صاحب جان شلوانی، راجن پور کے علاقہ پچادھ کے رہائشی اور پیشے کے اعتبار سے کاشتکار ہیں۔ یوں تو موضع محمد پور گم والا میں ان کی دس ایکڑ ذاتی اراضی ہے لیکن انہوں نے قریب ہی 25 ایکڑ اراضی ٹھیکے پر بھی لے رکھی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے سال انہوں نے آبپاشی کے لیے 14 لاکھ روپے سے سولر پینلز کے ساتھ ٹربائن لگائی مگر بوقت ضرورت فصل کو ڈیزل انجن سے بھی پانی دیتے رہے۔ اپریل کے آغاز میں ہی انہوں نے ہارویسٹر لگا کر گندم اٹھا لی، چونکہ بروقت پانی میسر رہا اس لیے پیداوار اچھی ہوئی۔
وہ کہتے ہیں کہ اس بار حکومت نے گندم کا نرخ تین ہزار 900 روپے من (فی 40 کلو) مقرر کر رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی سرکاری خریداری کا انتظار کرنے لگے۔ پچھلے کئی برسوں سے محکمہ خوراک اپریل کے آخر تک خریداری شروع کر دیتا ہے مگر رواں سال معاملہ تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا۔
"پھر ہمارا برا وقت شروع ہو گیا۔ ابتدا میں بیوپاری تین ہزار 400 روپے من نرخ آفر کرتے رہے لیکن ہم نے گندم سرکاری نرخ پر بیچنے کا سوچ رکھا تھا۔ تاہم جب پنجاب حکومت نے خریداری نہ کرنے کے اعلان کیا تو مارکیٹ میں ریٹ ڈھائی ہزار روپے پر آ گئے۔"
"گندم میں مجھے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے جبکہ کپاس کی کاشت کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ تاہم میں تو ویسے ہی کپاس کاشت کرنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ اب ٹربائن سے سولر پینل اکھاڑ کر گھر رکھ دیے اور رقبے کو ویران چھوڑ دیا ہے۔ اگر حکومتی پالیسی یہی رہی تو آئندہ ہم گھریلو ضرورت کی گندم ہی اگائیں گے۔"
یہ اکیلے صاحب جان شلوانی کی ہی نہیں، پچادھ کے نوے فیصد کاشتکاروں کی کہانی ہے جو گندم کے مناسب دام نہ ملنے پر کپاس کاشت کرنے کے قابل نہیں رہے جس کی قیمت اب ملکی معیشت کو چکانا پڑے گی۔
ضلع راجن پور کی کل آبادی 23 لاکھ 81 ہزار سے زائد ہے جو چار تحصیلوں یعنی راجن پور، جام پور، روجھان اور ٹرائیبل تحصیل (ڈی ایکسکلوڈڈ ایریا ) پر مشتمل ہے۔ ٹرائیبل تحصیل کو سرائیکی میں 'پچادھ' (مغربی علاقہ) کہا جاتا ہے جس میں لگ بھگ 50 ہزار لوگ رہتے ہیں۔
اس ضلعے کا کل رقبہ 28 لاکھ 57 ہزار 758 ایکڑ ہے جس میں سے کوہ سلیمان کے ڈھلان (دامان) میں واقع تقریباً دو تہائی یعنی 19 لاکھ 95 ہزار 958 ایکڑ رقبہ ٹرائیبل تحصیل یا علاقہ پچادھ میں آتا ہے۔
پچادھ میں کوئی نہری نظام نہیں جبکہ زیر زمین پانی بھی دو سے تین سو فٹ نیچے ہے۔ اس لیے کچھ عرصہ پہلے تک یہاں بیشتر زمینیں بنجر تھیں۔ بارش اور رود کوہیوں (پہاڑی نالوں) سے تھوڑی بہت کھیتی باڑی ہوتی تھی۔
لیکن چند سال سے شمسی توانائی عام ہوئی تو پچادھ کی قسمت بھی جاگ اٹھی۔ اب یہاں ہزاروں ایکڑ رقبہ زیرکاشت لایا جا چکا ہے جہاں خریف اور ربیع سیزن میں گندم، جوار ، کپاس اور سرسوں کے وسیع کھیت لہلہاتے نظر آتے ہیں۔
سینیئر افسر زراعت ظفر اللہ تصدیق کرتے ہیں کہ گزشتہ برس علاقہ پچادھ میں 25 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر کاٹن اگائی گئی تھی۔ لیکن اب کی بار کپاس کی کاشت تو دور ان علاقوں میں ہر طرف ویرانی اور گندم کی فصل کی باقیات(ناڑ) دکھائی دیتی ہے۔
ضلع راجن پور کے دیگر علاقوں کی صورت حال بھی اس سے بہت زیادہ مختلف نہیں۔
جاوید حسین، تحصیل راجن پور کی یونین کونسل کوٹلہ خان محمد کے کاشتکار ہیں جو ہر سال 12 ایکڑ گندم کاشت کرتے ہیں اور کٹائی کے بعد اسی رقبے پر کپاس لگاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ گندم بروقت اور مناسب نرخ پر فروخت نہ ہونے کے باعث پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے کپاس کاشت نہیں کی۔ جب گیہوں فروخت ہوا تو کپاس کا وقت نکل چکا ہے۔ ظالمانہ حکومتی فیصلے سے انہیں دہرا نقصان ہوا ہے کیونکہ ایک تو گندم کا مناسب ریٹ نہیں ملا دوسرا کپاس کاشت نہیں کر سکے۔
موضع رکھ فاضل پور کے محمد یونس نے پچھلے سال 30 ایکڑ رقبہ ٹھیکے پر لیا تھا جس کا سالانہ ٹھیکہ 15 ہزار روپے ایکڑ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے گندم کی کاشت کے لیے ڈی اے پی بلیک میں 13 ہزار روپے بوری خریدی جبکہ یوریا کھاد پانچ ہزار میں لیتے رہے مگر اب اچھی فصل کے باوجود برباد ہو گئے ہیں۔
"پچھلے سال مجسٹریٹ گھروں میں گھس کر گندم ضبط کر رہے تھے لیکن اب وہ سارے غائب ہیں۔ ہم بلا رہے ہیں کہ ہمارے پاس سیکڑوں من گندم پڑی ہے چھاپہ مار کر سرکاری نرخ پر اٹھا لیں مگر کوئی نہیں سن رہا۔"
"گندم خریدنے والا کوئی نہیں ہمارا تو فائدہ بھی نقصان میں بدل گیا ہے۔ میں نے اپنی ساری پونجی پچھلی فصل پر لگا دی، اب کپاس کے لیے کچھ نہیں بچا۔ ٹھیکے پر لیا ہوا رقبہ بھی ویران پڑا ہے۔"
محکمہ زراعت کے سینیئر افسر ظفر اللہ کے مطابق ضلع راجن پور میں گزشتہ سال تین لاکھ 69 ہزار 864 ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کی گئی تھی لیکن اس بار تین لاکھ 15 ہزار ایکڑ کپاس کاشت ہوئی ہے جو پچھلے سال سے 55 ہزار ایکڑ کم ہے۔
لیکن ایک اور سرکاری محکمے کاشت رقبہ اس سے کہیں کم بتاتا ہے۔
پنجاب میں فصلوں کی کاشت کا تخمینہ لگانے والا سرکاری ادارہ 'کراپ رپورٹنگ سروس' کہتا ہے کہ 16 مئی تک راجن پور میں 2 لاکھ 25 ہزار ایکڑ رقبہ کاشت ہوا ہے جو رواں سال کے ہدف اور پچھلے سال سے 30 فیصد کم ہے۔
تاہم کسان بورڈ راجن پور کے ضلعی صدر خواجہ محسن ریاض ان اعداد و شمار کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محتاط اندازے کے مطابق اس بار راجن پور میں گزشتہ سال کی نسبت 40 فیصد کم رقبے پر کپاس کاشت کی گئی ہے جبکہ علاقہ پچادھ مکمل ویران نظر آتا ہے۔
کراپ رپورٹنگ سروس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف راجن پور ہی نہیں پورے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں کاٹن کی کاشت کا حکومتی ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ یہاں کاشت کا ہدف سات لاکھ 52 ہزار ایکڑ تھا جس میں سےابھی تک صرف 57 فیصد ہی پورا ہوا ہے یعنی چار لاکھ 30 ہزار ایکڑ رقبے پر ہی کپاس کاشت ہوسکی ہے۔
پنجاب میں کپاس کا تقریباً 90فیصد رقبہ جنوبی پنجاب کے اضلاع پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس بار بھی پنجاب حکومت نے صوبے میں 40 لاکھ ایکڑ کاشت کا ہدف مقرر کیا تھا جس میں سے 89 فیصد یعنی 35 لاکھ 66 ہزار ایکڑ رقبہ جنوبی پنجاب کا ہے۔
لیکن کراپ رپورٹنگ سروس کے مطابق جنوبی پنجاب میں ابھی تک ہدف کا 69 فیصد رقبہ ہی کاشت ہو پایا ہے جبکہ مقامی کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث جنوبی پنجاب میں اب 15 مئی سے پہلے ہی کپاس کی کاشت مکمل ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
رحیم یار خان میں کپاس کی کاشت کیوں کم ہوتی جا رہی ہے؟
اسی طرح ملتان ڈویژن میں کپاس کی کاشت کا صرف 62 فیصد اور بہاول پور میں 77 فیصد ہدف مکمل ہو پایا ہے۔
ایگری امپورٹ ڈیٹا بتاتا ہے کہ پاکستان نے گذشتہ سال تقریباً چھ لاکھ 84 ہزار ٹن روئی امپورٹ کی جس پر 408 ارب روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پچھلے تین سال میں اوسطاً سالانہ سوا دو ارب ڈالر کا زرمبادلہ کاٹن امپورٹ پر خرچ کرتا آ رہا ہے۔
خواجہ محسن کہتے ہیں کہ جان بوجھ کر کسانوں کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے "وزیر اعلیٰ پنجاب کہتی ہیں کہ حکومت گندم اس لیے نہیں خرید رہی کہ کرپشن نہ ہو" جبکہ کرپشن تو یہ ہے کہ ملک میں وافر گندم موجود تھی اور نئی فصل آنے سے پہلے مزید امپورٹ کر لی گئی۔
"اب ہمارے کسان تباہ ہو چکے ہیں جن کو حکومتی پالیسی نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ کپاس کاشت کر سکیں۔"
تاہم کاٹن کی پیداوار کے ماہرین کہتے ہیں کہ گندم کی بے قدری کے علاوہ اس بار کپاس کی کم کاشت کے پیچھے ایک اور وجہ پچھلے سیزن میں پھٹی کی بے قدری ہے جس کی امدادی قیمت ساڑھے آٹھ ہزار روپے من مقرر کی گئی تھی لیکن کاشت کاروں کو سات ہزار روپے من سے زیادہ ریٹ نہیں ملا۔
امریکی فارن ایگریکلچرل سروس کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کی سالانہ طلب ایک کروڑ گانٹھ (فی گانٹھ وزن 170 کلو گرام) کے قریب ہے اور اسے ہر سال ٹیکسٹائل کی ضرورت پوری کرنے کے لیے 40 سے 45 لاکھ گانٹھ روئی امپورٹ کرنا پڑتی ہے۔ جس کا درآمدی بل تیل و گیس کی درآمد کے بعد سب سے بڑا ہوتا ہے۔
تاریخ اشاعت 27 مئی 2024