نارووال کی ضلعی انتظامیہ میں بطور ریڈر ملازمت کرنے والے دورانی خان پیٹ میں بار بار درد کی شکایت لے کر شہر کے ایک نجی کلینک گئے۔ معائنے کے بعد ڈاکٹر نے انہیں لیبارٹری سے ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس سی سمیت دیگر ٹیسٹ کروانے کو کہا۔
باون سالہ دورانی خان نے ایک نجی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائے جس کی رپورٹ سے پتا چلا کہ انہیں ہیپاٹائٹس بی لاحق ہے۔ ڈاکٹر نے اس رپورٹ کی روشنی میں ہیپاٹائٹس بی کا علاج شروع کر دیا۔
تین ماہ تک افاقہ نہ ہونے پر وہ بہتر علاج کے لیے لاہور چلے آئے۔ ایک بڑے نجی ہسپتال کے پروفیسر نے ان کے دوبارہ ٹیسٹ کروائے جس سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ انہیں ہیپاٹائٹس بی ہے ہی نہیں۔
اس طرح لیبارٹری کی غلط رپورٹ دورانی خان کے لیے ناصرف سخت ذہنی کوفت کا باعث بنی بلکہ اُس بیماری کے علاج پر ان کے لاکھوں روپے بھی خرچ ہو گئے جو انہیں لاحق ہی نہیں ہوئی تھی۔
ضلع نارووال تین تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ تحصیل نارووال میں 23، تحصیل شکرگڑھ میں 19 اور تحصیل ظفروال میں 16 نجی لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں۔ ان میں کسی بھی لیبارٹری کے پاس پیتھالوجسٹ نہیں ہے۔
میڈیکل لیبارٹری قائم کرنے اور اسے چلانے کے لیے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے ایس او پیز پر عمل درآمد ضروری ہے۔
ان ایس او پیز میں سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ لیبارٹری میں پیتھالوجسٹ کا ہونا ضروری ہے۔ لیبارٹری کو تربیت یافتہ عملے کی موجودگی اور بنیادی سہولیات سمیت مختلف پیمانوں کو مدنظر رکھ کر رجسٹرڈ کیا جاتا ہے جبکہ رجسٹریشن نہ کرانے والی لیبارٹریوں کی حیثیت غیر قانونی ہوتی ہے۔
ضلع نارووال میں 58 نجی لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں
پاکستان نیشنل ایکریڈیشن کونسل (پی این ای) لیبارٹریوں کے معیارات کو دیکھتے ہوئے ان کی منظوری دیتی ہے۔
کونسل کے کے مطابق ضلع نارووال میں ایک لیبارٹری بھی منظور شدہ نہیں ہے۔ تاہم ضلع بھر کی لیبارٹریاں روزانہ سیکڑوں مریضوں کو پیتھالوجسٹ کے بغیر میڈیکل رپورٹیں جاری کر رہی ہیں۔
اڑتالیس سالہ مجیداں بی بی نارووال کے قصبہ تلونڈی بھنڈراں کی رہائشی ہیں۔ انہیں جسم پر بار بار خارش ہوتی رہتی ہے اور وہ اپنے ہاتھ بازو کھجلاتے ہوئے ڈاکٹروں کو برا بھلا کہتی رہتی ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال نارووال میں علاج کے لیے آئی مجیداں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ 45 برس کی عمر میں ماہواری کی خرابی کے باعث ان کا بہت زیادہ خون بہنے لگا۔
"میرا خاوند تشویش ناک حالت میں مجھے ڈی ایچ کیو ہسپتال لے آیا جہاں مجھے خون کی تین بوتلیں لگوانے کے لیے کہا گیا۔ جب ہم خون عطیہ کرنے والے شخص کے ساتھ دوبارہ ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹروں نے مجھے نجی ہسپتال جانے کو کہہ دیا"۔
مجیداں نے بتایا کہ نجی ہسپتال میں سٹاف نرس نے ان کے خون کا نمونہ لے عطیہ دینے والے کے خون سے کراس میچنگ کے لیے لیبارٹری بھیجا اور وہاں سے رپورٹ آنے کے بعد انہیں خون کی بوتل لگا دی۔
"کچھ دیر بعد مجھے شدید کھجلی ہونے لگی۔ جب میری حالت تشویش ناک ہو گئی تو نجی ہسپتال والوں نے مجھے دوبارہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال بھجوا دیا جہاں ایمرجنسی وارڈ میں معائنے کے بعد مجھے بتایا گیا کہ خون کے کراس میچ کی رپورٹ غلط تھی جس کی وجہ سے مجھے غلط گروپ کا خون لگا دیا گیا تھا"۔
پاکستان نیشنل ایکریڈیشن کونسل کے مطابق ضلع نارووال میں ایک لیبارٹری بھی منظور شدہ نہیں ہے
مجیداں بی بی کاکہنا ہے کہ اس واقعے کو تین سال گزر گئے ہیں مگر ان کی جلد پر کھجلی ختم نہیں ہوئی اور وہ اکثر بیمار رہتی ہیں۔
مقامی لیڈی ڈاکٹر آمنہ علیم تصدیق کرتی ہیں کہ لیبارٹری رپورٹ کی تیاری میں غیر ذمہ داری کا مظاہر کرنے کی وجہ سے مجیداں بی بی تین سال سے اذیت میں مبتلا ہے۔
نارووال شہر کے صحافی شاہد اقبال چار ماہ قبل پیٹ میں شدید درد کے باعث ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پہنچے جہاں لیبارٹری اور الٹراساؤنڈ رپورٹس سے معلوم ہوا کہ ان کے پِتے میں سوزش اور پتھریاں ہیں۔ چنانچہ فوری طور پر ان کا آپریشن کیا گیا۔
شاہد اقبال کے بھائی ظفر اقبال نے لوک سجاگ کو بتایا کہ آپریشن کے دوران کوتاہی کے سبب جسم میں انفیکشن پھیل گیا تو انہیں خون کی بوتل لگا کر لاہور ریفر کر دیا گیا۔
ظفر اقبال الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کی نظروں کے سامنے لیبارٹری اسسٹنٹ نے بلڈ گروپ اور کراس چیک کیے بغیر خون کی بوتل تھما دی تھی جو ڈاکٹر نے میرے بھائی کو لگا دی جس کی موت واقع ہو گئی۔
ظفر اقبال کے مطابق لیبارٹری میں تجربہ کار اور تربیت یافتہ سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بھائی بے موت مارا گیا۔
ضلع کی کسی بھی سرکاری اور نجی لیبارٹری کے پاس پیتھالوجسٹ نہیں ہے
لوک سجاگ کو ملنے والے معلومات کے مطابق ڈپٹی کمشنر کے حکم پر اس معاملے کی تفصیلی انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔
پیتھالوجسٹ کی اسامی 31 سال سے خالی
ضلع نارووال میں سرکاری سطح پر 57 بنیادی مراکز صحت، سات دیہی مراکز صحت، دو ڈسپنسریاں، دو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال موجود ہیں جہاں روزانہ ہزاروں مریض آتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال نارووال میں روزانہ دو سے تین ہزار مریضوں کے لیبارٹری ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں مگر یہاں پیتھالوجسٹ کی سیٹ گزشتہ 31 برس سے خالی ہے۔
ضلع بھر کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریوں میں پیتھالوجسٹ کی عدم دستیابی پر لیبارٹری ٹیکنیشن اور لیب اسسٹنٹ ہی رپورٹیں تیار کر رہے ہیں جبکہ پیتھالوجسٹ کے بغیر رپورٹس کا اجرا پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے قوانین و ضوابط کے خلاف ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر خالد جاوید کے مطابق چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ، ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ، ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر لیبارٹریوں کو پیتھالوجسٹ کی عدم دستیابی اور صرف اتائیت کی بنیاد پر کام کرنے پر جرمانہ کرنے یا انہیں سیل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
نارووال ڈسٹرکٹ ہسپتال میں قائم پنجاب کا پہلا ٹرانس جینڈر وارڈ کیوں بند پڑا ہے؟
حال ہی میں نارووال کی ضلعی انتظامیہ نے غیر معیاری اور جعلی رپورٹوں کی شکایات پر ضلع بھر میں ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والی سات لیبارٹریوں کو سیل کر دیا تھا۔
ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ ڈاکٹر زاہد رندھاوا نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے پیتھالوجسٹ کی عدم دستیابی پر سرکاری ہسپتالوں میں ٹیکنالوجسٹ تعینات کر دیے ہیں جو صرف سرکاری ہسپتالوں کی لیبارٹریوں میں ہی رپورٹس جاری کر سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجیسٹ کو پرائیوٹ لیبارٹریوں میں کام کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال نارووال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد فیصل اسحاق نے تصدیق کی کہ ہسپتال میں پیتھالوجسٹ کی سیٹ خالی ہے۔ ان کے مطابق "ہم نے متعدد بار پیتھالوجسٹ کے لیے اخبارات میں اشتہار دیا ہے مگر کوئی نارووال آنے کو تیار نہیں۔"
ڈپٹی کمشنر نارووال محمد اشرف نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پنجاب میں پیتھالوجسٹ بہت کم تعداد میں دستیاب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں پیتھالوجسٹ کی پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔
تاریخ اشاعت 27 اپریل 2023