بلوچستان میں زیرکاشت رقبے اور فصلوں کی معلومات دینے کا نظام غیرفعال ہو جانے کا خدشہ

postImg

مطیع اللہ مطیع

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

بلوچستان میں زیرکاشت رقبے اور فصلوں کی معلومات دینے کا نظام غیرفعال ہو جانے کا خدشہ

مطیع اللہ مطیع

loop

انگریزی میں پڑھیں

آوران کے فضل محمد اسسٹنٹ ڈائریکٹر کراپ رپوٹنگ کے عہدے پر تعینات ہیں۔ وہ محکمہ زراعت کے شعبہ توسیع میں بھرتی ہوئے تھے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد ہی ان کاتبادلہ شعبہ کراپ رپورٹنگ (ادارہ زرعی شماریات) میں کر دیا گیا تھا۔

 فضل محمد 2007ء سے ضلع آواران، خضدار اور اب قلات میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تین اضلاع میں 15سال تک فصلوں کی رپورٹنگ کر چکے ہیں مگر کسی ضلع میں انہیں نہ تو کوئی دفتر ملا اور نہ ہی ٹرانسپورٹ۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس 4 کراپ رپورٹر ہیں اور پورے ضلع کے لیے سال کا 25 سے 30 ہزار روپے کا فیول ہے یعنی سو لٹر پٹرول، جو ایک ہی ماہ میں ختم ہو جاتا ہے۔ضلع قلات سات ہزار 654 مربع کلومیٹر رقبےپر محیط ہے۔

"میرا کنبہ دس افراد پر مشتمل ہے۔ اس مہنگائی میں 70 ہزار روپے تنخواہ میں گھر چلانا آسان نہیں۔ مجبوراَ اپنی تنخواہ سے ٹرانسپورٹ کا خرچ برداشت کررہے ہیں۔ موٹر سائیکل پر کراپ رپورٹنگ کریں تب بھی ایک فصل کے جائزے پر20 دن لگ جاتے ہیں۔"

کراپ رپورٹنگ اہم کیوں ہے

ڈائریکٹر ایگریکلچر ریسرچ محمدقاسم خان کاکڑ بتاتے ہیں کہ کراپ رپورٹنگ کا شعبہ پالیسی سازی کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔اسی سے اجناس کی ضرورت، اقسام اور پیداواری رحجانات کا پتا چلتا ہے اور ہر علاقے کی مخصوص زرعی ضروریات ، سبسڈی اور مراعات سب اسی سے طے ہوتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ فصل کا درست ڈیٹا ہی مارکیٹ کے انتظام کی بنیاد بنتا ہے۔ یہی اعدادو شمار زرعی سپلائی چین کے سٹیک ہولڈرز یعنی کاشت کاروں، پروسیسرز، تاجروں اور صارفین تک کو منصوبہ بندی میں مدد دیتے ہیں۔

محمد قاسم خان کے مطابق کراپ رپورٹنگ پالیسی سازی کے ساتھ زرعی وسائل کے تخمیے  و تقسیم، غذائی تحفظ اور مارکیٹ کی منصوبہ بندی (طلب و رسد) کے لیے بہت اہم ہے۔

ڈیزاسٹر مینجمنٹ، زرعی تحقیق، بین الاقوامی تجارت، اقتصادی منصوبہ بندی اور ماحولیاتی تحفظ میں بھی کراپ ڈیٹا کا ناگزیر کردار ہوتا ہے۔

بلوچستان کے شعبہ کراپ رپورٹنگ کے مطابق اس وقت صوبے میں397کراپ رپورٹر اور36 سینئر کراپ رپورٹر کام کر رہے ہیں۔ تنخواہوں کی مد میں اس شعبے کا سالانہ بجٹ40 کروڑ اور آپریشنل بجٹ یعنی فیول کے لیے کل آٹھ لاکھ روپے مختص ہیں۔

محکمہ زراعت کےاعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ سال ربیع سیزن میں پھلوں کی پیداوار 78ہزار 247 ٹن رہی جبکہ خریف میں پیداوار 17لاکھ 12ہزار 576 ٹن تھی۔ پھلوں کے یہ باغات ایک لاکھ 85 ہزار928 ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔

قومی ادارہ شماریات کی زرعی شماریاتی رپورٹ 2010 کے مطابق صوبے کا کل رقبہ 8 کروڑ 58 لاکھ ایکڑ ہے جس میں سے سالانہ تقریباً 28 لاکھ ایکڑ رقبے پر مختلف فصلیں کاشت ہوتی ہیں جبکہ بلوچستان میں ساڑھے 33 لاکھ  ایکڑ رقبے پر جنگلات ہیں۔

قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان کے کاشتکار اور زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنما کاظم خان اچکزئی کہتے ہیں کہ اس علاقے میں کراپ رپورٹنگ کا شعبہ غیر موثر ہے۔زرعی ادارہ شماریات کے ڈیٹا اور فصلوں وباغات کے کاشتہ رقبے میں بہت فرق ہوتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ محکمہ زراعت کے مطابق قلعہ عبداللہ میں تین سو ایکڑ پر چیری کی کاشت ہے جبکہ اصل میں یہاں چیری بہت ہی کم ہے۔مگر سیکرٹری زراعت اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ان کا موقف ہے کہ کراپ رپورٹنگ کے سوا زرعی ڈیٹا کہیں دستیاب نہیں جسے سامنے رکھ کر تقابلی جائزہ لیا جائے۔

فضل محمد کا کہنا ہے کہ کراپ رپورٹر کو کاشت کار ہی کے اعداد وشمار پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن بعض اوقات زمیندار یہ کہہ کر تفصیل بتانے سے ہی انکار کر دیتے ہیں کہ "محکمہ زراعت نے ہمارے لئے کیا کیا ہے؟"

ڈائریکٹر کراپ رپورٹنگ اختر بزدار بتاتے ہیں کہ کراپ رپورٹرز روایتی طریقے سے ڈیٹا جمع کرتے ہیں۔رقبے،کاشت اور پیداوار کی تفصیل زمیندار ہی بتاتے ہیں۔بعض کاشت کار تو رقبہ ہی ٹھیک سے نہیں بتا پاتے۔ بعض ڈرتے ہیں کہ کوئی نیا ٹیکس نہ لگ جائے اور اسی خدشے کے سبب رقبہ کم بتاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ درست رپورٹنگ کے لیے وسائل بھی اہم ہوتے ہیں۔ بارہا حکام کو لکھا گیا ہے کہ کراپ رپورٹنگ کے لیے پٹرول کی رقم بہت کم ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ ہیڈکوارٹر کے پاس ایندھن کا سالانہ بجٹ 8 لاکھ روپے ہے ہے جبکہ فیلڈ میں جانے کے لیے پانچ پرانی گاڑیاں ہیں جو ایک کلو میٹر میں چار لٹر تک پٹرول استعمال کرتی ہیں۔

اختر بزدار کراپ رپورٹنگ کے لیے ریموٹ سینسنگ (سیٹیلائٹ کا استعمال) کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک انہیں کراپ رپورٹر کے فراہم کردہ اعداد وشمار پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جبکہ ریموٹ سینسنگ میں لوکیشن چیک ہو جاتی ہے اور اس کا نتیجہ 95 فیصد تک صحیح ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ریموٹ سینسنگ میں سیٹلائٹ سے ہر ضلع کی تصویر لی جاتی ہے۔ اس تصویر کو پروسیس کر کے کراپ کو الگ الگ رنگ دیاجاتا ہے۔اس طرح رنگوں کے ذریعے گندم چاول وغیرہ کے رقبے کا تعین آسان اور درست ہوتا ہے ۔

ڈائریکٹر کراپ رپورٹنگ کا کہنا ہے کہ ریموٹ سینسنگ کے استعمال کے لیے انہوں نے 2020ء میں ایک تجویز دی تھی جس میں لاگت کا تخمینہ ایک ارب روپے تھا۔پلاننگ ڈیپارٹمنٹ نے اس کا پی سی ون بھی منظور کرلیاتھا۔ لیکن اسے کابینہ سے منظوری نہ مل سکی۔

وہ کہتے ہیں کہ ریموٹ سینسنگ منصوبے کے تحت کوئٹہ میں نیوکلیس لیب تعمیر کی جائے گی۔اس میں جدید سافٹ ویئر اور ایپلی کیشنز وغیرہ استعمال ہوں گے۔ ممکن ہے اس کے لیے ورلڈ بینک سے فنڈ بھی مل جائیں۔

 بلوچستان میں ریموٹ سینسنگ کے حوالے سے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) اور سپارکو کے درمیان تعاون پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔ جبکہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب کراپ رپورٹنگ بتاتے ہیں کہ صوبے میں دو سال سے آن گراؤنڈ کراپ رپورٹنگ کے ساتھ ریموٹ سینسنگ کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان کے سیکرٹری زراعت محمد طیب لہڑی کا ماننا ہےکہ کراپ رپورٹنگ ڈیٹا کے بغیر کوئی زرعی پالیسی اور زرعی ترقیاتی سکیم بنانا ممکن نہیں ہے۔ مگر صوبائی زرعی پالیسی 30-2020ء کی تیاری میں کراپ رپورٹنگ کو شامل نہ کرنا اچھا فیصلہ نہیں تھا جس کی وجہ سے  زرعی اہداف کا حصول بھی مشکل ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اچھی پیداوار کے لئے اچھی سڑک چاہئیے: آواران کے کسان سبزیاں خریدتے ہیں، اگاتے نہیں!

بلوچستان کی آخری زرعی پالیسی اس وقت کے سیکرٹری زراعت قمبر دشتی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی تھی۔اس کے بنیادی مقاصد میں پانی کے کم سے کم استعمال اورزرعی پیداواری صلاحیت میں اضافے کو یقینی بنانا تھا۔

اس پالیسی میں مصنوعات کا معیار اور مارکیٹ میں سپلائی بہتر بنانا، مارکیٹگ کے لیے جدید اور پائیدار مواقع (ہینڈلنگ، سٹوریج، ٹرانسپورٹ اور پروسیسنگ) کی فراہمی کے علاوہ محکمے کی کارکر دگی بڑھانا بھی شامل تھا۔

ماحولیات اور آب و ہوا کے خطرات کاجائزہ لےکر گورننس اور سروسز کی بہتری ، کسانوں کی مارکیٹ تک رسائی ،ان کی کپیسٹی بلڈنگ اور پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری اس پالیسی کے خاص عناصر تھے۔

سیکرٹری زراعت سمجھتے ہیں کہ ماضی میں کراپ رپورٹنگ سروسز کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن تین سال میں اس کی استعداد کار میں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ ربیع میں کراپ رپوٹنگ نے 10اضلاع کے اعداد وشمار جدید طریقے (جی آئی ایس)سے حاصل کیے ہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ موجودہ خریف میں مزید 10اضلاع کا ڈیٹا جدید طریقے سے حاصل کیاجائے گا۔ پانچ برسوں سے کراپ رپورٹنگ سروسز کا کوئی منصوبہ منظور نہیں کیا گیا ۔اس لیے اب ریموٹ سینسنگ منصوبے کی منظوری ضروری ہے۔

تاریخ اشاعت 5 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مطیع اللہ مطیع کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی، خواتین اور بچوں کی حقوق سے متعلق مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.