پشاور میں جی ٹی روڈ پر ترناب کا علاقہ صوبے میں شہد کی سب سے بڑی منڈی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سے ناصرف خیبرپختونخوا بلکہ ملک کے دوسرے حصوں کو اور بیرون ملک بھی شہد سپلائی ہوتا ہے اور ملک بھر سے لوگ شہد خریدنے یہاں آتے ہیں۔
لیکن ان دنوں اس منڈی میں شہد زیادہ اور اس کے خریدار کم ہو گئے ہیں۔
شہد کی مکھیاں پالنے اور شہد کا کاروبار کرنے والے تاجروں کی تنظیم ہنی بی کیپرز اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر شیخ گل باچا بتاتے ہیں کہ ہر دکان دار کے پاس کئی من شہد پڑا ہے جس کے خریدار نہیں ہیں۔ ایک وقت تھا کہ اس مارکیٹ سے شہد کے سات سو کنٹینر خلیجی ممالک کو برآمد کئے جاتے تھے جن کی تعداد اب کم ہو کر 150 رہ گئی ہے۔
شیخ گل باچا کہتے ہیں کہ اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کو کئی طرح کی مشکلات درپیش ہیں۔
شہد کی مکھیوں کی فارمنگ (مگس بانی) لاگت میں اضافے، غیر سازگار ماحول، موسمیاتی تبدیلی اور جدید طریقوں کے عدم استعمال کے باعث اس قدر متاثر ہو چکی ہے کہ تاجر اس کاروبار سے سرمایہ نکالنے لگے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اب مکھیوں کے فارم کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہوئے گاڑیوں کے کرایوں کی مد میں ہی بہت بڑی رقم خرچ ہو جاتی ہے۔ راستوں میں پولیس بھی مگس بانوں کو حیلے بہانوں سے تنگ کرتی ہے۔
"ماضی میں موسم گرما میں اکثر مگس بان، جن کا تعلق افغانستان سے ہے، مکھیوں کو خیبرپختونخوا سے ملحقہ افغان علاقوں میں منتقل کر دیتے تھے۔ اب سرحد پر سختی بڑھ گئی ہے اور مگس بانوں کو ویزے کے حصول میں بھی دشواری ہوتی ہے۔"
پاکستان میں شہد کے کاروبار کا حجم
پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا میں مگس بانی کو افغان مہاجرین کی آمد کے بعد فروغ ملا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے توسط سے ان مہاجرین کو شہد کی مکھیاں اور انہیں پالنے کے ڈبے دیے گئے اور اس سلسلے میں تربیت بھی فراہم کی گئی۔ جب ان مہاجرین نے شہد کا کاروبار شروع کیا تو ان کی دیکھا دیکھی مقامی لوگوں نے بھی اسے اپنا لیا۔
اس طرح پاکستان جو 1990ء تک شہد درآمد کرتا تھا چند ہی برس میں شہد برآمد کرنے والا ملک بن گیا۔اندازے کے مطابق ملک میں شہد کے کاروبار سے 16 لاکھ افراد وابستہ ہیں۔ ان میں 55 فیصد افغان مہاجرین ہیں۔ پاکستان میں بنائے جانے والے شہد کی بہت سی اقسام ہیں جن میں بعض اپنے اعلیٰ معیار کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہیں۔
125 من شہد کی فروخت کے لیے ترناب مارکیٹ میں بیٹھے رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ بہت سی کوششوں کے باوجود کوئی بیوپاری ان سے شہد لینے کو تیار نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کا فارم لاہور میں واہگہ بارڈرکے قریب ہے جسے وہ ناران کاغان منتقل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس مقصد کے لئے درکار اخراجات کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اگر فارم کو بروقت منتقل نہ کیا گیا تو موسم کی شدت سے مکھیاں مر جائیں گی اور ان کا سارا کاروبار ختم ہوجائے گا۔
رحمت اللہ خان کا کہنا ہے کہ ان کے کاروبار کو زوال کا سامنا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ جعلی شہد ہے جو اب مارکیٹ میں عام ملتا ہے۔ رہی سہی کسر متواتر موسمی تبدیلی پورا کر رہی ہے جس سے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
ترناب میہں ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذیلی ادارے اینٹامالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پرنسپل ریسرچ آفیسر محمد یونس نے بتایا کہ پھلوں اور سبزیوں کی بار آوری کے لیے بھی شہد کی مکھیوں کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔ خیبر پختون خوا میں ان مکھیوں کی تین اقسام میں ایف ایس سیرانا، ایف ایس ڈائرک سیٹا، فلوریا اور آسٹریلیا سے منگوائی گئی ایف ایس ملپرا شامل ہیں۔ لیکن اب اس میں دو اقسام ناپید ہو رہی ہیں۔ اس سے شہد کے پیداوار متاثر ہوئی ہے۔
اس کا سبب وہ موسمیاتی تبدیلی اور فصلوں پر کیڑے مار زہر کے بے تحاشا کو استعمال قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ شور کی آلودگی بھی شہد کی مکھیوں کے لیے خطرہ ہوتی ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر ملک میں پیدا ہونے والا 20 اقسام کا شہد اب 10 تک اقسام تک محدود ہو گیا ہے۔
ترناب کے رہائشی حاجی طاہر شاہ بھی کئی دہائیوں سے مگس بانی سے وابستہ ہیں۔ اب وہ کوئی دوسرا کاروبار شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ پیداوار میں کمی اور اخراجات میں اضافے کے باعث ان کے لیے شہد کا کاروبار منافع بخش نہیں رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے مکھیوں کے جن ڈبوں سے 25 کلو تک شہد حاصل ہوتا تھا اب ان سے 15 کلو تک بمشکل مل رہا ہے۔
"ہمارے شہد کے لیے خلیجی ممالک کی منڈی بہت وسیع اور منافع بخش تھی لیکن اب وہاں چین اور انڈیا نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہ ممالک شہد کے علاوہ ان منڈیوں میں مکھیوں کا زہر، رائل جیلی، ویکس، پولن اور نقلی سریش فراہم کر کے بھی کثیر زرمبادلہ کماتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں مکھیوں سے یہ پانچ چیزیں حاصل کرنے کے لئے درکار ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں بڑی منڈی ہونے کے باوجود انٹرنیشنل سٹینڈرڈز سرٹیفکیشن نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا شہد یورپ کی منڈی میں برآمد نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں
افغانستان پاکستان کو انگور اور انار کیوں نہیں بھیج رہا؟
ہنی بی کپیر اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری شیر زمان مومند کہتے ہیں کہ ایک ایسی لیبارٹری کی ضرورت ہے جو شہد جانچنے کا عمل ایک چھت کی نیچے مکمل کر کے بین الاقوامی معیار سے متعلق سرٹیفکیٹ مہیا کرے۔ یوں اس شہد کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا جا سکتا ہے۔"
وہ حکومت سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ شہد کے مکھیوں کے عالمی دن پر شہد کی نمائش کا انعقاد کیا جائے۔ اس طرح ملکی و غیر ملکی تاجروں میں منفرد خصوصیات کے حامل مقامی شہد کو متعارف کرایا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے محمد یونس سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے تعاون سے آئی ایس او سرٹیفکیشن کی لیبارٹری کی تیاری کا 40 فیصد کام باقی ہے۔ اس کے مکمل ہونے کے بعد مقامی تاجروں کو شہد کی برآمد کے لئے بین الاقوامی معیار کی پابندی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جا سکے گا جس سے شہد کی برآمدات کو بیرونی ملک منڈیوں تک رسائی میں مدد ملی گی۔
تاریخ اشاعت 24 جون 2023