ساتویں جماعت کی عائشہ عید کی چھٹیوں کے بعد معمول کے مطابق سکول پہنچیں تو گیٹ بند اور باہر طالبات کا رش تھا۔ عائشہ دیگر طالبات کی طرح بارش میں بھیگتی گیٹ کھلنے کا انتظار کرتی رہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا طالبات کارش بڑھتا جا رہا تھا۔
سکول کی ٹیچرز بھی بچیوں کے ساتھ باہر کھڑی تھیں۔ سکول کا وقت گزر گیا لیکن گیٹ نہیں کھلا۔ ان سب کو مایوس اپنے گھروں کی طرف لوٹنا پڑا۔
عائشہ بتاتی ہیں کہ انہیں لگا شاید بارش کی وجہ سے چوکیدار نہیں آیا۔ لیکن تھوڑی دیر میں پرنسپل صاحبہ نے پیغام بھیجا کہ سکول آج نہیں کھلے گا اور شاید کچھ دن مزید نہیں کھلے گا۔
" ایسا پہلی بار نہیں ہو ا تھا۔ اس سے پہلے بھی سکول کی زمین کے مالک نے سکول کو تالا لگا دیا تھا لیکن کچھ دنوں بعد کھول بھی دیا تھا۔"
خواجہ رشکہ میں قائم گرلز ہائر سکینڈری سکول میں بچیوں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ یہ ضلع مردان کی یونین کونسل مہو ڈھیری کا چھوٹا سا گاؤں ہے جس کی آبادی پانچ ہزار گھرانوں پر مشتمل ہے۔ گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک ہی سکول ہے۔
عائشہ کے والد نوید رحمان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری سکول نجی اراضی پر بنا ہوا ہے مالک نے سکول کی زمین حکومت کو عطیہ کی تھی۔
"حکومت نے سکول کی زمین کے بدلے مالک کو درجہ چہارم کی چند ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن چھ سال گزر جانے کے بعد بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ اب زمین کا مالک بار بار سکول کو تالا لگا دیتا ہے اور ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔"
خیبر پختونخوا میں 2005ء اور 2010ء کے زلزلے میں کئی سکول تباہ ہو گئے تھے۔ اس وقت دہشت گردی سے نبرد آزما حکومت کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں تھے کہ وہ نئے سکول تعمیر کرنے کے لیے زمین خریدتی۔ اس لیے مقامی لوگوں سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنی زمینیں عطیہ کریں۔ مقامی لوگوں نے حکومت کو زمینیں عطیہ کی اور ان پر سکول تعمیر کئے۔
ضم اضلاع میں سکولوں کی سالانہ مردم شماری کی 2020-21ء کی رپورٹ میں "Donated" لفظ کی تشریح یوں کی گئی ہے؛ اس میں وہ زمینیں اور عمارتیں شامل ہیں جنہیں عوام کی جانب سے سکول کی تعمیر کے لیے عطیہ کیا گیا، لیکن ان کی ملکیت حکومت کو منتقل نہیں کی گئی۔ اسی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں لڑکے لڑکیوں کے کل 408 سکول عطیہ کی گئی زمینوں پر تعمیر کیے گئے ہیں، جن میں سے 351 لڑکوں اور 57 لڑکیوں کے سکول ہیں۔
ضلع مردان کی کل آبادی 27 لاکھ 44 ہزار 898 ہے۔
محکمہ تعلیم مردان میں کام کرنے والے سینئر کلرک ایچ ارشاد حسین نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس سکول کے لیے، نواب مہمند جو امن اسلامی جرگہ کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں، نے چھ سال پہلے اپنی زمین سکول کی تعمیر کے لیے پیش کی تھی۔ حکومت سکول کی تعمیر پر 13 کروڑ روپے خرچ کرچکی ہے۔
"زمین مالکان عطیے کے بدلے اپنے خاندان کے افراد کو درجہ چہارم کی نوکری دلواتے ہیں۔ یعنی اسی سکول میں انہیں قاصد، نائب قاصد کی سیٹوں پر بھرتی کر لیا جاتا ہے۔"
ارشاد بتاتے ہیں کہ معاملہ صرف نوکریاں ملنے تک محدود نہیں رہتا۔
" مالکان کی اور بھی شرطیں ہوتی ہیں۔ جیسے کہ ان کے ملازموں کا دوسرے سکول میں ٹرانسفر نہیں ہوگا۔ وہ تاحیات اسی پوسٹ پر کریں گے، ان کی ریٹائرمنٹ یا موت کی صورت میں ان کی اولاد میں سے کسی کو اس سیٹ پر بھرتی کر لیا جائے گا۔"
ارشاد کہتے ہیں کہ یہ مالکان قانون یا میرٹ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ زمین دینے کے بدلے میں ملازمت کی پشکش ایک غیر قانونی عمل ہے اس کے باوجود محکمہ تعلیم برسوں سے غیر قانونی بھرتیاں کر رہا ہے اور ہزاروں لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔
روح اللہ خان ضلعی محکمہ تعلیم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سکول مالکان کی بلیک میلنگ ان کے علم میں ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ حکومت ان زمینوں کو خرید لے لیکن ابھی تک صوبائی حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔
"جن سکول مالکان کے "مطالبے" پورے نہیں ہوئے وہاں روزانہ کی بنیاد پر سکولوں کو تالے لگائے جاتے ہیں یا انتظامیہ کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ حکومت کوئی کارروائی نہیں کرتی۔"
وہ بتاتے ہیں کہ حکومت کی اس پالیسی کی سزا محکمہ تعلیم کو بھگتنا پڑتی ہے۔
گرلز ہائر سیکنڈری سکول خواجہ رشکہ کے زمین کے مالک نواب مہمند لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے چھ کروڑ روپے مالیت کی زمین سکول کے لیے دی ہوئی ہے۔
"مجھے میرا حق نہیں مل رہا۔ مجھ سے اس وعدے پر زمین لی گئی تھی کہ میرے بندوں کو درجہ چہارم اور سات پر بھرتی کیا جائے گا۔ اگر حکومت نے میرے بندے بھرتی نہیں کرنے تو وہ مجھے چھ سال کا کرایہ ادا کر دے۔"
وہ مزید کہتے ہیں، انہوں نے کئی بار اس مسئلے کو ضلعی انتظامیہ، مئیر مردان حمایت اللہ مایار اور محکمہ تعلیم کے سامنے رکھا مگر ہر بار مذاکرت ناکام ہوئے۔
سابق ڈپٹی کمشنر کیپٹن عبدالرحمان اور حمایت اللہ مایار نے نگران حکومت کے دور میں جرگہ کیا تھا۔ اس میں وعدہ کیا گیا کہ محکمہ تعلیم سے بات کرکے یہ مسئلہ حل کر دیا جائے گا۔
"جرگے میں فیصلہ ہوا کہ ہم لوگ سکول کھول دیں۔ ہمارے لوگوں کو نوکریاں مل جائیں گی۔ جس کے بعد ہم نے بارہ دن سے بند سکول کھول دیا مگر تب الیکشن کمیشن نے نئی بھرتیوں پر پابندی عائد کر دی۔"
نواب مہمند کہتے ہیں کہ نئی حکومت آنے کے بعد بھی ان کے مطالبات منظور نہیں کیے جا رہے۔
"لہٰذا میرے پاس سکول بند کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اسی لیے اس بار نئے سیشن کے لیے داخلے بھی بند کر دئے ہیں۔"
ارشاد حسین امید کرتے ہیں کہ نئی حکومت جو ں ہی بھرتیوں پر پابندی اٹھائے گی، پہلے اس سکول میں ملازمین کی بھرتی عمل میں لائی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں
سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا
ڈی ای او عابدہ پروین نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا حکومت اور الیکشن کمیشن کے پابندی کی وجہ سے یہ مسئلہ طول پکڑ گیا ہے۔ ورنہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
"فی الحال ہم نے مئیر اور کمشنر کی معیت میں نواب مہمند کے ساتھ جرگہ کرتے ہوئے انہیں سکول کھولنے پر آمادہ کر لیا ہے۔ جلد ہی ان کے مطالبات بھی پورے کر دئے جائیں گے۔"
نواب مہمند ایک ہی بات پر اڑے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ پھر سے سکول کو تالہ لگا دیں گے۔
پشاور کے سینئیر صحافی محمد ہارون نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سرکار کو زمین عطیہ کرنے کے بدلے سرکاری نوکری کا وعدہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔
پشاور ہائی کورٹ میں 2015ء میں ایک شخص نے دعوی دائر کیا تھا کہ اس کے والد نے ہسپتال کی تعمیر کے لیے زمین دی تھی، اس لیے وہ ملازمت کا حقدار ہے۔
پشاور ہائی کورٹ (ایبٹ آباد بنچ) نے زمین دینے کے عوض نوکری کے وعدے کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور پٹشن کو مسترد کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ بنچ نے 1997ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا تھا کہ ایسے معاہدے سماجی انصاف اور مساوات کے اصولوں کے منافی ہیں۔
"اس کے باوجود ای ڈی او اور کمشنر مردان زمین مالکان اور ان کے غیر قانونی مطالبات ماننے پر تیار ہیں۔"
اس حوالے سے منسٹر ایجوکیشن خیبر پختونخوا فیصل ترکئی، سیکرٹری ایجوکیشن مسعود خان، ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن عبدالاکرام اور ڈائریکٹر ایجوکیشن پشاور ثمینہ الطاف سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تاریخ اشاعت 10 مئی 2024