پنجاب کے مختلف شہروں میں زرعی رقبہ کیوں کم ہو رہا ہے؟

postImg

بلال احمد اذان

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پنجاب کے مختلف شہروں میں زرعی رقبہ کیوں کم ہو رہا ہے؟

بلال احمد اذان

loop

انگریزی میں پڑھیں

بچوں کی ضد نے ظفر اقبال کو اپنی دو ایکڑ زرخیز زرعی زمین ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کو فروخت کرنے پر مجبور کر دیا۔

دو ماہ پہلے انھوں نے اپنی زمین کا پانچ کروڑ روپے میں سودا کیا تو ہاوسنگ سوسائٹی کے مالکان نے انہیں فوری طور پر پانچ لاکھ روپے بیعانہ ادا کرتے ہوئے زمین کا قبضہ لے لیا۔

ظفر اقبال کے بقول باقی پانچ کروڑ 40 لاکھ روپے کی ادائیگی کے حوالے سے مہینے کا معاہدہ ہوا تھا لیکن دو ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک انہیں پیسے نہیں ملے ہیں۔

"جب بھی ان کے پاس جاتا ہوں تو کہتے ہیں کہ بس ایک بڑا چیک کلیئر ہونے والا ہے جیسے ہی پیسے آتے ہیں تو انہیں ادا کر دیے جائیں گے"

ظفر اقبال ضلع شیخوپورہ کے قصبے برج اٹاری کے رہنے والے ہیں اور ان کی زرعی زمین لاہور، شیخوپورہ کے سنگم میں فیض پور انٹرچینج کے پاس عین اس جگہ موجود تھی جہاں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار ہے۔

ظفر اقبال کے بقول وہ اپنی وراثتی زمین کسی صورت فروخت نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن بچے چونکہ اب بڑے ہوگئے ہیں ان کو لگتا ہے کہ دو ایکڑ رقبے سے تو گھر کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوسکتے تو وہ اپنا مستقبل بہتر کیسے بنائیں گے۔

"پچھلے دو سال سے انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ زمین چلی گئی تو پھر گھر کی دال روٹی بھی مشکل ہو جائے گی لیکن انھوں نے اپنی ضد نہیں چھوڑی بلکہ مجھے خود غرض سمجھنے لگے تھے۔ اب میری عمر بھی ہو گئی ہے اور پتا نہیں کب اگلے جہان جانا پڑ جائے اس لیے ان کی ضد کے آگے ہار مان لی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اپنے حصے کے پیسوں سے وہ کاروبار شروع  کریں گے۔

ظفر اقبال کی عمر 65 سال ہے اور ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو سب 18 سال سے بڑے ہیں۔ان میں سے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی شادی بھی ہو چکی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ زمین فروخت کیے ہوئے ابھی دو ماہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا ہے تو گھر کی ضرورت پوری کرنے کے لیے دودھ خریدنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

دو ماہ پہلے تک ظفر اقابل کے پاس چار بھینسیں تھیں جو انھوں نے اپنی زرعی زمین کے ایک حصے پر بنی ہوئی حویلی میں رکھی ہوئی تھیں۔ ظفر اقبال کے بقول بھینسوں کے دودھ کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن پر ان کی دال روٹی باآسانی چل رہی تھی لیکن جیسے ہی زمین کا قبضہ ہاؤسنگ سوسائٹی کو دیا تو انہیں بھینیسیں بھی فروخت کرنا پڑ گئیں۔

ان کے مطابق یہ مویشی ان کا بڑا سہارا تھا کیوں کہ انھوں نے اپنے دونوں بچوں کی شادیاں بھی بھینسیں فروخت کرکے ہی کی تھیں۔

"لیکن اب تو خوشی غمی کے لیے لوگوں سے ادھار لینا پڑے گا۔"

وہ کہتے ہیں کہ وراثتی زمین میرے پاس نہیں رہی اس کا دکھ انہیں مرتے دم تک رہے گا لیکن یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں بیٹے جنہیں کسی بھی قسم کے کاروبار کو کوئی تجربہ نہیں ہے، وہ بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر ان کا کیا بنے گا؟

بچوں کے کاروبار میں کامیاب نہ ہونے کے حوالے سے وہ اتنے فکر مند کیوں ہیں اس کی مثال وہ کچھ یوں دیتے ہیں کہ ان کے چھوٹے بھائی 58 سالہ اکبر اور 55 سالہ اصغر کا بھی دو، دو ایکڑ وراثتی زرعی رقبہ تھا جو انھوں نے دو سال پہلے اسی ہاؤسنگ سوسائٹی کو فروخت کیا تھا۔ دونوں بھائیوں نے کاروبار میں خسارہ ہوا۔

"آج ایک بھائی اپنے جواں سال بیٹے کے ساتھ مزدوری کر رہا ہے تو دوسرے کے پاس صرف دو مکان ہیں جن سے حاصل ہونے والے ماہانہ 30 ہزار روپے پر تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ بمشکل گزر بسر کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بھائی تین سال پہلے تک معاشی لحاظ سے کافی بہتر تھا کیوں کہ وہ اپنی زمین پر گلاب کے پھول اور سبزیاں کاشت کرتا تھا اور پھر انہیں خود لاہور کی منڈیوں میں فروخت کر کے آتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس تین بھینسیں بھی تھیں"۔

ظفر اقبال حساب لگا کر کہتے ہیں کہ اصغر کو اب دو مکانوں سے تقربیاً سال میں تین لاکھ 60 ہزار روپے ملتے ہیں، اگر اس نے زمین فروخت نہ کی ہوتی تو اسے ٹھیکے(کرایے) پر دے کر بھی اتنے پیسے حاصل کر سکتے تھے اور زمین بھی ان کی ملکیت میں رہتی۔
جس علاقے میں ظفر اقبال اور ان کے بھائیوں کا رقبہ ہے وہاں پر ان کے بقول اب ایک ایکڑ زمین کا ٹھیکہ ڈیڑھ لاکھ تک آ گیا ہے۔

شیخوپورہ سے ہی تعلق رکھنے والے چودھری محمد یوسف ورک جن کی قصبہ چھتہ کھوہ میں 160 ایکڑ زرعی زمین تھی اور ان کے کھیتوں پر کئی بے زمین خاندان کام کرتے تھے۔ اس زمانے میں چودھری یوسف کا شمار علاقے کے بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا لیکن 2016 میں جب ان کے علاقے میں زمین کے ریٹ بڑھنا شروع ہوئے تو انھوں نے اپنی یہ زمین ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کو فروخت کر دی۔

رہائشی سکیموں کے اعداد و شمار کے حوالے سے بنائی جانے والی پنجاب حکومت کی ویب سائیٹ "ہاوسنگ سوسائٹیز ان پنجاب" کے مطابق شیخوپورہ میں ہاؤسنگ سوسائیٹیز کی تعداد 192 ہے جس میں سے 182 غیر قانونی ہیں، صرف چھ ہی پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی سے منظور شدہ ہیں  جبکہ چار ہاؤسنگ سوسائیٹیز منظوری کے مراحل میں ہیں۔

چودھری یوسف کہتے ہیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک نے انہیں معاہدے کے مطابق ادائیگیاں نہیں کیں تو تین سال بعد وہ اس ہاؤسنگ سوسائٹی کے شراکت دار بن گئے۔اب ان کا گزر بسر تو اچھے سے ہو رہا ہے لیکن اب جس حساب سے گندم، چاول اور سبزیوں کے نرخ بڑھ گئے ہیں اگر یہ زمین کاشت کاری کے قابل رہتی تو وہ اس سے کہیں زیادہ منافع کما رہے ہوتے۔

اس کے ساتھ انہیں یہ بھی پشیمانی ہے کہ انھوں نے اپنے کھیتوں پر کام کرنے والے کئی خاندانوں کی روزی کا سہارا بھی چھین لیا ہے۔

چودھری یوسف کہتے ہیں کہ شیخوپورہ کی زمین انتہائی زرخیز ہے جہاں پر گندم، چاول کی بہترین پیداوار ہوتی ہے لیکن یہاں پر زرعی رقبہ تیزی سے کم ہو رہا ہے جو کہ کافی تشویش ناک ہے۔

پنجاب کے ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع شیخوپورہ میں 2009 سے 2021 تک زیر کاشت رقبے میں 91 ہزار 334 ایکڑ کی کمی آئی ہے۔

2009 میں ضلع شیخوپورہ میں زیر کاشت رقبہ آٹھ لاکھ 84 ہزار  ایکڑ سے زائد تھا جبکہ 2021 میں سات لاکھ 93 ہزار ایکڑ کے قریب رہ گیا ہے۔

شیخوپورہ میں محکمہ زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر شفیق چودھری بھی محکمہ لینڈ ریونیو کے ریکارڈ کا حوالے دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ضلع شیخوپورہ میں 11-2010ء کے بعد سے زیر کاشت رقبے میں سالانہ 2 عشاریہ 22 فیصد کے حساب سے کمی ہو رہی ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے۔
"اگر اسی رفتار سے ہمارا زرعی رقبہ کم ہوتا رہا تو انسانوں اور جانوروں کی خوراک پوری کرنا بھی مشکل ہو جائے گا"۔

پڑھنے، سننے میں شاید 91 ہزار ایکڑ رقبہ زیادہ نہیں لگتا لیکن اگر فرض کرلیا جائے کہ اس سارے رقبے پر گندم کی فصل کاشت  ہو تو اس سے 30 لاکھ 14 ہزار  من سے زائد گندم پیدا ہو گی جو نو لاکھ 72 ہزار سے زائد افراد کو سال بھر کی خوراک مہیا کر سکتی ہے۔

یہ صورتحال صرف شیخوپورہ میں ہی نہیں بلکہ لاہور ڈویژن میں شامل لاہور، قصور اور شیخوپورہ کے اضلاع جن کی حدود لاہور سے لگتی ہیں، یہاں بھی یہی رحجان ہے۔ ادارہ شماریات پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ان اضلاع میں 2009ء سے 2021ء تک دو لاکھ 15 ہزار ایکڑ کے قریب زرعی رقبہ کم ہوا ہے۔

کسانوں کی کسان بورڈ پاکستان نامی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ چودھری شوکت علی چدھڑ ان اعداد و شمار کو درست تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

ان کے بقول ان کی تنظیم پچھلے کئی سالوں سے پنجاب بھر میں زرعی رقبے کے حوالے سے سروے کر رہی ہے۔ ان کے خیال کے مطابق لاہور، شیخوپورہ، قصور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات اور منڈی بہاؤ الدین میں 32 فیصد سے 40 فیصد تک زرعی رقبے میں کمی ہوئی ہے۔

اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ پہلے بلڈر مافیا بڑے شہروں کے گرد و نواح تک ہی محدود تھی لیکن اب انھوں نے دیہات تک کا رخ کر لیا ہے۔ مین شاہراہوں کے کناروں پر وہ کسانوں کو زیادہ پیسوں کا لالچ دے کر مہنگے داموں زمین خرید رہے ہیں۔

"بلڈر کاشتکاروں کو بھاری رقوم کا لالچ دیکر زرعی رقبہ حاصل کرتے ہیں پھر اس سے بھی کئی گنا مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں"۔

وہ کہتے ہیں پچھلے کچھ عرصے سے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری بہت بڑے پیمانے پر آئی ہے۔ حکومتوں کی طرف سے بار بار کی ایمنسٹی سکیموں نے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لوگ اپنا کالا دھن سفید کرنے کے لیے بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد بننے والی یہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں سالوں گزر جانے کے بعد بھی خالی پڑی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

حیدر آباد میں زرعی اراضی پر پھیلتی ہاوسنگ سکیمیں، بلڈرز نے کاشت کاروں کی زندگی اجیرن کر دی

ظفر اقبال اور چودھری یوسف بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ شیخوپورہ میں جن سوسائیٹوں کو انھوں نے اپنی زمینیں بیچی ہیں ان میں ابھی تک صرف 20 فیصد ہی تعمیرات ہوئی ہے باقی زمین خالی پڑی ہے۔

ڈسٹرکٹ ریونیو اکاؤنٹنٹ شیخوپورہ محمد جمیل خان کے خیال میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے علاوہ شیخوپورہ میں زیر کاشت رقبے میں کمی کی ایک وجہ یہاں پر موٹر ویز کی بہتات بھی ہے۔

ان کے مطابق ایم تھری لاہور ملتان موٹر وے جو پانچ چھ سال پہلے بنائی گئی تھی اس سے شرقپور تحصیل کے 22 اور فیروز والا کے چار دیہات متاثر ہوئے اور ان دونوں تحصیلوں کا 285 ایکڑ رقبہ زرعی رقبہ اس کی نذر ہو گیا۔ اسی طرح اس ضلع کا 459 ایکڑ رقبہ لاہور، سیالکوٹ موٹروے کی زد میں آیا ہے۔

"موٹرویز یا دیگر سفری سہولیات بے شک لوگوں کی آسانی کے لیے ہیں لیکن ان کے بدلے میں ملک کو جو خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے یا پڑے گا وہ شاید اس سے بھی زیادہ خوف ناک ہو گا"۔

محکمہ زراعت کے لاہور میں قائم مرکزی دفتر کے ایک سینئر عہدیدار جو اپنا نام خفیہ رکھنا چاہتے ہیں ان کے مطابق لاہور، ملتان اور ملتان، سکھر موٹر وے کی زد میں آنے والا لاکھوں ایکڑ رقبہ سب سے زیادہ زرخیز تھا۔ یہاں پر گندم، چاول، کپاس یا دوسری فصلوں کی سب سے زیادہ پیدوار ہوتی تھی۔

محمد جمیل خان کہتے ہیں کہ 2021ء  میں تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے راوی اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (RUDA) کے نام سے شروع کیے جانے والے منصوبے کی وجہ سے ضلع شیخوپورہ کے 102 دیہات کا  ہزاروں ایکڑ زرعی رقبہ متاثر ہو گا۔ حال ہی میں حکومت نے ملتان موٹر وے کو سگیاں روڈ سے ملانے کے لیے سگیاں بائی پاس بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے تحصیل فیروز والا میں چار ہزار سے زائد ایکڑ زرعی اراضی اس منصوبے کی لپیٹ میں آئے گی۔

راوی اربن ڈیویلپمنٹ اتھارتی کے ماسٹر پلان کے مطابق یہ منصوبہ ایک لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط ہوگا جس میں سے77 ہزار ایکڑ رقبہ زرعی ہےجس  کا زیادہ تر حصہ ضلع شیخوپورہ میں ہے۔

شیخوپورہ کے زرعی ماہرین اور محکمہ ریونیو کی ٹیم  نے " شیخوپورہ میں بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے زراعت، ایکو سسٹم اور سماجی زندگیوں پر اثرات" کے عنوان سے ایک تحقیقاتی رپورٹ بنائی ہے۔ اس کے مطابق یہاں پر بڑھتی ہوئی شہری آبادیاں دیہی معیشت کے لیے ایک بڑا نقصان ہیں، بہت سارے کسان نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ زیادہ آباد کاری کی وجہ سے درختوں کی کٹائی اور ماحول سے میٹھے پانی کا کی کمی حیاتیاتی تنوع کا توازن بگاڑ سکتی ہے۔ زیادہ ہجوم، آلودگی اور ٹریفک کے مسائل کے ساتھ تازہ خوارک کی کمی بھی واقع ہو رہی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی علاقے میں زیادہ آباد کاری کی وجہ سے دریاؤں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے جس سے سیلاب کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 30 دسمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

بلال احمد اذان کا تعلق شیخوپورہ سے ہے۔ انہوں نے انٹرنیشنل ریلیشن اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ 2011 سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

معذور ہی معذور کا سہارا ہے، عام لوگ تو صرف ہمدردی کرتے ہیں

کشمیر: پرانی رسم زندہ ہے تو غریبوں کا بھرم رہ جاتا ہے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا، "ہزاروں خالی اسامیوں کے باوجود عارضی اساتذہ کی فراغت سمجھ سے بالا تر ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

"لال بتی حیدرآباد میں برن وارڈ نہیں، ڈیتھ وارڈ ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمرکوٹ سانحہ: "خوف کے ماحول میں دیوالی کیسے منائیں؟"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

کشمیر: جس کو سہارے کی ضرورت تھی، آج لوگوں کا سہارا بن گئی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.