پینتیس سالہ حمیرا خان میانوالی شہر کے ایک سرکاری سکول میں آٹھ سال سے بطور معلمہ تعینات ہیں۔ ان کے شوہر شاہ جہان خان ایک نجی بینک میں ملازمت کرتے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ شادی کے ایک سال بعد بھی جب ان کے ہاں اولاد نہ ہوئی تو میاں بیوی کے تعلقات خراب ہو گئے اور ان کے شوہر بات بے بات انہیں تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔
"ایک رات قریباً 12 بجے ہمارے درمیان جھگڑا ہوا۔ شوہر نے مجھے مارا پیٹا تو میں نے ون فائیو پر کال کر کے پولیس کو بلا لیا۔ پولیس آئی تو میرے شوہر نے دروازہ کھولا اور پولیس والوں سے کہا کہ یہ ہمارا نجی معاملہ ہے اور اگر وہ دوبارہ آئے تو اچھا نہیں ہو گا۔ یہ سن کر پولیس واپس چلی گئی اور شوہر شکایت کرنے پر مجھے دوبارہ مارنے پیٹنے لگے۔"
یہ واقعہ اس حقیقت کے باوجود پیش آیا کہ پنجاب میں گھریلو تشدد کے خلاف ایک علیحدہ قانون موجود ہے۔
رکاوٹوں والی دوڑ میں جیت کس کی؟
خواتین پر تشدد کی روک تھام کا قانون پنجاب اسمبلی نے فروری 2016ء میں پاس کیا تھا۔ اس قانون میں شوہر یا گھر کے دیگر افراد کی جانب سے خواتین کو مارپیٹ کا نشانہ بنانے اور ان کے ساتھ پرتشدد اور دھمکی آمیز رویہ اختیار کرنے کو جرم قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ جذبات کو مجروح کرنے، زبانی کلامی و جنسی استحصال کرنے اور خواتین کو نفسیاتی طور پر ہراساں کرنے کو بھی پُرتشدد طرزعمل کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ اور ان کیسز میں مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کے ساتھ ساتھ شکایت کرنے والی خواتین کی حفاظت کا خاطرخواہ بندوبست کرنے کا اہتمام بھی شامل کیا گیا۔
اس قانون پر عملدرآمد کے لیے ضلع کی سطح پر خواتین کے لئے پروٹیکشن سنٹر، شیلٹر ہوم اور پروٹیکشن کمیٹیوں کا قیام عمل آنا تھا اور وومن پروٹیکشن آفیسرز کی تعیناتی کی جانی تھی۔
قانون کی ایک شق کے مطابق اس کا اطلاق یکدم پورے صوبے میں نہیں ہونا تھا بلکہ طے یہ کیا گیا تھا کہ ہر ضلع میں ان ضروری لوزامات کی فراہمی کے بعد ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے اس قانون کا اطلاق کیا جائے گا۔
یہی شق اس قانون پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔
دسمبر 2022ء تک اس قانون کا اطلاق صرف ملتان میں ہی ممکن ہو سکا کیونکہ وومن پروٹیکشن سنٹر اب تک وہیں بن پایا تھا۔
قانون کے پورے صوبے میں اطلاق کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے 2022ء میں پنجاب اسمبلی نے اس میں ترامیم منظور کیں۔
غیرسرکاری تنظیم شرکت گاہ کے مشیر سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ترمیم میں خاص اہمیت اس شق کی ہے جس کے تحت سیکرٹری سوشل ویلفیئر و بیت المال کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی عمارت کو پروٹیکشن سینٹر قرار دے سکتا ہے۔
میانوالی میں پہلے سے قائم وومین کرائسس سینٹر کو نئے قانون کے تحت 21 دسمبر 2022ء کو وومین پروٹیکشن سینٹر ڈیکلیئر کر دیا گیا۔ یہ وومن کرائسز سینٹر 2005ء میں وفاقی حکومت کے زیرانتظام قائم کیا گیا تھا لیکن اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد 2014ء میں اسے پنجاب سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت کر دیا گیا تھا۔
میانوالی کے علاوہ 11 دیگر اضلاع میں بھی کرائسس سینٹرز کو پروٹیکشن سینٹر ڈیکلیئر کر دیا گیا ہے جن میں بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، فیصل آباد، مظفر گڑھ، خوشاب، لاہور، ملتان، راولپنڈی، ساہیوال، سیالکوٹ اور وہاڑی شامل ہیں اور ان کرائسس سینٹرز کی تمام مینیجرز کو ڈسٹرکٹ وومن پروٹیکشن آفیسر بھی نوٹیفائی کر دیا گیا ہے۔
کہ زخم ابھی بھرا نہیں
گویا اب گھریلو تشدد کے خلاف قانون پر عملدرآمد کی راہ میں کوئی تکنیکی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔
سہیل وڑائچ کا ماننا ہے کہ ان اقدامات کے ساتھ سطحی تبدیلیاں تو رونما ہونی شروع ہو گئی ہیں لیکن ابھی اس سلسلے میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
"خاطرخواہ تبدیلی تب آئے گی جب تشدد کی شکایت کرنے والی خواتین کو موثر طور سے تحفظ فراہم کیا جائے گا اور ان کے پروٹیکشن آرڈر اور ریذیڈنٹ آرڈر پر عمل درآمد شروع ہو گا۔ ابھی تو لوگوں کو اس قانون کے اطلاق کا علم ہی نہیں ہے۔"
فوزیہ وقار خواتین کے حقوق کی جدوجہد کی ایک سرکردہ رہنما ہیں۔ وہ آج کل وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسانی خواتین کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے اس قانون میں گھریلو تشدد کے جرم کے تدارک کی بھرپور استطاعت ہے۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس قانون کے تین پہلو اہم ہیں۔
"پہلا یہ کہ یہ قانون عمومی اور خصوصی طور پر خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے خاتمے کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہے۔ دوسرا یہ قانون حقیقی معنوں میں عورتوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس قانون پر اس کی حقیقی روح کے ساتھ عمل درآمد کرنے کے لیے ہر ضلعے میں فعال قیادت کی ضرورت ہے۔"
'سنٹر میں خاتون پولیس آفیسر کو تعینات کیا جانا چاہئیے'
میانوالی میں ڈسٹرکٹ وومن پروٹیکشن آفیسر کا چارج سنبھالنے والی زبیدہ شاہین کا کہنا ہے کہ عموماً خواتین گھریلو تشدد پر قانونی چارہ جوئی کرنے کی حامی نہیں ہوتیں۔ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ یہ ان کی شادی شدہ زندگی کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے پاس اگر کوئی خاتون گھریلو تشدد کا کیس لے کر آتی ہے تو ہم ان کی کونسلنگ کرتے ہیں اور اگر خواتین قانونی چارہ جوئی کرنا چاہیں تو ہم انہیں قانونی سہولت مہیا کرتے ہیں۔
"ہمارے پاس علیحدہ سے کوئی فورس نہیں ہے۔ ہمیں اپنے اختیارات کے استعمال کے لئے پولیس اور انتظامیہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ پروٹیکشن سنٹر میں کم از کم سب انسپکٹر سطح کی خاتون پولیس آفیسر کو تعینات کیا جانا چاہئیے تاکہ ہمیں خواتین کو تحفظ دینے کی کارروائی میں اپنے تحفظ کی فکر نہ ہو۔"
وومن پروٹیکشن آفیسر سمیرا صدیقی سمجھتی ہیں کہ ہمارے ہاں گھریلو تشدد کو معاشرتی سطح پر قبولیت حاصل ہے جس کی وجہ سے ایسے زیادہ تر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ انہوں نے بتایا کہ میانوالی میں جنوری تا اپریل 2023ء خواتین کی طرف سے تشدد کی 31 شکایات درج کرائی گئیں جن میں سے ایک بھی گھریلو تشدد سے بچاؤ کے لئے نہیں تھی۔
'مجھے مارپیٹ سے نجات چاہیے، طلاق نہیں'
سمیرا کہتی ہیں کہ اگر کوئی خاتون گھریلو تشدد کی شکایت لے کر پولیس سے رجوع کرتی بھی ہے تو پولیس کا ردعمل حوصلہ افزا نہیں ہوتا۔ گھریلو ناچاقی کے معاملات پر ایف آئی آر ہی درج نہیں کی جاتی اور برادری کی سطح پر صلح صفائی کے لئے زور دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'تشدد جھیلتی رہی ہوں مگر طلاق نہیں لے سکتی'
بیالیس سالہ سکینہ بی بی میانوالی شہر کے محلہ میانہ میں رہتی ہیں۔ 23 سال قبل ان کی شادی دیہاڑی دار مزدور محمد ساجد سے ہوئی جس سے ان کے تین بچے ہوئے۔ سکینہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر بلڈپریشر کے مریض بھی ہیں اور وہ انہیں معمولی باتوں پر مارتے پیٹتے ہیں اور جب تھک جاتے ہیں تو انہی سے ٹانگیں دبواتے ہیں۔
"میں روز روز کی مار کٹائی سے تنگ آ کر ایک بار عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے میں گئی اور انہیں ساری صورتحال بتائی۔ ادارے کے لوگوں ںے مجھے تسلی دی اور میری امداد کا بھی وعدہ کیا۔ جب میرے شوہر کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے مجھے اور مارا پیٹا اور خبردار کیا کہ اگر دوبارہ ادارے میں شکایت کی تو وہ انہیں طلاق دے دے گا۔ مجھے مارپیٹ سے نجات چاہیے، طلاق نہیں۔"
تاریخ اشاعت 29 مئی 2023