اپر اور لوئر دیر میں ہائی وولٹیج مقابلے"جو امیدوار خواتین کو پولنگ تک لائے گا وہی جیت جائے گا"

postImg

سید زاہد جان

postImg

اپر اور لوئر دیر میں ہائی وولٹیج مقابلے"جو امیدوار خواتین کو پولنگ تک لائے گا وہی جیت جائے گا"

سید زاہد جان

خیبر پختونخوا کا شمال مغربی علاقہ دیر لگ بھگ نصف صدی دو  حریف جماعتوں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا گڑھ رہا جہاں کبھی جماعت تو کبھی پیپلز پارٹی جیت جاتی تھی۔ لیکن 2018ء میں تحریک انصاف نے یہ روایت توڑ ڈالی اور دیر کے دونوں اضلاع کی تینوں قومی نشستیں بھاری اکثریت سی جیت لی تھیں۔

دیر انگریز دور میں خود مختار ریاست ہوا کرتی ہے جسے پاکستان سے الحاق کے بعد 1948ء میں تحلیل کر کے ضلع بنا دیا گیا تھا۔ اس ضلعے کو 1996ء میں دو اضلاع اپر اور لوئر دیر میں تقسیم کیا گیا جہاں ایک جیسی سماجی روایا ت کے حامل لوگ آباد ہیں۔

اپر اور لوئر دیر میں کاٹنی، سلطان خیل، پائندہ خیل، اخون خیل، وردگ، مشوانی، سادات، میاں گان، تاجک اور روغانی اکثریتی قبیلے شمار کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں برادری یا قبیلے کی بنیاد پر الیکشن کم ہی لڑا یا جیتا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی سے دہائیوں سے وابستہ سیاسی کارکن محمد رشید بتاتے ہیں کہ دیر میں مذہبی جماعتیں اگرچہ اسلام کے نام پر ووٹ لے لیتی ہیں تاہم امیدوار کو زیادہ تر ووٹ شخصیت، پارٹی اور منشور کی بنیاد پر ملتے ہیں۔

این اے 5 ضلع اپر دیر سے پچھلی بار پی ٹی آئی کے صاحبزادہ صبغت اللہ جیتے تھے۔ اس بار یہاں سے سینئر سیاستدان نجم الدین خان پیپلز پارٹی، صاحبزادہ طارق اللہ جماعت اسلامی اور صاحبزادہ صبغت اللہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ نمایاں امیدوار ہیں۔

نجم الدین خان دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور 80ء کی دہائی میں ضیاء حکومت کی شدید مخالفت کے باوجود دیر کے پہلے چیئرمین ضلع کونسل منتخب ہوئے تھے۔ وہ اب گردے کی ٹرانسپلانٹیشن کی وجہ سے زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کر پا رہے لیکن یہ کمی ان کے بیٹے اور پی پی کارکن پوری کر رہے ہیں۔

جماعت اسلامی سے ان کے مدمقابل طارق اللہ دو مرتبہ ضلع ناظم اور ایک بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور جماعت اسلامی کے حلقوں میں کافی مقبول ہیں۔

اس نشست پر تیسرے امیدوار سابق ایم این اے صاحبزادہ صبغت اللہ ہیں جو طارق اللہ کے کزن بھی ہیں مشکل وقت میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ جبکہ دو مرتبہ جیل بھی جا چکے ہیں۔

تاہم انہیں ان کی پارٹی کے اندر سے مخالفت اور مختلف الزامات کا سامنا ہے۔گزشتہ دنوں صوبائی حلقوں میں پی ٹی آئی کے کئی سابق امیدواروں اور کارکنوں نے ایک اجلاس میں ان سے مکمل لا تعلقی کا اعلان کیا ہے اور ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔

 پی پی کارکن محمد رشید بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی  1970ء سے دیر میں جیتتی آئی تھی لیکن  1990ء میں یہاں پیپلز پارٹی اور 93ء میں ن لیگ کامیاب ہو گئی تھی۔ 1996ء میں ضلع دیر، لوئر اور اپر میں تقسیم ہوا تو جماعت اسلامی کی مشکلات مزید بڑھ گئی تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں میں نظریات اور نظریاتی کارکن ختم ہو چکے ہیں۔ اب جماعت اسلامی کا بھی یہی حال ہے لوگ ان کے طرز سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔

2018ء میں اپر  دیر کی تین صوبائی نشستوں میں سے جماعت صرف ایک صوبائی نشست جیت سکی تھی۔ اپر کی قومی نشست پر زور دار مقابلہ متوقع ہے۔

اس بار ضلع لوئر دیر میں قومی اسمبلی کے دونوں حلقے انتہائی اہم ہیں جہاں سے جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق اور  اے این پی کے سابق سینیٹر زاہد خان الیکشن لڑ رہے ہیں۔

 این اے 6 لوئر دیر ون سے سراج الحق گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے محمد بشیر خان سے ہار گئے تھے۔ اب یہاں جماعت اسلامی سے سراج الحق، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سابق ایم این اے بشیر خان، اے این پی کے سابق ایم پی اے بہادر خان اور پی پی پی کے حنیف خان امیدوار ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین اور سیاسی کارکن اکبر خان بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے سراج الحق کی پوزیشن مضبوط لگ رہی ہے۔ وہ قومی سطح کے لیڈر ہیں لیکن انہوں نے علاقے میں ترقیاتی کاموں کے لیے کچھ نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے اپنے لوگ بھی نالاں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مخالف امیدواروں نے ایک بار پھر سراج الحق کو ہرانے کی ٹھان لی ہے جن سے اے این پی کے بہادر خان کی پرانی سیاسی مخاصمت ہے۔ انہوں نے پچھلی بار بھی بشیر خان کے ساتھ اتحاد کرکے سراج الحق کو شکست سے دوچار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بشیر خان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن علی مشوانی نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں جو آزاد حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں اور بشیرخان کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔

این اے 7 لوئر دیر میں جماعت اسلامی نے اس بار  مولانا محمد اسماعیل روغانی کو میدان میں اتارا ہے۔ ان کے مقابلے میں اے این پی نے ہیوی ویٹ سابق سینیٹر اور پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان، پی پی پی نے نوجوان اور سرگرم کارکن عالم زیب خان جبکہ پی ٹی آئی نے سابق ایم این اے محبوب شاہ کو نامزد کیا ہے۔

یہ نسبتاً شہری علاقوں اور پڑھے لکھے لوگوں کا حلقہ سمجھا جاتا ہے۔ مولانا محمد اسماعیل پہلی بار انتخابی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں جو برسوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور خیبر پختونخوا بھر میں تفہیم القرآن کی کلاسز پڑھا رہے ہیں۔

 اے این پی کے زاہد خان لوئر دیر میں قدرتی گیس، پلوں کی تعمیر اور تیمرگرہ ٹیچنگ ہسپتال میں باچا خان بلاک یا اوپی ڈی جیسے کارناموں کے باعث مقبول ہیں اور کافی عرصے سے سیاست میں صوبائی و ملکی سطح پر سرگرم  حصہ لے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

" یہاں لوگ مردوں کو ووٹ نہیں دیتے، خواتین امیدواروں کو کیسے ووٹ دیں گے؟"

پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے محبوب شاہ تعلیم و سیاسی سمجھ بوجھ کی کمی کے باوجود عمران خان اور پارٹی کی وجہ سے 2018ء میں جیت چکے ہیں۔ تاہم ان کی پارٹی کے ملک محمد انعام پرانے کارکنوں کو ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں جس سے ان کا ووٹ تقسیم ہو سکتا ہے۔

 سینئر صحافی حلیم بتاتے ہیں کہ 2018ء میں پی ٹی آئی لوئر دیر میں پھوٹ نہیں تھی لیکن اب اختلافات اور گروپ بندی بہت زیادہ ہے۔ جبکہ مولانا محمد اسماعیل کے لیے جماعت اسلامی کے کارکن بہت منظم انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

و ہ کہتے ہیں کہ زاہد خان کو ان کی خدمات پر پارٹی  کے علاوہ جماعت اسلامی، پی پی پی، ن لیگ اور دیگر جماعتوں کے سپورٹرز کے ووٹ بھی پڑ سکتے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے عالم زیب خان علاقے کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اس حلقے میں پیپلز پارٹی کا خاصا ووٹ بینک ہے۔ لیکن انہیں ٹکٹ ملنے پر پارٹی کے رہنما ملک عظمت خان ناراض تھے جنہیں سنا ہے قیادت نے منا لیا ہے۔

لوئر دیر کے دونوں قومی حلقوں پر جماعت اسلامی، پی پی پی، اے این پی اور پی ٹی آئی میں زبردست مقابلہ ہوگا۔ لیکن یہاں یہ بھی خیال پایا جاتا ہے کہ جو امیدوار خواتین ووٹرز کو پولنگ سٹیشنوں تک لانے میں کامیاب ہو گا وہی جیت جائے گا۔

تاریخ اشاعت 3 فروری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سید زاہد جان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور وہ گزشتہ باٸیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ننکانہ صاحب: کسانوں نے گندم کی کٹائی روک دی

thumb
سٹوری

کیا واقعی سولر پینل کی مارکیٹ کریش کر گئی ہے یا کچھ اور؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

" پنجاب میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو گا"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceبلال حبیب
thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.