قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

postImg

ماہ پارہ ذوالقدر

postImg

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

ماہ پارہ ذوالقدر

اڑتیس سالہ مجید اللہ خان میانوالی کے علاقے شہباز خیل کے رہائشی ہیں جنہیں ضلع پولیس نے منشیات فروشی میں معاونت کے الزام میں چند ماہ قبل گرفتار کیا تھا۔ وہ 14 روز تھانے میں زیرتفتیش رہے جہاں سے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر سنٹرل جیل میانوالی بھیج دیا گیا جس کے کچھ ہفتوں بعد ان کی ضمانت ہو گئی۔

وہ بتاتے ہیں کہ پولیس کی حراست میں 14 دنوں کے دوران انہیں ہر روز نئی اذیت سے واسطہ پڑتا تھا۔ جہاں ان سے اقبال جرم کرانے کے لیے پہلے دھمکیاں دی گئیں جس کے بعد ان کے سامنے کئی ملزموں پر جسمانی تشدد کیا گیا۔

"تفتیش کے بہانے ساری ساری رات جگائے رکھا جاتا اس دوران دو راتیں مجھے سونے نہیں دیا گیا۔ پھر اہلکاروں نے تھپڑ، لاتیں اور گھونسے مارنا شروع کر دیے تاہم جب میں نے ناکردہ جرم کا اعتراف نہیں کیا تو مجھے چمڑے کے پٹے (چھتر)  سے بے دردی سے مارا گیا۔ یہ سب نہایت تکلیف دہ تھا۔"

پاکستان کا آئین ہر شہری کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے جبکہ آئین کا آرٹیکل 4 (ڈیو پراسس آف لا کا تصور)، آرٹیکل 9 (جان کے تحفظ کا حق)، آرٹیکل 10 اے (شفاف ٹرائل کا حق )، آرٹیکل 14 (ٹارچر کے ذریعے شہادت اگلوانے پر پابندی) سمیت کئی قوانین زیر حراست افراد سے بدسلوکی کو روکنے کا اہتمام کرتے ہیں۔

کسٹوڈیل ٹارچر (زیر حراست افرد پر تشدد) نہ صرف آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد تشد و دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا (یو این سی اے ٹی)  کے بھی خلاف ہے جس پر پاکستان نے 2008ء میں دستخط کیے اور 2010ء میں اس کی توثیق کر چکا ہے۔

تاہم یہ سارے قوانین سرکاری حکام کو نہ صرف تشدد سے باز رکھنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ اب تو برسوں سے ماوارائے عدالت قتل اور شہریوں کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں اغوا (مسنگ پرسن کیسز) کے واقعات بھی معمول بن چکے ہیں۔

غیر سرکاری ادارے جرنل آف رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ  کی 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی شہر میں جنوری 2017ء سے دسمبر 2021ء تک یعنی پانچ سال کے دوران 112 افراد پولیس اور جیل حکام کی تحویل میں ہلاک ہو گئے تھے۔

اس تحقیق کے مطابق یہ ریکارڈ کراچی کے تین بڑے ہسپتالوں میں پولیس سرجنز کے دفتر سے جمع کیا گیا تھا۔ ان ہلاکتوں میں سے 33 (29.4 فیصد) کی اموات کی وجہ دل کا دورہ جبکہ 20 (17.8 فیصد) کی اموات میں غیر فطری یعنی سخت اور کند اشیاء کی چوٹیں تھیں جن میں سے آٹھ (40 فیصد) کی کھوپڑی اور دماغ متاثر ہوا تھا۔

تشدد میں پنجاب پولیس کا ریکارڈ کراچی پولیس سے کچھ کم نہیں ہے۔ صوبہ بھر کی تفصیلی سٹڈی رپورٹ تو کبھی سامنے نہیں آئی البتہ 2019ء میں 18 جولائی سے تین ستمبر تک صرف ڈیڑھ ماہ میں تھانوں میں ز یرحراست سات ملزمان کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئی تھیں۔

امریکا کی ییل یونیورسٹی اور جے پی پی  (جسٹس پراجیکٹ پاکستان ) نے 2015ء میں ضلع فیصل آباد سے متعلق ایک جامع تحقیق کی تھی۔ یہ رپورٹ " پولیسنگ بطور ٹارچر: منظم بربریت اور فیصل آباد" کے نام سے سامنے آئی تھی  جو 2006ء سے 2012ء تک پولیس تشدد کا شکار ایک ہزار 867 افراد کے ایم ایل سیز (میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹس ) کی تحقیق پر مشتمل تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق ان میں سے ایک ہزار 424 کیسوں میں ڈسٹرکٹ سٹینڈنگ میڈیکل بورڈ نے بدسلوکی کی علامات بتائی تھیں جبکہ 96 دیگر کیسز میں ڈاکٹروں کو زخموں کے نشانات ملے جن کی مزید تصدیق کی ضرورت تھی۔

یہ تحقیق بتاتی ہے کہ ایک ہزار 424 کیسز کے متاثرین میں 58 بچے شامل تھے جبکہ 134 سے زیادہ خواتین تھیں جنہیں شدید مار پیٹ کے علاوہ جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کی تذلیل کی گئی جس میں عصمت دری اور زبردستی کپڑے اتارنا شامل تھا۔

ان اعدا و شمار کے مطابق 61 فیصد سے زیادہ خواتین سے جنسی زیادتی کی گئی تھی جبکہ 81 فیصد کی تذلیل (ننگا کرنا اور فحش حرکات وغیرہ) کا نشانہ بنایا گیا اور 61 فیصد عورتوں کے سامنے خاندان کے دیگر افراد پر ٹارچر کیا گیا۔ یہ سب ہتھکنڈے پولیس کی طرف سے منظم طریقے سے عام استعمال کیے جاتے ہیں۔

مارچ 2021ء کی رپورٹ میں جے پی پی کا کہنا تھا کہ تشدد کی سماجی و ثقافتی قبولیت، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آزاد نگرانی اور  تفتیشی طریقہ کار کے فقدان، گرفتاری اور حراست کے وسیع اختیارات، طریقہ کار کی خامیاں اور ریاست کا تشدد کو مجرمانہ فعل قرار نہ دینا 'ٹارچر' کی اہم وجوہات ہیں۔

یہ تشدد یا ٹارچر صرف تھانوں ہی تک محدود نہیں بلکہ جیلوں میں جوڈیشل ریمانڈ پر موجود ملزمان اور قیدیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس وقت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 2022ء میں اڈیالہ جیل میں قیدیوں سے بدسلوکی کی شکایات پر قومی کمیشن برائے انسانی حقوق(این سی ایچ آر)کو انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

این سی ایچ آر  نے 25 اکتوبر  2022 کو  اپنی تفصیلی رپورٹ میں قیدیوں پر کھلے عام تشدد اور غیر انسانی سلوک کا انکشاف کیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق 74 فیصد قیدیوں نے تشدد اور بھتہ خوری کی شکایت کی تھی جب کہ 100 فیصد نے جیل میں فراہم کی جانے والی ہر جائز سہولت (دوائیں، خوراک وغیرہ) کے لیے جیل حکام کی جانب سے بھتہ خوری کی تصدیق کی۔

مارچ 2023ء میں 'ہر ایک کے لیے ڈراؤنا خواب' کے عنوان سے شائع ہونے والی برطانوی رپورٹ  برملا کہتی ہے کہ پاکستان میں پولیس اور جیل حکام اکثر زیر حراست افراد کے خلاف تشدد اور دیگر ناروا سلوک کا استعمال کرتے ہیں۔

"خاص طور پر تفتیش کے دوران پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد سے اعترافی بیانات اور دیگر معلومات حاصل کرنے یا رشوت لینے کے لیے پولیس مختلف طریقوں سے ٹارچر کا استعمال کرتی ہے۔"

غیر سرکاری ادارہ 'جسٹس پراجیکٹ پاکستان ' (جے پی پی) کہتا ہے کہ پاکستان میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا لوگوں پر تشدد (ٹارچر) اس قدر منظم  اور قابل قبول ہے کہ اسے اداروں کی کارروائی کا ناگزیر حصہ سمجھ لیا گیا ہے جبکہ تشدد کے مرتکب افراد کو استثنیٰ دے دیا جاتا ہے۔

تشدد کے مرتکب افراد کو حاصل استثنیٰ کے خاتمے اور عالمی برادری کے دباؤ پر پاکستان میں نومبر 2022ء میں انسداد تشدد و زیر حراست قتل کے خلاف قانون منظور کیا گیا تھا جس کی منظوری کی الگ ایک طویل کہانی ہے۔

اس قانون کا بل 2014ء سے 2018ء تک کئی بار پارلیمنٹ میں پیش ہوا مگر کبھی قومی اسمبلی سے منظور ہوا تو سینٹ میں پیش نہ کیے جانے کے باعث زائد المعیاد ہو گیا، سینٹ سے منظور ہوا تو قومی اسمبلی سے اس کی منظوری نہ لی جا سکی۔
تاہم یہ قانون تو جیسے تیسے منظور ہو گیا مگر اب اس پر عمل درآمد کہیں نظر نہیں آ رہا۔

نومبر 2022ء میں بننے والے اس قانون  (THE TORTURE AND CUSTODIAL DEATH (PREVENTION AND PUNISHMENT) ACT, 2022) میں ایذا رسانی (ٹارچر) سے متعلق جرائم، ان کی سزا، طریقہ تفتیش، ٹرائل اور محکمانہ کارروائی کی دفعات شامل ہیں جبکہ اس قانون میں تشدد (ٹارچر)کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔

 اس قانون کے مطابق "ٹارچر ایک ایسا فعل ہے جس میں کسی شخص کو شدید جسمانی درد یا جسمانی تکلیف میں جان بوجھ کر مبتلا کیا جائے تاکہ اس سے معلومات حاصل کی جائیں یا اعتراف جرم کرایا جا سکے یا اسے کسی ایسے فعل کی سزا دینا جس کا ارتکاب اس نے یا کسی تیسرے شخص نے کیا ہے یا اس پر شبہ ہے کہ اس نے ارتکاب کیا ہے۔"

ٹارچر کی اس وضاحت میں دھمکانا، زبردستی کرنا یا امتیازی سلوک (قانونی پابندیوں کے سوا) وغیرہ بھی شامل ہے تا ہم اس میں ذہنی یا نفسیاتی دباؤ کو شامل نہیں کیا گیا۔

ماہر قانون سمیع اللہ خان بتاتے ہیں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ زیر حراست شخص کو تو کچھ نہیں کہا جاتا لیکن اسے ذہنی اذیت دینے کے لیے اس کے سامنے کسی دوسرے شخص پر تشدد کیا جاتا ہے۔ یوں پاکستانی قانون میں شامل 'ٹارچر' کی وضاحت اقوام متحدہ کی جاری کردہ ٹاچر کی تعریف کے مطابق نہیں جس میں ذہنی دباؤ کو بھی تشدد شمار کیا گیا ہے۔

انسداد تشدد قانون کے تحت شکایت کنندہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو زیر حراست تشدد یا قتل کے مرتکب اہلکار/افسر کی شکایت درج کرا سکتا ہے جس کی تفتیش ایف ائی اے 30 دن کے اندر مکمل کرے گی جبکہ تفتیش کے لیے زیادہ سے زیادہ پانچ دن کا اضافی وقت دیا جا سکتا ہے۔

اس قانون کے تحت ایسے کیس کا ٹرائل سیشن کورٹ میں ہو گا جس کا تین ہفتوں میں مکمل ہونا ضروری ہے جبکہ سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف 30 روز کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے۔

قانون کے مطابق ایف آئی اے کو شکایت کے اندراج، تفتیش، متعلقہ اہلکار کی گرفتاری اور اپوائنٹنگ اتھارٹی کو رپورٹ کرنے کے اختیارات حاصل ہیں جبکہ شق 5 کے تحت یہ تمام عمل نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر)کی زیر نگرانی انجام پائے گا۔

تاہم سماجی رہنما علی خان پائی خیل ایف ائی اے میں شکایت کے اندراج اور تفتیش کے عمل کو شک کی نظر دیکھتے ہیں۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایک ایف ائی اے ملازم، قانون نافذ کرنے والے ساتھی ادارے کے افسران کے خلاف نیوٹرل ہو کر کیسے کاروائی کر سکتا ہے؟

"ایف آئی اے کی تفتیش پر این سی ایچ آر کی نگرانی احسن اقدام ہے تاہم اس کا طریقہ کار واضح نہیں ہے ۔"

قانون کی خامیاں ایک طرف، ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل امان اللہ گجر بتاتے ہیں کہ ابھی تک ایف آئی اے کے پاس تشدد کی کمپلینٹ پر تحقیقات کے لیے کوئی باقاعدہ 'انویسٹی گیٹشن ونگ' ہی موجود نہیں ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ اس قانون کو مزید فعال بنانے کے لیے ایف آئی اے میں علیحدہ انویسٹی گیشن ونگ ضروری ہے جو صرف زیر حراست تشدد کے معاملات کو ڈیل کرے۔ تب ہی اس قانون کا نفاذ یقینی بنایا جا سکے گا لیکن اس کے لیے کافی فنڈز درکار ہوں گے۔

میانوالی کے ڈی ایس پی لیگل ذکاء اللہ جسرا نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس ضلعے میں زیر حراست قتل کا کبھی کوئی کیس سامنے نہیں آیا تاہم تشدد کے کیسز رپورٹ ہوتے رہتے ہیں جن میں ملوث اہلکاران کے خلاف محکمانہ کاروائی ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل تھانہ سٹی میانوالی کے دو پولیس اہلکاروں محمد اسلام اور جنید خان پر زیر حراست ملزم پر تشدد کا الزام ثابت ہوا جس پر ان دونوں کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر میانوالی مطیع اللہ خان نوانی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پنجاب پولیس میں ہر قسم کے تشدد کی سختی سے ممانعت ہے۔ تمام ایس ایچ اوز اور اہلکاران کو واضح ہدایات ہیں کہ اقبال جرم کے لیے تشدد کی بجائے جدید طریقہ تفتیش کو استعمال کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

شیخوپورہ: پولیس نارنگ منڈی میں جرائم کیوں نہیں روک پا رہی وجہ وسائل کی کمی یا کچھ اور؟

"ملزم پر تشدد تو درکنار ہمارے پاس کوئی ناروا سلوک کی شکایت بھی لے کر آتا ہے تو اس پر متعلقہ افسران کو فوری تنبیہ کی جاتی ہے۔"

ڈی پی او کے برعکس میانوالی میں ایک تھانے کے ایس ایچ او نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اعتراف کیا کہ تھانوں میں ملزموں پر تشدد معمول کی بات ہے۔

ان کے خیال میں یہاں کسٹوڈیل ٹارچر کی تین بنیادی وجوہات ہیں کہ تھانوں کاعملہ تفتیش کے متبادل طریقہ کار سے ناواقف ہے اور ان کی پولیسنگ کی جدید اصولوں کے مطابق تربیت نہیں کی گئی۔ اس لیے یہ لوگ تفتیش کے لیےتشدد ہی کو درست راستہ خیال کرتے ہیں۔

"دوسری بڑی وجہ پولیس اہلکاروں کی پسماندہ سماجی نفسیات ہے جس کے تحت تشدد کو اصلاح کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس عمومی رویے کے حامل پولیس افسر و اہلکار بات بات پر ملزموں پر تشدد کرتے ہیں۔"

وہ بتاتے ہیں کہ تیسری بڑی وجہ متاثرین کا تشدد کو ثابت نہ کر پانا ہے۔ یعنی متاثرہ شخص کی کوئی بات ہی نہیں سنتا جس پر اسے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ عدالت کے حکم پر کیس درج بھی ہو جائے تو میڈیکل رپورٹ کو ملی بھگت سےکافی حد تک "نیوٹرلائز"  کرا دیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے قانونی ماہرین  کہتے ہیں کہ کسٹوڈیل ٹارچر کی جڑیں فوجداری نظام انصاف (کرمنل جسٹس سسٹم) کے اندر ہی موجود ہیں جن کے سوتے ادارہ جاتی مشکلات سے پھوٹتے ہیں۔

"ٹارچر کی بڑی وجوہات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا محاسبہ نہ ہونا، تربیت کی کمی، ناکافی وسائل کی کمزوریاں اور وسیع پیمانے پر بدعنوانی شامل ہیں جن کی وجہ سے یہ ادارے بالآخر جبر اور تشدد کو تکنیک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔"

مجید اللہ نے بھی خود پر تشدد  کے خلاف  کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان  کی اب تک عدالت میں تین پیشیاں ہوچکی ہیں۔ ان کے وکیل سمیع اللہ خان کہتے ہیں کہ  مقدمہ چونکہ من گھڑت تھا اس لیے  کسی قسم کی ریکورری نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ  جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس نے تشدد کے ذریعے اقبال جرم کرنے کے لیے کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔

"امید ہے اگلی دو تین پیشیوں میں مجید اللہ کو عدالت سے بری کر دیا جائے گا۔"

تاریخ اشاعت 19 اپریل 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ماہ پارہ ذوالقدر کا تعلق میانوالی سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں ماحول، تعلیم، سماجی مسائل خصوصاً خواتین و بچوں کے مسائل شامل ہیں۔

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.