ٹانک کے رہائشی سید سفیر حسین شاہ کو بیٹی کے علاج کے لیے مقامی ڈاکٹر نے ملتان لے جانے کا مشورہ دیا۔ وہ اگلے ہی روز اپنی اہلیہ، برادر نسبتی اور 12 سالہ بیمار بیٹی دعا زہرا کے ہمراہ ملتان روانہ ہوئے۔ راستے میں سرائے مہاجر چوک پر بچی کی طبیعت زیادہ خراب ہونے لگی۔ وہاں ایک ڈاکٹر نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اسے فوری طور پر بھکر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لے جائیں جو وہاں سے قدرے نزدیک تھا۔
سفیر اپنے ایک ویڈیو بیان میں بتاتے ہیں کہ جب وہ بچی کو بھکر کے ہسپتال لے گئے تو عملے نے اسے ایمرجنسی وارڈ میں بھیج دیا۔ وہاں کچھ دیر انتظار کرنے کے باجود جب کوئی ڈاکٹر اسے دیکھنے نہ آیا تو وہ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر احسن کے پاس چلے گئے جو موبائل فون پر مصروف تھا۔
سفیر کے بقول انہوں ںے ڈاکٹر سے کہا کہ ان کی بچی کی حالت خراب ہے لہٰذا اسے فوری چیک کیا جائے مگر ڈاکٹر نے اس پر کوئی توجہ نہ دی جس پر طیش میں آ کر انہوں نے ڈاکٹر کا گریبان پکڑ لیا۔ اس دوران شور سن کر ہسپتال کا عملہ بھی وہاں آ پہنچا جس نے انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ اس دوران بچی پر کسی نہ توجہ نہ دی جس کی حالت بگڑتی چلی گئی۔
سفیر کہتے ہیں کہ طبی امداد نہ ملنے کے باعث ان کی بیٹی نے کچھ دیر بعد دم توڑ دیا۔ اس دوران ڈاکٹر احسن درجن بھر افراد کے ساتھ ایمرجنسی وارڈ میں آئے اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔
"یہ لوگ مجھے مار رہے تھے اور میری بیوی رو رو کر انہیں ان کی منت سماجت کر رہی تھی کہ مت ماریں ہماری بیٹی فوت ہو گئی ہے کچھ تو خیال کریں۔"
مقامی وکیل مداح حسین ایڈووکیٹ اس واقعے کے وقت ڈی ایچ کیو میں موجود تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی ہال پہنچنے پر انہوں نے دیکھا کہ سفیر حسین اور ان کے برادر نسبتی ڈاکٹروں اور عملے کی منتیں کر رہے تھے کہ ان کی بیٹی کی لاش حوالے کر دیں اور انہیں جانے دیں مگر وہ نہیں مان رہے تھے۔
اتنی دیر میں ڈی ایس پی کی قیادت میں پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی جنہوں نے سفیر حسین کو حراست میں لے لیا۔ مداح حسین کہتے ہیں کہ انہوں نے ان لوگوں کی پولیس اور ڈاکٹروں سے جان خلاصی کروانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔
بچی کی ہلاکت کا واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے مختصر وقت میں مشہور ہو گیا جس پر شہر بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور مقامی لوگوں ںے ہسپتال اور ڈاکٹروں کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔
اس واقعے سے اگلے روز سفیر کے برادر نسبتی ملازم حسین نے اس نمائندے کو بتایا کہ "ہم تو ہسپتال والوں سے اپنی بچی کے لیے چند سانسوں کی بھیک مانگتے رہے تھےکہ اس کو آکسیجن لگائیں مگر انہوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور شکایت کرنے پر مریضہ کو چیک کرنے کے بجائے میرے بہنوئی پر تشدد کرتے رہے۔ میں نے بیچ بچاؤ کروانے کی کوشش کی تو مجھ پر بھی تشدد کیا اور تین گھنٹے تک میری بھانجی کی لاش پر قبضہ کیے رکھا۔"
ان کا کہنا تھا کہ سفیر نے ڈاکٹر کا گریبان پکڑ کر غلطی کی تھی لیکن ڈاکٹر نے پولیس پر دباؤ ڈالا کہ ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔
"میں نے ڈی ایس پی اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر عامر اقبال ڈھانڈلہ کی منت سماجت کی کہ بچی کا جنازہ پڑھانا اور تدفین کرنی ہے۔ باپ کے بغیر یہ سب کیسے ہو گا تو انہوں نے بطور ضمانت ہماری گاڑی قبضے میں لے لی اور کہا کہ تدفین کے فوراً بعد سفیر حسین واپس آ کر خود کو ہمارے حوالے کرے گا، اس کے بعد گاڑی واپس ملے گی۔"
ملازم حسین کے بقول جب ہسپتال کے عملے کے چند افراد نے ڈی ایس پی کو حقائق بتائے تو تبھی پولیس افسروں نے نرمی اختیار کی۔
ڈی ایچ کیو میں کلاس فور کے ایک ملازم اور واقعے کے عینی شاہد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب یہ لوگ اپنی مریضہ کو لے کر ڈی ایچ کیو آئے تو بچی کی سانسیں اکھڑی ہوئی تھیں۔ انہوں نے سٹریچر ڈاکٹر کے کمرے کے سامنے رکھا۔ سفیر ایمرجنسی میں بیٹھے ڈاکٹر احسن کے کمرے میں داخل ہوئے اور ان سے کہا کہ مریضہ کی حالت بہت خراب ہے آپ اسے دیکھ لیں۔ مگر ڈاکٹر نے اپنی سیٹ سے نہ اٹھے جس پر سفیر شاہ نے تعیش میں آکر ڈاکٹر کے گریبان سے پکڑ لیا۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع قلعہ عبداللہ: 'میری اہلیہ کو لیڈی ڈاکٹر میسر آتی تو اس کی جان بچ سکتی تھی'
ملازم کے مطابق سفیر شاہ پر تشدد کرنے والوں میں ایمرجنسی ہال کا کوئی ڈاکٹر یا عملے کا فرد شامل نہیں تھا۔ تشدد ہاسٹل سے آنے والے ڈاکٹروں نے کیا۔ بھکر کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بھی ان میں شامل تھے۔
چوہدری نوید یونس مقامی صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر معلومات لینے کے بعد سوشل میڈیا پر اس خاندان کے حق میں آواز بلند کی۔ اس پلیٹ فارم پر بھکر کے شہری بھی انتظامیہ سے فوری طور پر شفاف انکوائری اور ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر احسن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے لگے اور ایک ہی روز میں سوشل میڈیا پر احتجاجی تحریک شروع ہو گئی۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) نے جواباً مذکورہ ڈاکٹر کی زخمی حالت میں تصاویر اپنے سوشل میڈیا پیج سے شیئر کیں جس میں ان کے ہاتھوں اور سر پر پٹیاں بندھی ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا صارفین نے واقعہ کے بعد کی ایسی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل کر دیں جن میں ڈاکٹر احسن زخمی دکھائی نہیں دیتے۔
نوید یونس کہتے ہیں حالات کی سنگینی کے پیش نظر تین دن بعد ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر نور محمد نے انکوائری کمیٹی تشکیل دے کر معاملے کی تحقیقات شروع کروائیں۔ اس سلسلے میں جب ڈی ایس پی ملک مظہر حسین نون سے معلومات لینے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کی انکوائری کمیٹی کے رکن ہیں اس لیے اس پر کوئی بات نہیں کر سکتے۔
تاریخ اشاعت 6 ستمبر 2023