پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر: احتیاطی تدابیر کی عدم موجودگی میں لوگ دھڑا دھڑ بیمار پڑنے لگے۔

postImg

محمد فیصل

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر: احتیاطی تدابیر کی عدم موجودگی میں لوگ دھڑا دھڑ بیمار پڑنے لگے۔

محمد فیصل

loop

انگریزی میں پڑھیں

عاطف اقبال لاہور میں ایک موبائل فون کمپنی کے مقامی دفتر میں ملازمت کرتے ہیں۔ چند روز پہلے انہیں تھکاوٹ، سردرد اور اور کھانسی کی شکایت ہوئی جسے انہوں نے موسم کی تبدیلی کا اثر سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ حسب سابق اس مرتبہ بھی پیناڈول کی گولی اس کیفیت کا شافی علاج ثابت ہو گی۔ مگر ایسا نہ ہوا اور ناصرف ان کے سردرد نے مستقل صورت اختیار کر لی بلکہ کھانسی میں بھی شدت آ گئی اور سینہ جکڑا ہوا محسوس ہونے لگا۔ جب انہوں ںے اپنے دفتر میں فون کر کے اپنی بیماری اور کام سے غیرحاضری کی اطلاع دی تو ایک ساتھی نے انہیں کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ 'مجھے یقین نہیں تھا کہ کورونا کا وجود اب بھی باقی ہے، اسی لیے میں نے اس مشورے کو غور کے قابل نہ سمجھا۔ تاہم صورت حال اس وقت تشویشناک ہو گئی جب میری والدہ بھی بیمار ہو گئیں اور ان میں بھی وہی علامات ظاہر ہوئیں جو مجھ میں سامنے آئی تھیں۔ چنانچہ ہم نے ایک نجی لیبارٹری میں اپنے کورونا ٹیسٹ کروائے جس کے نتائج آنے پر علم ہوا کہ میں اور میری والدہ کوویڈ-19 میں مبتلا ہیں'۔

عاطف اقبال اور ان کی والدہ نے خود کو گھر تک محدود کر لیا ہے اور اب وہ دونوں ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق اپنا علاج کروا رہے ہیں۔

انہیں یقین ہے کہ انہیں یہ بیماری اپنے دفتر سے لاحق ہوئی جہاں بڑی تعداد میں گاہک آتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سال مارچ اور اپریل میں جب پاکستان میں کورونا کے کیسز بڑھنا شروع ہوئے تو ہر جانب خوف کی فضا تھی۔ اس دوران لاک ڈاؤن سے پہلے اور بعد میں تمام ملازمین اور گاہکوں کو کام کے دوران کورونا کے قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اور ان کے تمام ساتھی وبا کی پہلی لہر میں محفوظ رہے۔

تاہم اگست میں جب کورونا کا زور ٹوٹ گیا تو اس کے بعد گاہکوں اور کمپنی ملازمین میں سے کسی نے قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کی زحمت نہیں کی۔ عاطف اقبال کا کہنا ہے کہ اپنی بیماری نے انہیں اس وبا کی سنگینی کا دوبارہ احساس دلا دیا ہے۔

پاکستان میں کورونا کی پہلی لہر کا زور ٹوٹنے کے بعد احتیاطی تدابیر ترک کر دی گئی تھیں

علی عمران کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ ایک ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں اور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے لاہور میں رہتے ہیں جبکہ ان کا خاندان ملتان کا رہائشی ہے۔ گزشتہ دنوں وہ اپنے اہلخانہ سے ملنے اپنے گھر گئے جہاں ان کے والد نے اپنی طبعیت خراب ہونے کی شکایت کی۔ اس دوران ان کی جسمانی علامات کوویڈ۔19 سے مشابہ تھیں۔ چنانچہ کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے ان کا ٹیسٹ کرایا گیا جس کا نتیجہ مثبت آیا۔

علی عمران بتاتے ہیں کہ ان کے والد کے بعد وہ خود اور ان کی والدہ، بہن، بھائی اور بھابی سمیت ان کے گھرانے کے سات افراد یکے بعد دیگرے کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا کی وبا کے آغاز میں عوامی سطح پر جس طرح اس بیماری کے خطرے کا احساس موجود تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ 'اگر ایسا ہوتا تو وہ خود اور ان کے اہلخانہ بھی احتیاطی تدابیر اختیار کر کے کورونا سے محفوظ رہ سکتے تھے۔ چونکہ بیشتر لوگ ملک میں کورونا کی دوسری لہر کی موجودگی سے لاعلم ہیں اس لیے ان دنوں یہ بیماری خاموشی سے انہیں نشانہ بنا رہی ہے'۔

علی عمران کا خیال ہے کہ اگر اب بھی عوامی مقامات پر کورونا وائرس سے متعلق قواعد و ضوابط  کی سختی سے پابندی کی جائے تو لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس بیماری سے بچ سکتی ہے۔

پاکستان میں کورونا وائرس کے نئے مریضوں کی نشاندہی اور اس کی وجہ سے ہونے والی اموات میں حالیہ اضافے کے بعد ملک میں اس وبا کی دوسری لہر آنے کا 'سرکاری' اعلان ہو چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر واضح طور پر آ چکی ہے اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔

پچھلے ایک ہفتے میں ملک بھر میں کورونا کے 7,767 نئے مصدقہ مریض سامنے آئے ہیں۔ اس دوران کورونا وائرس کی نشاندہی کے لیے روزانہ کیے جانے والے ٹیسٹوں کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بیماری کے مثبت کیسز کی شرح قریباً ساڑھے تین فیصد ہے جو پچھلے ڈھائی ماہ میں سب سے زیادہ ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں کورونا وائرس سے 104 اموات ہو چکی ہیں۔ اگر بیماری کے مصدقہ کیسز کو مدنظر رکھا جائے تو یہ شرح 2.12 فیصد بنتی ہے۔ جون اور جولائی میں جب پاکستان میں وبا اپنے عروج پر تھی تو اس وقت بھی مصدقہ مریضوں میں اموات کی شرح کم و بیش اتنی ہی تھی۔

پاکستان میں گزشتہ روز کورونا کے 1302 نئے مصدقہ مریض سامنے آئے اور 26 اموات ہوئیں۔

صرف چار نومبر کے دن پاکستان میں 1302 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جبکہ 26 مریضوں کا انتقال ہوا۔ اب تک مجموعی طور پر 338,875 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 316,665 صحت یاب ہو گئے اور 6,893 ہلاک ہو گئے۔

پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو رپورٹ ہوا تھا جس کے بعد ملک میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ جون پاکستان میں وبا کے عروج کا مہینہ تھا جب یومیہ چھ ہزار سے زیادہ کیسز اور 100 سے زیادہ اموات رپورٹ ہو رہی تھیں۔ وسط جولائی کے بعد نئے مصدقہ کیسز میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی اور ستمبر میں حالات نسبتاً 'معمول' پر آ گئے جس کے بعد چھ ماہ سے بند تعلیمی اداروں کو بھی کھول دیا گیا۔

کورونا وائرس کی دوسری لہر کیوں آئی؟

سائنس دانوں نے ابتدا ہی میں خبردار کر دیا تھا کہ 'اس وبا کا زور ٹوٹنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب یہ بیماری دوبارہ نہیں ابھرے گی۔ دنیا میں آنے والی دیگر مہلک وباؤں کی طرح کورونا کی دوسری لہر بھی ناگزیر ہے اور ممکنہ طور پر یہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے'۔

طبی ماہرین کا انتباہ درست ثابت ہوا اور اب دنیا کے کئی ممالک اس وبا کی دوسری لہر کی لپیٹ میں ہیں۔ بعض ملکوں میں یہ لہر چند ماہ پہلے شروع ہو گئی تھی اور بعض اب اس کا سامنا کر رہے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

طبی ماہرین کہتے ہیں جہاں جہاں کورونا کی شدت میں کمی آنے کے بعد کاروبار زندگی کھولا گیا وہاں لوگ اپنے معمولات کی جانب واپسی کے لیے بے تاب ہوتے تھے۔ تاہم چونکہ اس بیماری کی ویکسین تاحال بازار میں نہیں آئی اس لیے سماجی اور کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے احتیاطی

تدابیر اختیار کیے جانا بہت ضروری تھا کیونکہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ وائرس ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے جہاں لوگوں نے لوگ احتیاط کا دامن چھوڑا وہاں وہاں کورونا وائرس کو دوبارہ پھیلنے کا موقع مل گیا۔

دنیا بھر میں کوویڈ 19 کی موجودہ صورتحال

عالمی ادارہِ صحت کی سفارشات کے مطابق جن جگہوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر واضح طور سے قابو پایا جا چکا ہے وہاں سماجی، کاروباری، تعلیمی اور دفتری پابندیوں کو یکدم ختم کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اِس ادارے سے وابستہ وبائی امراض کے ماہرین کہتے ہیں کہ حفاظتی اقدامات کا خاتمہ مرحلہ وار ہی ہونا چاہیے اور ہر مرحلے میں یہ دیکھا جانا چاہیے کہ آیا پابندیاں اٹھانے سے وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں۔اس کے علاوہ سماجی پابندیاں نرم کرنے کے بعد بیماری کی نشاندہی کرنے اور اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ٹیسٹوں کی تعداد میں اضافہ کرنا اور مریضوں کے دوسرے لوگوں سے میل جول کا کھوج لگانا لازمی ہے۔ اسی طرح اس دوران جو متاثرین سامنے آئیں انہیں دوسرے لوگوں سے علیحدہ کیا جانا بھی اشد ضروری ہے۔

مئی، جون اور جولائی کے دوران پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے درکار قواعد و ضوابط پر کسی حد تک عملدر آمد کے نتیجے میں اگست میں اس بیماری کے مثبت کیسز اور اموات میں بہت حد تک کمی آ گئی تھی۔ تاہم اس کے ساتھ ہی عوامی مقامات پر قواعد و ضوابط پر عملدرآمد بھی نہ ہونے کے برابر رہ گیا جس کے نتیجے میں ستمبر میں ایک مرتبہ پھر روزانہ 500 سے زیادہ مثبت کیسز سامنے آنے لگے۔ بعض دن ایسے بھی تھے جب اس وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 800 تک بھی پہنچی تاہم اموات کی یومیہ تعداد محدود ہی رہی۔

تاہم اکتوبر میں کرونا وائرس کے مریضوں میں ایک بار پھر تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا۔ جو کسی حد تک ظاہر کرتا ہے کہ کاروباری اور سماجی سرگرمیوں پر پابندیاں ہٹانے اور احتیاطی تدابیر  اختیار کرنے میں غفلت کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

ایک ہفتے میں ملک بھر سے کورونا کے 7,767 نئے مصدقہ مریض سامنے آئے ہیں۔

لاہور کے جناح ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر احسان الحسن اس صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے آغاز میں بھی اتنی ہی تعداد میں مریض سامنے آ رہے ہیں جتنے مارچ اور اپریل میں دیکھے جا رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ تاہم پہلے حکومت نے ممکنہ مریضوں کی جانچ، انہیں قرنطینہ رکھنے اور ان کے علاج کے لیے خاص انتظامات کیے تھے۔ یہ انتظامات اب کہیں دکھائی نہیں دیتے۔

'مارچ 2020 میں جب پاکستان میں کورونا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا تو حکومت نے ہر شہر میں کورونا مراکز قائم کیے جہاں ٹیسٹ کرنے کی مشینیں رکھی گئی تھیں، مریضوں کو قرنطینہ کرنے کا انتظام کیا گیا تھا اور مریضوں کے لیے ہسپتالوں میں خصوصی وارڈز بنائے گئے تھے۔ تاہم جب اس بیماری کی پہلی لہر کا زور ٹوٹا تو یہ سارا انتظام بھی ختم کر دیا گیا نتیجتاً اب جبکہ کورونا کی دوسری لہر آ چکی ہے تو ہمارے پاس اس سے بچاؤ کی کوئی تیاری نہیں ہے'۔

سجاگ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر احسان الحسن کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی جو تعداد بتا رہی ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو بیمار ہونے کے بعد خود ہسپتالوں میں پہنچے ہیں جہاں انہیں کورونا وائرس لاحق ہونے کی تصدیق ہوئی۔ 'اگر روزانہ ٹیسٹوں کی تعداد بڑھا دی جائے تو مصدقہ مریضوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے جتنی سرکاری اعدادوشمار میں دکھائی دیتی ہے'۔

 وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ موسم سرما میں پھیپھڑوں کی بیماریاں زیادہ شدت سے حملہ آور ہوتی ہیں اس لیے کورونا کی دوسری لہر کو پہلی لہر سے زیادہ خطرناک سمجھنا بے جا نہ ہو گا۔'اگر حکومت نے لوگوں کو اس وبا سے بچانے کے انتظامات نہ کیے اور عوام میں اس حوالے سے آگاہی بیدار نہ کی تو اس مرتبہ یہ بیماری پہلے سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پاکستانی کورونا ویکسین کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک میں کورونا کے روزانہ ٹیسٹ کی شرح انتہائی کم ہے

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عالیہ حیدر کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران لاہور میں فرنٹ لائن پر طبی خدمات انجام دینے والے عملے کا حصہ تھیں۔ ان کے خیال میں ایسا ممکن ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کورونا کی حالیہ لہر کا نشانہ بن رہی ہو مگر مناسب تعداد میں ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث ملک میں اس بیماری کی شدت کا درست اندازہ نہیں ہو پا رہا ہو۔ انہوں نے بلوچستان کی صورتحال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے صوبے کے بعض سکولوں میں کورونا ٹیسٹ کرنے کا انتظام کیا ہے جہاں عام لوگوں کے ٹیسٹ لیے جا رہے ہیں مگر اس سے سکول کے بچوں کی صحت کو خطرات ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر عالیہ حیدر کورونا کے بارے میں پائی جانے والی عمومی لاپرواہی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس مرتبہ حکومت نے ڈاکٹروں کے لیے بھی کورونا سے حفاظت کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے اور بیشتر ہسپتالوں میں تاحال ڈاکٹروں کو اس بیماری سے بچاؤ کا سازوسامان مہیا نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر میں لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے حکومت کو کم از کم وہی انتظامات کرنا ہوں گے جو اس بیماری کی ابتدا میں کیے گئے تھے۔ 'اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں بیماری سے بچاؤ کے لیے آگاہی پھیلانا کورونا سے تحفظ کے لیے بنائے گئے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد یقینی بنانا بھی بہت ضروری ہے'۔

پاکستان میں کوویڈ-19 کی ویکسین کی دستیابی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عالیہ حیدر کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کا ٹرائل ابھی دوسرے مرحلے میں ہی ہے۔ 'تیسرے اور چوتھے مرحلے میں ٹیسٹ ہونے کے بعد ہی یہ ویکسین عام لوگوں کے لیے دستیاب ہو پائے گی مگر اس میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں'۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 5 نومبر 2020  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 16 دسمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد فیصل صحافی، محقق اور مترجم ہیں اور ملک کے نمایاں اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.