اندرون شہر ملتان کی امبر کو زچگی کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لایا گیا تو وہاں رش کے باعث انہیں ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے بھی کافی دیر تک مرکزی دروازے پر انتظار کرنا پڑا۔ بصد مشکل جب انہیں گائنی وارڈ لایا گیا تو ان کے آپریشن میں بھی مقررہ وقت سے آٹھ گھنٹے زیادہ تاخیر ہوئی جس کے نتیجے میں ان کا بچہ جانبر نہ ہو سکا۔
امبر کا آپریشن ڈی ایچ کیو کے اس حصے میں ہوا جو کبھی فاطمہ جناح ویمن ہسپتال کہلاتا تھا۔ 2007ء میں اس کا قیام عمل میں لایا گیا اور یہاں حاملہ و زچہ عورتوں کے لیے لیبر روم اور آپریشن تھیٹر کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ 2017ء میں اس کے قریب گورنمنٹ شہباز شریف ہسپتال تعمیر ہوا جسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا درجہ دے دیا گیا اور فاطمہ جناح ویمن ہسپتال ملتان کو اس کا سب کیمپس قرار دے دیا گیا جس کے بعد اس میں سہولیات بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
اس ہسپتال میں ضلع بھر سے عورتوں کی بڑی تعداد علاج کے لیے آتی ہے البتہ زچگی کے لیے صرف ایک آپریشن تھیٹر اور پانچ بستروں پر مشتمل ایک لیبر روم ہے۔ داخل ہونے والے مریضوں کے لیے 40 بستروں کی سہولت ہے۔ ایک ڈاکٹر آؤٹ ڈور وارڈ، ایک آپریشن تھیٹر اور ایک لیبر روم میں صبح کے وقت فرائض انجام دیتی ہیں۔ شام اور رات کے اوقات میں یہاں ایک ایک گائناکالوجسٹ ہوتی ہیں۔
دولت گیٹ کی رہنے والی مسز فراز اس ہسپتال میں اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ڈی ایچ کیو ہسپتال کے سب کیمپس گئیں تو وہ سات ماہ کی حاملہ تھیں۔ وہاں عورتوں کی بڑی تعداد آﺅٹ ڈور کے باہر انتظار کر رہی تھی۔
"کئی گھنٹے بعد بھی میں صرف ابتدائی چیک اپ ہی کرا سکی۔ الٹرا ساﺅنڈ کے لیے اگلے روز پھر ہسپتال آ کر اسی انتظار اور اذیت سے گزرنا پڑا۔"
وہ بتاتی ہیں کہ زچگی کے لیےان کے شوہر انہیں رات 12 بچے اسی ہسپتال میں لائے۔ تاہم عملے نے ان کی حالت دیکھتے ہی ہسپتال میں داخل کرنے سے انکار کر دیا اور کسی طبی معائنے کے بغیر ہی نشتر ہسپتال جانے کو کہ دیا۔
ان کے شوہر کا کہنا ہے کہ اگر وہ کسی بحث میں پڑتے تو اپنی اہلیہ کی زندگی کو خطرے میں ڈالتے۔ لہٰذا وہ خاموشی سے فوری طور پر نشتر ہسپتال چلے گئے اور وہاں بھی لیبر روم میں بہت رش تھا۔ بستروں کی حالت اور صفائی کے انتظامات بھی انتہائی ناقص تھے۔ مجبوراً انہیں اپنی اہلیہ کو الشفا ہسپتال لے جانا پڑا جہاں آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش ہوئی۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے حالات کی بابت سوال پر وہاں تعینات گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر ارم کا کہنا ہے کہ ایک ڈاکٹر کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران سیکڑوں مریضوں کا معائنہ کر سکے۔ ڈاکٹروں کی کمی کے باعث مریضوں کو طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹروں کی تعداد ہی نہیں بلکہ جگہ کی کمی بھی اس ہسپتال کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ہسپتال میں روزانہ تقریباً 20 خواتین کی زچگی ہوتی ہے جن میں سے 16 آپریشن اور چار سے پانچ نارمل کیس ہوتے ہیں۔
ایم ایس کے مطابق ان کے پاس انتہائی نگہداشت کے یونٹ موجود نہیں اس لیے مجبوراً انہیں پیچیدہ کیس نشتر ہسپتال بھیجنا پڑتے ہیں۔
"یہاں صرف چھ گائناکالوجسٹ ہیں جو تین مختلف اوقات میں مریضوں کے علاج اور آپریشن کے لیے ڈیوٹی پر موجود رہتی ہیں۔ آﺅٹ ڈور میں آنے والی خواتین کی تعداد روزانہ 345 سے زیادہ ہوتی ہے۔ مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے گائنی کی ڈاکٹر بہت کم ہیں۔"
ڈاکٹر صائمہ ارم کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی ساتھی ڈاکٹر محدود عملے کے باوجود ہسپتال میں آنے والی خواتین کو مکمل طبی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ہسپتال سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس کے سب کیمپس میں 2022ء میں چار ہزار 500 عورتوں کی زچگی ہوئی۔ رواں سال ستمبر میں 537 زچگیاں ہوئیں۔ ان میں سے 183 نارمل کیس تھے جبکہ 317 بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہوئے۔
چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ہیلتھ ڈاکٹر فیصل قیصرانی نے بتایا کہ حکومت پنجاب کی ہدایت پر مریض عورتوں کو طبی سہولیات دی جا رہی ہیں اور اس حوالے سے بنیادی مراکز صحت اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 50 لاکھ سے زیادہ آبادی والے ضلع ملتان میں ماں اور بچے کی صحت کے پروگرام کے لیے ان کے پاس صرف 1800 لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں۔ ان کی کمی کے باعث آئی آر ایم این سی ایچ پروگرام کےتمام اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع قلعہ عبداللہ: 'میری اہلیہ کو لیڈی ڈاکٹر میسر آتی تو اس کی جان بچ سکتی تھی'
خیال رہے کہ نیشنل میٹرنل اینڈ نیوبارن چائلڈ ہیلتھ (آئی آر ایم این سی ایچ) ماں اور بچے کی صحت کی بہتری کے لیے یونیسف کے تعاون سے شروع کیا گیا ایک پروگرام ہے۔
ضلع ملتان میں عورتوں کے لیے دیگر سرکاری ہسپتالوں میں بھی مکمل سہولیات موجود نہیں۔ ضلع میں 82 ہیلتھ سنٹر ہیں اور ہر ایک میں صرف ایک لیڈی ہیلتھ ورکر اور ایک مڈوائف تعینات ہیں۔ ضلع بھر میں صرف آٹھ رولر ہیلتھ سنٹر، تین ٹاؤن سپتال اور دو ٹی ایچ کیو ہسپتال ہیں جہاں حاملہ و زچہ عورتوں کے لیے مناسب سہولتوں کا فقدان ہے۔
ڈپٹی کمشنر ملتان کیپٹن (ر) رضوان قدیر سے ماں اور بچے کی صحت کو یقینی بنانے کے حوالے سے اقدامات پر سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ نشتر 2 اور مدر اینڈ چائلڈ ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے مکمل فعال ہونے کے بعد ان مسائل میں کمی آ جائے گی۔
تاریخ اشاعت 17 اکتوبر 2023