نصیر آباد ڈویژن: ایک سال میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ

postImg

عبدالکریم

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

نصیر آباد ڈویژن: ایک سال میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ

عبدالکریم

loop

انگریزی میں پڑھیں

بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں تین بچوں کی ماں خدیجہ بی بی امدادی تنظیم سے ملنے والے خیمے کے سامنے دھوپ میں بیٹھی روٹی بنا رہی ہیں۔ ان کی عمر تیس سال ہے مگر عسرت زدہ چہرے اور مدقوق رنگت کے باعث وہ اپنی اصل عمر سے کہیں بڑی دکھائی دیتی ہیں۔

نواحی گوٹھ سلطان کوٹ میں ان کا گھر پچھلے سال سیلاب میں بہہ گیا تھا اور اس آفت نے ان کے شوہر کا کاروبار بھی ختم کر دیا۔ بے روزگار ہونے کے بعد ان کے شوہر ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے اور اکثر اپنا غصہ بیوی پر اتارتے ہیں۔

"بچے اگر کسی چیز کے لیے ضد کریں تو میں مجبوراً شوہر سے کہتی ہوں۔ جواباً وہ جھگڑا اور مار پیٹ شروع کر دیتے ہیں اور اب یہ معمول بن گیا ہے۔ میں کسی سے شکایت بھی نہیں کر سکتی ورنہ مزید تشدد جھیلنا پڑے گا۔"

نصیر آباد میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'سحر آرگنائزیشن' کے قانونی مشیر امتیاز منجھو کچھ عرصہ سے اس علاقے میں خواتین پر تشدد کے واقعات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیلاب کے بعد اس ضلعے میں گھریلو تشدد کے واقعات میں27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پچھلے چھ ماہ کے دوران یہاں تھانوں اور ان کی تنظیم کے 'جینڈر ڈیسک' پر گھریلو تشدد کے 39 واقعات رپوٹ ہوئے۔ ان میں سے چھ واقعات میں مقدمات بھی درج کئے گئے جن میں نو افراد کو قید اور جرمانے کی سزائیں ہوئیں۔ لیکن باقی تمام واقعات میں فریقین نے عدالت سے باہر صلح کر لی۔

عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے صنفی تشدد کی روک تھام کے لئے نصیرآباد ڈویژن میں کام کرنے والے ماہر نفسیات بہرام لہڑی سیلاب کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مالی پریشانی کا نفسیاتی مسائل سے قریبی تعلق ہوتا ہے۔

سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کے گھر،کھڑی فصلیں اور کاروبار ان کی آنکھوں کے سامنے تباہ ہو گئے جس کا بہت سے لوگوں کی ذہنی صحت پر منفی اثر پڑا۔

بہرام بتاتے ہیں کہ نصیر آباد ڈویژن کے چھ اضلاع سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور یہاں خواتین پر گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بھی پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کے مطابق جون 2022ء کے بلوچستان میں گھریلو تشدد کے 157 واقعات رپورٹ ہوئے، کاروکاری کے الزام میں 35 افراد کو قتل کیا گیا جن میں نصف تعداد خواتین کی تھی جبکہ 40 خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

اس سے پہلے 2021 میں گھریلو تشدد کے رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد 127 تھی جبکہ 30 خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوئیں۔

بلوچستان میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے 2021 میں بنائے گئے قانون کے تحت اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے کم از کم چھ ماہ قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ تاہم نصیر آباد میں غیرسرکاری تنظیم شفا فاؤنڈیشن کے ضلعی کوآرڈینیٹر محمد زبیر مخدوم کہتے ہیں کہ ایسے بہت کم واقعات میں ہی ملزموں کو سزا ہو پاتی ہے

یہ بھی پڑھیں

postImg

اس نے کہا بیوی کو مارنا ہمارا خانگی معاملہ ہے اور پولیس واپس چلی گئی: گھریلو تشدد کے خلاف قانون کب لاگو ہو گا؟

ان کا کہنا ہے کہ آگاہی نہ ہونے اور خاندان کی بدنامی کے ڈر سے بیشتر خواتین تشدد کی رپورٹ ہی درج نہیں کراتیں۔ بعض خواتین کو خوف ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے مقدمہ کیا تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ صوبے میں گھریلو تشدد کا مسئلہ بہت پرانا اور گھمبیر ہے تاہم مخصوص  سماجی روایات کے سبب ایسے بیشتر واقعات ریکارڈ پر نہیں آتے۔

زبیر مخدوم تسلیم کرتے ہیں کہ سیلاب کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ان سے خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گھر تباہ ہو جائے اور سر چھپانے کو جگہ نہ ہو تو انسان مایوس ہو جاتا ہے۔ بلوچستان جیسے معاشرے میں جہاں گھر کی تمام ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے وہاں اس کا روزگار ہی نہ رہے تو یقیناً پریشانی بڑھے گی اور اس کا نتیجہ غصہ، چڑچڑے پن اور جھگڑے کی صورت میں نکلے گا۔

تاریخ اشاعت 21 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عبدالکریم کا تعلق کوئٹہ سے ہے وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے ۔ انہوں نے جامعہ بلوچستان سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کیا ہوا ہے ۔ گزشتہ آٹھ سال سے صحافت سے وابستہ ہے۔

کشمیر: جس کو سہارے کی ضرورت تھی، آج لوگوں کا سہارا بن گئی

خیبر پختونخوا: لاپتہ پیاروں کے قصیدے اب نوحے بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا کی ماربل انڈسٹری کے ہزاروں مزدور بیروزگار کیوں ہو رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبدالستار

تھر کول منصوبہ: 24 ارب رائیلٹی کہاں ہے؟

thumb
سٹوری

بحرین کے لوگ مدین ہائیڈرو پاور منصوبے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

فنکار آج بھی زندہ ہے مگر عمر غم روزگار میں بیت گئی

thumb
سٹوری

رحیم یارخان مبینہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا ساجن ملوکانی کون تھا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

مدین ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: مقامی لوگ ہجرت کریں گے، چشمے سوکھ جائیں گے مگر بجلی گھر بنے گا

thumb
سٹوری

تھرپارکر: کیا نان فارمل ایجوکیشن سنٹر بچوں کو سکولوں میں واپس لا پائیں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

ڈاکٹر شاہنواز کے قاتل آذاد ہیں اور انصاف مانگنے والوں پر تشدد ہورہا ہے

افغانستان سے تجارت پر ٹیکس: پاکستان میں پھل اور سبزیاں کیسے متاثر ہو رہی ہیں

انرجی ٹرانسزیشن کیا ہے اور اس کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.