سڈن ڈِکلائن کا عفریت اور خیرپور کی کھجور کی معیشت: وقت کم ہے اور مقابلہ سخت

postImg

خالد بانبھن

postImg

سڈن ڈِکلائن کا عفریت اور خیرپور کی کھجور کی معیشت: وقت کم ہے اور مقابلہ سخت

خالد بانبھن

نزاکت جتوئی ضلع خیرپور میں کھجور کے بڑے کاشت کار ہیں۔ وہ علاقے بھر میں بہتر پیداوار حاصل کرنے کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا کجھور کا باغ 120 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے وہ اپنی فصل کی پیداوار سے کافی پریشان ہیں۔

"ہم پوری کوشش کرتے ہیں لیکن پتا نہیں زمین کو کیا ہوگیا ہے کہ فصل کی پیداوار کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ زرعی ادویات بھی استعمال کرچکے ہیں لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ پیداوار آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔"

مالٹے (سٹرس) اور آم کے بعد کجھور پاکستان کا تیسرا سب سے اہم پھل ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا میں کھجور پیدا کرنے والے چھ بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔

پاکستان میں کھجور کے باغات بلوچستان اور سندھ میں ہیں۔ کجھور کے زیرکاشت کل رقبے کا 56 فیصد بلوچستان میں ہے اور 43 فیصد سندھ میں۔ سندھ کی تقریباً 85 فیصد کھجور صرف ضلع خیرپور میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس کے پڑوسی ضلع سکھر کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ دنوں اضلاع ملک کر صوبائی پیداوار کا 98 فیصد پیدا کرتے ہیں۔گویا سندھ کی تمام پیداوار انہی دو اضلاع میں مرکوز ہے۔ 

انہی اعدادوشمار کو دوسری جانب سے دیکھیں تو پاکستان کی کجھور کی کل پیداوار کا ایک تہائی صرف ضلع خیرپور سے آتا ہے۔

پچھلے سال نزاکت کی فصل کی پیداوار اس سال سے بھی کہیں بُری رہی تھی۔ "میری 70 ایکڑ زمین میں ابھی بھی پانی کھڑا ہے۔ چھوٹے پودے سوکھ رہے ہیں۔ پتا نہیں اس زمین سے کب پانی نکلے گا اور ہم کچھ اور کھیتی کرنے کا سوچیں گے"۔

محکمہ زراعت سندھ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالقادر دایو کے مطابق سندھ میں 2010 کے سیلاب کے بعد صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی تھی جب زمین میں پانی زیادہ عرصے تک کھڑا رہا اور زیر زمین پانی کی سطح اوپر آگئی جس سے سیم و تھور جیسے مسائل پیدا ہو گئے ۔

ان کے مطابق خیر پور اور سکھر میں پچھلے تین سال کے دوران مختلف بیماریوں سے کھجور کے 11 ہزار درخت سوکھ چکے ہیں۔

محکمہ زراعت کے مقامی اہلکاروں کے اندازے کے مطابق خیرپور اور سکھر میں 11 لاکھ سے زائد کھجور کے درخت ہیں۔ضلع خیر پور کی آٹھ میں سے پانچ تحصیلوں (کنگری، خیرپور، کوٹ ڈیجی، گمبٹ اور سوبھودیرو) کی تقریباً 80 فیصد زرعی اراضی کھجور کے باغات سے ڈھکی ہوئی ہی اور پڑوسی ضلع سکھر کی 20 فیصد۔

کاشت کاروں کے مطابق ان کے پودے فنگس (الُی) اور سڈن ڈکلائن (اچانک گراوٹ) نامی بیماری کی وجہ سے سوکھ رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ بیماری خیرپور میں تیزی سے پھیل رہی ہے جس سے نہ صرف پودے سوکھ رہے ہیں بلکہ بچ جانے والے پودوں کی پیداوار بھی کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔

شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کے شعبہ ڈیٹ پام ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امیر احمد نے سجاگ کو بتایا کہ سڈن ڈکلائن افریقی ملکوں مراکش اور الجیریا سے شروع ہوئی اور پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان خاص کر خیرپور میں بھی اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔

ان کے مطابق یہ فنگس کی ہی ایک شکل ہے جو زمین سے جڑوں کے ذریعے پودے میں داخل ہوتی ہے اور پھر اس کے اندر اپنا جال پھیلا کر اس میں پانی کی ترسیل کے نظام کو بلاک کر دیتی ہے۔ اس طرح پودوں کے اوپر والے حصے خشک ہوجاتے ہیں۔

ڈاکٹر امیر کے خیال میں ابتدائی مراحل میں اس مرض کی تشخیص ہوجائے تو اس پر کنٹرول پانا ممکن ہے لیکن تاخیر کی صورت میں پودے کو بچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔

سڈن ڈکلائن (اچانک گراوٹ) کیا ہے؟

وزیر علی میتلو نے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور سے سڈن ڈکلائن اور کھجور کی دوسری بیماریوں میں ڈاکٹریٹ کی ہے اور اب بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی بے نظیر آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

سڈن ڈکلائن فنگس کی ہی ایک شکل ہے جو پودے میں پانی کی ترسیل کے نظام کو بلاک کر دیتی ہے<br>سڈن ڈکلائن فنگس کی ہی ایک شکل ہے جو پودے میں پانی کی ترسیل کے نظام کو بلاک کر دیتی ہے

وہ کہتے ہیں کہ یہ خطرناک بیماری دو سال کے عرصے میں پودے کو مار دیتی ہے۔ اس کا سب سے مہلک پہلو یہ ہے کہ اگر باغ میں ایک پودا بھی اس بیماری سے متاثر ہے تو پھر پورا باغ ہی اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔اس سے بچنے کا حل یہ ہے کہ جو پودہ متاثر نظر آئے اسے فوری طور پر تلف کردینا چاہیے۔

مصر دنیا میں سب سے زیادہ کھجور پیدا کرنے والا ملک ہے۔ وزیر علی میتلو نے مصر کے سرکاری تحقیقاتی ادارے کے ایک سائنسدان عادل عبدالسعود کے ساتھ مل کر تین سال تک خیرپور میں اس بیماری پر تحقیق کی اور 17 مقامات سے اس بیماری کے نمونے اکٹھے کیے۔

ان کے مطابق نور پور نامی قصبہ جو خیرپور کے مشرقی جانب واقع ہے وہاں پر 50.17 فیصد پودوں میں اس بیماری کے اثرات پائے گئے۔ بیبرلوئی میں 36 فیصد، احمد پور میں 32 فیصد، کوٹ میر محمد میں 20 فیصد پودے سڈن ڈکلائن کے مرض میں مبتلا تھے۔

وزیر علی بتاتے ہیں کہ اس بیماری کا جنم زمین یا پودوں میں نمی کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے اسی لیے خیرپور کے مشرقی اطراف یہ بیماری بہت زیادہ ہے کیوں کہ ان علاقوں میں سیلاب کا پانی کھڑا ہونے کے علاوہ کھجور کے باغات میں درختوں کے درمیان چاول اور پانی زیادہ استعمال کرنے والے فصلیں بھی لگائی جارہی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ خیرپور کی مغربی اطراف جو علاقہ ضلع سکھر سے ملتا ہے وہاں باغات میں فصلیں لگانے کا رجحان کم ہے اس لیے یہاں پر اس بیماری کے اثرات بھی کم پائے گئے ہیں۔

عبدالرشید میتلو کا تعلق اسی علاقے سے ہے جہاں پر یہ بیماری زیادہ پھیلی ہوئی ہے وہ تصدیق کرتے ہیں کہ ببرلوء، پریالو، پیر جو گوٹھ، گاڑھی موری، نور پور اوراس کے اطراف کے علاقوں میں ہر سال درجنوں کی تعداد میں پودے سوکھ رہے ہیں اور جو باقی بچے ہیں ان کی پیداوار بہت کم رہ گئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق2010  کے سیلاب کے بعد سندھ میں کجھور کی فی ایکڑ پیداوار 85 من سے کم ہو کر 55 من پر آ گئی تھی۔

ایک درخت کی معیشت اور ثقافت

خیرپور کی معیشت کجھور کے اردگرد گھومتی ہے۔ وزیر علی میتلو کا ماننا ہے کہ اگر اس فصل کو نقصان پہنچا تو خیرپور کے ناصرف لاکھوں خاندانوں کا ذریعہ معاش ختم ہوجائے گا بلکہ یہ علاقہ اپنی ایک اہم ثقافتی شناخت بھی کھو دے گا۔ 

خیرپور میں کھجور کی کٹائی کے موسم یعنی جولائی اور اگست کے دو ماہ کے دوران نئی بستیاں آباد ہو جاتی ہیں اور کجھور سے متعلق بہت سی سرگرمیاں ایک بڑے تہوار کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ مزدور پھل کی چنائی کرتے ہیں۔ انہیں سکھا کر چھوہارے بنائے جاتے ہیں۔ جنہیں کھجور کے پتوں سے بنی چٹائیوں پر پھیلا کر خشک کیا جاتا ہے۔ مختلف طرح کے ٹرک علاقے میں فصل کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ان مہینوں میں یہاں ہر طرف چھوہارے کی خوشبو پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔

وزیر علی کہتے ہیں کہ یہاں کا مزدور اس فصل کی بوائی، چھدرائی اور کٹائی کا اس قدر ماہر ہے کہ انہیں دبئی، قطر اور سعودی عرب کی کمپنیاں اسی کام کے لیے اچھی تنخواہ پر ملازمت دیتی ہیں۔ یہاں کے بہت سارے غریب خاندانوں کا روزگار کھجور کے پتوں کی چٹائیاں اور دوسری چیزیں بنانے سے وابستہ ہے۔ بیشتر غریبوں کے گھر ہی کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بڑا ہی زور ہے اس بار مینہ کے قطروں میں: 'اس سال خیرپور میں کھجور کے کاشت کار قرض کیسے اتاریں گے، مزدور گھر کیسے چلائیں گے؟'

لیکن وزیر علی کو خدشہ ہے کہ سڈن ڈکلائن خیرپور کی طرف بڑھ رہی ہے، اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو یہ لاکھوں خاندانوں کا روز گار اور اس سے پوری ثقافت کو بھی برباد کردے گی۔

ان کی پریشانی بے جا نہیں وہ بتاتے ہیں کہ مراکش میں بھی اس بیماری نے اتنی تباہی مچائی تھی کہ جو ملک دنیا کو کھجوریں بیچتا تھا وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے خود خریدنے پر مجبور ہوگیا۔ 

پاکستان میں بھی آثار کچھ مختلف نہیں دکھائی دے رہے۔

مالی سال 2020-21 میں پاکستان نے 20 ہزار میٹرک ٹن کھجور باہر بھیجی تو اسے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے 57 ہزار میٹرک ٹن باہر سے منگوانا پڑی۔ اس سے اگلے سال حالات اور بھی زیادہ برے ہوگئے کیوں کہ اس سال پاکستان نے صرف 18 ہزار آٹھ سو میٹرک ٹن کھجور برآمد کی جبکہ اسے 72 ہزار میٹرک ٹن درآمد کرنا پڑی۔

تاریخ اشاعت 27 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

خالد بھانبھن، سکھر سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بطور رپورٹر صحافی ،انسانی حقوق ،ماحولیات، جیوپولیٹیکل موضوعات پر رپوٹنگ کرتے ہیں۔

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.