میانوالی کے علاقے داؤد خیل کی رہائشی ممتاز بی بی کو ایک سال پہلے طلاق ہوئی تھی۔ ان کے والدین نے عقل مندی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان کے نکاح نامے میں یہ شرط رکھوائی کہ طلاق کی صورت میں خاوند مبلغ 10 ہزار روپے ماہانہ خرچ دینے کا پابند ہو گا۔ تاہم طلاق دینے کے بعد ان کےشوہر حسنین خان نے خرچ ادا کرنے سے انکار کر دیا ۔
ممتاز بی بی نے اپنے سابقہ شوہر کے خلاف سول کورٹ میں مقدمہ درج کروایا لیکن آج تک انہیں جیب خرچ کی بجائے ہر پیشی پر اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے۔
ایڈووکیٹ وجاہت ہاشمی عائلی قوانین کے ماہر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سابقہ شوہر نکاح نامے میں درج زدہ رقم ادا نہ کرے تو فیملی کورٹس سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
"نکاح نامہ میں درج شدہ رقم ہر صورت میں ادا کرنا لازم ہے۔ اگر کوئی شخص عدالتی حکم کے بعد بھی رقم ادا نہ کرے تو اس کی غیر منقولہ جائیداد کو محکمہ ریوینیو کے ذریعے بحق سرکار ضبط کیا جا سکتا ہے۔ یا اگر منقولہ جائیداد (گاڑی، موٹر سائیکل وغیرہ) ہو تو اسے پولیس کے ذریعے بحق سرکار ضبط کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد اس جائیداد کی فروخت کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔ تا ہم اگر فیملی کورٹ جج چاہے تو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید کی سزا بھی دے سکتا ہے، لیکن یہ سادہ قید ہو گی، قید بامشقت نہیں"۔
مرد کے لیے سادہ مگر عورت کے لیے قید بامشقت
شازیہ نسرین کا تعلق میانوالی کے علاقے قمر مشانی سے ہے ، شازیہ کی عمر 37 سال ہے، دس برس پہلے ان کی شادی محمد اکرم سے ہو ئی تھی ۔ ان کے دو بچے ہیں لیکن تین سال پہلے ان کے شوہر نے طلاق دے دی۔ شازیہ کے پاس والدین کے گھر لوٹنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
جب ان کا نکاح ہو ا تھا تب نکاح نامے میں ایسی کوئی شق موجو د نہیں تھی جس میں طلاق کی صورت میں ان کی معاشی کفالت کی ذمہ داری سابقہ شوہر پر ڈالی جاتی۔
یوں طلاق کے بعد وہ اپنے دو بچوں سمیت، خالی ہاتھ، والدین اور بھائیوں پر ایک معاشی بوجھ بن گئی ہیں۔
شازیہ کہتی ہیں ، "میرے شوہر نے دوسری شادی کے چکر میں، مجھے دھتکار کر ایک لمحے میں دربدر کر دیا۔ اب جب تک میرے والدین زندہ ہیں تب تک تو آسرا ہے اس کے بعد میں نہیں جانتی میرا کیا ہو گا۔"
پرنسپل گورنمنٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین میانوالی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ہمارے ہاں عموماَ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں عورتیں شاذو نادر ہی ملازمت یا کاروبار کرتی ہیں یوں وہ معاشی طور پر اپنے شوہر پر انحصار کرتی ہیں۔ طلاق کی صورت میں ان کے پاس والدین کے گھر لوٹنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہوتی۔ وہاں بھی بھائی اور بھابھیاں انہیں ایک اضافی بوجھ سمجھتے ہیں۔
میانوالی میں ڈسٹرکٹ وومن پروٹیکشن آفیسر زبیدہ شاہین نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، پاکستان میں خواتین کو طلاق کے بعد معاشی مدد فراہم کرنے کے حوالے سے قوانین موجود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین شوہر کے ظلم و ستم سہتے سہتے جان دے دیتی ہیں لیکن طلاق لینے سے کتراتی ہیں۔
" کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ طلاق کے بعد ان کے پاس کوئی معاشی سہارا نہیں بچے گا اور ماں باپ کے گھر واپسی کی صورت میں ان کی حیثیت ایک اضافی بوجھ کی سی ہو گی"۔
میانوالی کے عالم دین ڈاکٹر ظفر اقبال نے اس حوالے سے لوک سجاگ کو بتایا کہ، اسلام میں متعتہ الطلاق کا تصور موجود ہے جس کا مطلب خواتین کو طلاق کے بعد معاشی مدد فراہم کرنا ہے۔
کچھ اسلامی ممالک جیسے ترکی اور ایران میں کافی تفصیل کے ساتھ متعۃ الطلاق سے متعلق قانون سازی کی گئی ہے۔ اسی طرح تیونس اور ملائشیا کے اسلامی قوانین خاتون کو طلاق کے بعد جائیداد کی ملکیت کا حقدار قرار دیتے ہیں لیکن پاکستان کے قوانین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے جس میں طلاق کے بعد خاتون کو مہر کے علاوہ معاشی فائدہ یا حصہ دیا جا سکے۔
میانوالی ڈسٹرکٹ بار کے ایڈووکیٹ نثار عباس جوڑا نے لوک سجاگ کو بتایا کہ بیشتر طلاق یافتہ خواتین معاشی طور پر بے سہارا ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے قانون موجود نہیں کیونکہ بد قسمتی سے لوگ سمجھتےہیں کہ طلاق کے بعد شوہر نامحرم بن جائے گا تو ایک نامحرم سے معاشی مدد یا فوائد لینا درست نہیں۔
مطلعلقہ کے مالی تحفظ کا کوئی قانون نہیں
لا ءاینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نے 2008ء میں اس حوالے سےقانون سازی کا ڈرافٹ تیار بھی کیا تھا جسے اسلامی نظریاتی کونسل کی بھی حمایت حاصل تھی لیکن پارلیمنٹ نے اب تک اس پر کوئی قانون سازی نہیں کی۔
سابق چیئر پرسن پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وومن فوزیہ وقار کے مطابق اس مسودہ کا تعلق "متعتہ الطلاق" سے ہے۔ مسودے میں ملائشیا کے قوانین کی طرز پر طلاق کے بعد سابقہ بیوی کو مالی معاونت ادا کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔لیکن اس مسودہ پر قانون سازی تا حال نہیں ہو سکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'تشدد جھیلتی رہی ہوں مگر طلاق نہیں لے سکتی'
پاکستان میں پہلے سے موجود عائلی قوانین، طلاق کے بعد عورت کو معاشی تحفظ نہیں دیتے۔ جیسا کہ پاکستان میں مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961ء، فیملی کورٹ ایکٹ 1964ء اور ڈس لیوژن آف مسلم میرج ایکٹ 1939ء شادی اور طلاق کے معاملات کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
ان قوانین کے تحت طلاق کے بعد عدت کے مہینوں یا حاملہ ہونے کی صورت میں بچے کی پیدائش تک تو شوہر عورت کی مالی مدد فراہم کرنے کا پابند ہے لیکن اس کے بعد عورت کو کسی قسم کا معاشی تحفظ نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ ان قوانین میں شادی میں رہتے ہوئے بنائی گئی جائیداد کی تقسیم کا بھی ذکر موجود نہیں ہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، سمیرا علوی کا کہنا ہے کہ جینڈر ڈسپیرٹی انڈیکس کے حساب سے پاکستان کا 146 ممالک میں سے 145واں نمبر ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر انتہائی ضروری ہے کہ مسلم فیملی لاز کے طلاق سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی جائے اور ملائشیا اور تیونس کی طرز پر پاکستان میں بھی قانون سازی کی جائے، جس سے طلاق یافتہ خواتین کو معاشی تحفظ فراہم ہو سکے۔
تاریخ اشاعت 29 جنوری 2024