی نہیں ہو پائے گی"۔
لچھمی کی والدہ کہتی ہیں کہ اگر ان کی بیٹی رخصتی کے وقت جہیز نہیں لے کر جائے گی تو اسے عمر بھر سسرال کے طعنے سننا پڑیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود انہیں کسی نہ کسی طرح اس کے سسرال کی طرف سے طلب کیے گئے سامان کا انتظام کرنا ہی پڑے گا۔
ان کے گاؤں سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ نوبیاہتا کاجل ایسا نہ کر سکنے کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہے۔ اس کی 62 سالہ والدہ سیجی کولہی کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی کی شادی چند ماہ پہلے قریبی ضلع ٹنڈو محمد خان کے رہائشی خمیسو کولہی سے ہوئی۔ ایک ہفتہ پہلے میکے آ کر اس نےاپنے والدین کو بتایا کہ اس کی ساس اور سسر جہیز نہ لانے پر اسے روزانہ طعنے دیتے ہیں اور اس کا شوہر بھی اس بات پر اسے مارتا پیٹتا ہے۔
سیجی کولہی کہتی ہیں کہ سسرال کے ہاں کاجل کی زندگی اتنی دشوار ہو گئی ہے کہ انہیں ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ وہ دلبرداشتہ ہو کر کہیں کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا لے۔
ایک مقامی غیر سرکاری ادارے کے لیے کام کرنے والی دائی سیتا کی بیٹی حال ہی میں یہ قدم اٹھا چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی کو سسرالیوں کا طلب کردہ جہیز نہ لانے پر آئے روز مار پیٹ کا سامنا رہتا تھا۔ ایک دن انہوں نے یہ کہہ کر اسے میکے بھیج دیا کہ وہ اپنے ماں باپ سے پانچ ہزار روپے لے کر آئے اور اگر اسے یہ رقم نہ ملے تو وہ واپس مت آئے۔ سیتا کے مطابق انہوں نے کسی نہ کسی طرح رقم کا انتظام کر کے اپنی بیٹی کو واپس سسرال بھیج تو دیا لیکن وہاں اسے اس قدر پریشان کیا گیا کہ چند ہی روز کے بعد اس نے چوہے مار دوا پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
اس وقت وہ چھ ماہ کی حاملہ تھی۔
رواج بمقابلہ قانون
شیڈولڈ کاسٹ ہندو خاندان عام طور پر اپنی بیٹیوں کا رشتہ ان کے بچپن میں ہی طے کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد جیسے ہی جہیز کا بندوبست ہوجاتا ہے تو ان کی رخصتی کر دی جاتی ہے۔
کانجی کولہی کی بیٹی کے رشتے میں بطور گواہ شریک ہونے والے ان کے رشتہ دار اور سماجی کارکن سونو کولہی کا کہنا ہے کہ ان کی برادری میں لڑکے کے خاندان کی جانب سے جہیز طلب کیا جانا معمول کی بات ہے اور اسے برا نہیں سمجھا جاتا۔ دوسری طرف لڑکی کے والدین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت نہیں کریں گے کیونکہ "ایسا کرنے سے ان کی عزت پر حرف آ سکتا ہے"۔
گیلپ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم ان سماجی رویوں کی توثیق کرتی ہے۔ اس کی طرف سے 2017 میں کیا گیا سروے ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی 56 فیصد آبادی یہ امید رکھتی ہے کہ لڑکی شادی میں جہیز ساتھ لائے گی جبکہ اس کے 2014 میں کیے گئے سروے میں ایسی امید رکھنے والی آبادی کا تناسب 53 فیصد تھا۔
بدین کے علاقے کڑیو گھنور سے تعلق رکھنے والے وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن رمیش کمار کہتے ہیں کہ ان سماجی رویوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے پاکستان میں 1976 سے ایک قانون موجود ہے جس کے تحت دولہا، دلہن اور ان کے خاندانوں کا کوئی فرد دوسرے فریق سے جہیز یا تحائف کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ ایسا مطالبہ کرنے والے شخص کو چھ ماہ سے دو سال تک قید اور دس ہزار روپے جرمانہ یا بیک وقت دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ عملی طور پر اس قانون کا نفاذ کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔
ان کے مطابق اس کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ رسوم و رواج ہیں جنہیں لوگ ترک نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومتی اہلکار اس کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کا بھی کوئی انتظام نہیں کرتے۔
نتیجتاً، 2000 اور 2009 میں جرمنی میں چھپنے والے دو تحقیقی مضامین کے مطابق، جہیز سے متعلقہ مسائل پاکستان میں ہر سال تقریباً دو ہزار خواتین کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔ اگر اس تعداد کو ملک کی مجموعی آبادی کے تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو ہر ایک لاکھ پاکستانی خواتین میں سے 2.45 ہر سال جہیز کی وجہ سے پیدا ہونے والے جھگڑوں کی وجہ سے اپنی زندگی کھو بیٹھتی ہیں۔
ان تحقیقی مضامین کے مصنفین کے بقول یہ شرح دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔
تاریخ اشاعت 6 اپریل 2022