جناح ہسپتال لاہور کا کورونا وارڈ مختلف اقسام کی بدبوؤں سے بھرا ہوا ہے۔ ایک طرف فرش کی صفائی کے لئے تیز بو والے بلیچ کا استعمال کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ٹائلٹ سے ایسی بو آ رہی ہے کہ اس کے آس پاس کسی کا کھڑا ہونا بھی دشوار ہے۔
اس بدبودار وارڈ کے ایک بستر پر مسعود حیات لیٹے ہوئے ہیں۔ انھیں 27 دسمبر 2020 کو ذیابیطس کا دورہ پڑنے کی وجہ سے جناح ہسپتال لایا گیا جہاں انھیں معلوم ہوا کہ وہ کورونا وبا کی زد میں بھی آ گئے ہیں۔ وہ اس دن سے اس وارڈ میں موجود ہیں اگرچہ یہاں کے حالات کسی صحت مند شخص کے لئے بھی سازگار نہیں۔
مسعود حیات ــ جن کی عمر تقریباً 60 سال معلوم ہوتی ہے -- ایک پتلا سا کمبل اوڑھے سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔ کپڑوں کی کئی تہوں میں ملبوس انکی اہلیہ ان کے بستر کے ساتھ ہی ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’پورے وارڈ میں ایک بھی ہیٹر نہیں چل رہا جس کی وجہ سے یہاں سردی نا قابلِ برداشت ہے‘۔
اپنے شوہر کے ذریعۂ معاش اور اپنی رہائش کی تفصیلات کو ظاہر نہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ وارڈ میں مریضوں کو تکیے تک میسر نہیں ہیں۔ ’یہاں مریضوں کو صرف ایک بستر اور چند ادویات فراہم کی جا رہی ہیں‘۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وارڈ میں ڈاکٹر شاذ و نادر ہی چکر لگاتے ہیں۔ نرسیں بھی تھوڑے وقت کے لئے دوائی دینے آتی ہیں اور پھر گھنٹوں تک غائب رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’صرف ان مریضوں کی باقاعدہ دیکھ بھال ہوتی ہے جو نرسوں کو پانی کے گلاس لانے جیسے معمولی کام کے لئے بھی روزانہ پیسے دیتے ہیں۔ جیسے جیسے مریضوں کی ضروریات بڑھتی ہیں ویسے ہی ان پیسوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے‘۔
مسعود حیات کے بائیں پاؤں پہ ایک رستا ہوا زخم بھی ہے جس کا علاج نہیں کیا جا رہا لہٰذا وہ ان کی بیوی کو وقتاً فوقتاً صاف کرنا پڑتا ہے۔ ان کی بیوی کے مطابق وہ نرسوں کو بارہا درخواست کر چکی ہیں مگر وہ اس زخم کو دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
انھیں یہ بھی شکایت ہے کہ ہسپتال انتظامیہ وارڈ میں صفائی پر بالکل دھیان نہیں دیتی۔ ایک دفعہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے شوہر کا بستر پر پیشاب نکل گیا تو ان کی گندی بیڈ شیٹ ’چار دن تک تبدیل نہیں کی گئی‘۔ ان کے مطابق باتھ روم بھی گندگی سے بھرے ہونے کے باوجود صاف نہیں کئے جاتے حالانکہ اس کے بارے میں وہ صفائی کے عملے کو کئی بار بتا چکی ہیں اور اکثر وہاں پانی بھی دستیاب نہیں ہوتا۔
اس ساری پریشانی کے باوجود انھیں اپنے شوہر کی ادویات اور رپورٹیں حاصل کرنے کے لئے مزید جسمانی مشقت کر کے درجنوں سیڑھیاں اترنا اور چڑھنا پڑتی ہیں کیونکہ کورونا وارڈ ہسپتال کی چوتھی منزل پر ہے جبکہ فارمیسی اور لیبارٹری پہلی مزل پر ہیں مگر ہسپتال کی لفٹ اکثر بند رہتی ہے۔
انہیں یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ وہ خود کہیں کورونا وائرس کا شکار نہ ہو جائیں کیونکہ اس سے بچنے کے لئے درکار احتیاطی تدابیر پر ہسپتال انتظامیہ بالکل عمل نہیں کرواتی۔
مسعود حیات کی بیوی کی طرح اس وارڈ میں داخل ایک اور مریض کی شریکِ حیات ریحانہ بی بی کی بھی یہی شکایات ہیں۔
وہ اپنے شوہر کو ضلع قصور کی تحصیل پتوکی سے اس وقت لے کر لاہور آئیں جب انھیں فالج کا دورہ پڑا اور ان کے جسم کا کچھ حصہ مفلوج ہو گیا۔ جناح ہسپتال لاہور لانے پر یہ معلوم ہوا کہ وہ کورونا وائرس کا بھی شکار ہو چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے شوہر کو کورونا وارڈ میں آئے پانچ دن ہو چکے ہیں مگر اس دوران صرف دو مرتبہ ڈاکٹر ان کا علاج کرنے آئے ہیں‘۔
چونکہ ریحانہ بی بی لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں لہٰذا ان کے لئے رپورٹوں کو دیکھ کر یہ جاننا مشکل ہے کہ ان کے شوہر کو کس علاج کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے شوہر کے ’فالج کے مرض کا علاج ہو رہا ہے یا کورونا کا‘۔
وارڈ میں موجود باقی مریض بھی ڈاکٹروں کی عدم موجودگی سے پریشان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر ایک شفٹ کے دوران صرف دس مریضوں کو چیک کرتا ہے لہٰذا باقی مریضوں کو اگلی شفٹ میں ایک نئے ڈاکٹر کی آمد کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ان مریضوں میں محمد عمران بھی ہیں جو جناح ہسپتال کے انتطامی سٹاف کا حصہ ہیں۔ ان کے مطابق ڈاکٹر علاج میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے اور اکثر مریضوں کے معائنے کے دوران نوٹس تک نہیں لیتے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’ڈاکٹروں کو مریضوں کے معائنے کے دوران بہت جلدی لگی ہوتی ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ علاج کرنے پر مجبور ہیں‘۔
محمد عمران کو ہسپتال میں ڈیوٹی کے دوران کورونا وائرس ہوا اور وہ 6 جنوری 2021 کو کورونا وارڈ میں داخل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ وائرس کا شکار اس لئے ہوئے کہ ہسپتال میں نہ تو احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جا رہا ہے اور نہ ہی سٹاف کے پاس کورونا سے بچنے کے لئے حفاظتی سامان موجود ہے۔
ہسپتال میں صرف طبی عملے کے پاس حفاظتی سامان موجود ہے جسے وہ استعمال کرتے دکھائی بھی دیتا ہے۔ انتظامی افسران اور صفائی کا عملہ ــ اور مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے ان کے رشتہ دار ۔۔ سبھی ماسک کے بغیر ہسپتال میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔
محمد عمران یہ بھی کہتے ہیں کہ وارڈ میں سہولیات یا تو اہم شخصیات کو دی جاتی ہیں یا ان مریضوں کو جن کی حالت بہت تشویش ناک ہو چکی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس ہسپتال میں ایک دہائی سے زیادہ کام کرنے کے باوجود میرے علاج کو نظر انداز کیا جا رہا ہے‘۔
لاہور کے دوسرے ہسپتالوں میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔
67 سالہ محمد ابرار ایک سرکاری ملازم ہیں۔ انھیں بات کرنے کے دوران سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔ وہ 21 دسمبر 2020 کو میو ہسپتال کے نارتھ میڈیکل وارڈ میں داخل ہوئے۔ ان کے بقول انہیں معلوم ہے کہ کورونا وائرس ان کی عمر کے افراد کے لئے بہت خطرناک ہوتا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ ’ہسپتال کے حالات میرے لئے کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں‘۔
محمد ابرار کا بستر ایک دیوار کے ساتھ لگا ہوا ہے اور ان کے کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں ہے۔ ان کو صرف کمرے کے باہر سے گزرتے لوگوں کے قدموں کی چاپ اور ان کی بات چیت کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ اس نہ ختم ہونے والی خاموشی کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’میں بھول گیا ہوں کہ آج کیا دن اور تاریخ ہے میں دن اور رات کی تفریق بھی نہیں کر پاتا‘۔
وہ اس ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں بھی ایک ہفتہ گزار چکے ہیں جہاں وہ ہر ایک دو گھنٹوں کے بعد اپنے ارد گرد کسی شخص کو مرتے دیکھا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان تمام اموات میں مشترکہ پہلو یہ تھا کہ مرنے والا ہسپتال میں اکیلا ہوا کرتا تھا۔ میرے ساتھ بھی کوئی عزیز یا رشتہ دار نہیں تھا اس لئے میں بھی روز اپنی موت کا انتظار کرتا تھا‘۔
محمد ابرار کہتے ہیں کہ نرسوں کی عدم موجودگی میں مریضوں کے عزیز و اقارب کو ان کی تیمارداری کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ ان کے مطابق ’نرسیں پہلے تو مریضوں کے پاس آتی ہی نہیں اور جب آتی بھی ہیں تو اپنی مرضی کے مطابق ہی مریضوں کو دیکھتی ہیں‘۔
انہیں دنوں میں سروسز ہسپتال لاہور میں ایک جمعدار حفاظتی کٹ تو دور ماسک بھی پہنے بغیر اپنے کام میں مشغول ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’ہسپتال نے ہمیں حفاظتی کپڑے تو دیئے ہیں مگر میں اس لئے نہیں پہنتا کیونکہ یہ کپڑے اور ماسک پہن کر مجھے گھٹن محسوس ہوتی ہے‘۔ یہ کہہ کر وہ کچھ سکیورٹی گارڈوں کے ساتھ گپ شپ کرنے لگتا ہے جنہوں نے ماسک کے علاوہ کوئی حفاظتی سامان نہیں پہن رکھا۔
مفلوج نظامِ صحت
شماریات کے وفاقی ادارے پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس نے حال ہی میں ایک سروے شائع کیا ہے جس میں کورونا وبا کی وجہ سے ملک میں پیش آنے والے سماجی اور معاشی اثرات کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ یہ سروے اکتوبر 2020 سے نومبر 2020 کے دوران ملک بھر میں 6000 گھرانوں سے معلومات اکٹھی کر کے ترتیب دیا گیا ہے۔
اس سروے کے مطابق 17 فیصد گھرانوں کو کورونا وبا کے دوران سرکاری طبی سہولیات اس لئے نہیں مل سکیں کہ طبی عملہ کورونا وبا کا شکار ہونے سے ڈر رہا تھا۔ چھ فیصد گھرانے ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور شعبے بند ہونے کی وجہ سے اور چار فیصد احتیاطی تدابیر کے نہ ہونے کی وجہ سے طبی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں کر پائے۔
عملی طور پر طبی شعبے کی صورتحال اس سروے میں دی گئی تفصیلات سے بھی کہیں زیادہ ابتر ہے۔
طبی عملے میں شامل لوگوں کا کہنا ہے کہ سہولیات کی کمی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ حکومت نے معیار پر مقدار کو ترجیح دے رکھی ہے۔ جناح ہسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر کے مطابق ’ہسپتالوں کی توجہ صرف اس بات پر مرکوز ہے کہ وہ یہ دکھا سکیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کا علاج کر رہے ہیں اور اس کے لئے انھوں نے بڑے بڑے کورونا سنٹر قائم کر دیئے ہیں اور ڈھیروں ساز و سامان اکٹھا کر لیا ہے‘۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال کورونا کے علاج کی بجائے اس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ان کے مطابق طبی عملہ مریضوں کے پاس اس لئے نہیں جاتا کیونکہ وہ وائرس کے پھیلاؤ سے خوف زدہ ہو چکا ہے۔
اس خوف کی وجہ سے یہ عملہ ٹیسٹ کرنے کی مشینری بھی مریضوں تک لانے سے ہچکچاتا ہے لیکن جب مریضوں کو ہسپتالوں میں پر ہجوم راہداریوں سے گزر کر ایسی لیبارٹریوں میں جانا پڑتا ہے جہاں کئی اور لوگ موجود ہوتے ہیں تو اس سے وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
ان ڈاکٹر کا یہ بھی کہنا ہے کہ خاص طور پر جناح ہسپتال میں علاج کی سہولیات میں خامیوں کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کورونا وارڈ اور آئی سی یو میں عملے کی تعداد بہت کم ہے اور کورونا کے لئے مختص کردہ سہولیات کا انتظامی طریقہ کار ناقص ہے۔
ان کے مطابق جناح ہسپتال میں کورونا وائرس کے علاج کی نگرانی کی ذمہ داری مختلف شعبوں کے پانچ ڈاکٹروں کو دی گئی ہے مگر ان میں سے کچھ اس کام میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق ’ان ڈاکٹروں میں یکساں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے سارا نظام ابتری کا شکار ہے‘۔
جناح ہسپتال کے کورونا آئی سی یو کے سربراہ اور نگرانی کے لئے بنائی گئی پانچ ڈاکٹروں کی ٹیم کے رکن پروفیسر اشرف ضیاء ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے ہسپتال میں ادویات اور علاج کی فراہمی اور احتیاط کے طریقۂ کار اس طرح بنائے گئے ہیں کہ مریضوں کو بر وقت تمام سہولیات مل سکیں۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جناح ہسپتال میں کورونا وارڈ میں 196 اور کورونا آئی سی یو میں 25 مریضوں کی جگہ موجود ہے اور ضرورت پڑنے پر ان سہولتوں کو بڑھا کر مزید مریضوں کو بھی داخل کیا جا سکتا ہے۔ یوں ان کے مطابق ہسپتال محدود وسائل کے اندر بہترین سہولیات فراہم کر رہا ہے۔
ان کے بقول سہولیات میں مسائل صرف اس لئے نظر آتے ہیں کہ مریضوں اور ان کے عزیز و اقارب کی توقعات بہت بلند ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مریض اور ان کے لواحقین یہ توقع کرتے ہیں کہ انھیں نجی ہسپتالوں جیسی سہولیات ملیں گی مگر سرکاری ہسپتال میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے‘۔
اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں ایک ڈاکٹر ایک وقت میں دس مریضوں کا علاج کرتا ہے جو کہ ایک خاصا دشوار کام ہے اور نرسیں بھی ایک وقت میں کئی کئی مریضوں کا خیال رکھتی ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’ہر مریض یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ایک نرس ہر وقت اس کے ساتھ موجود ہو جو کہ نا ممکن ہے‘۔
کمزور کڑی
پاکستان میں کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران اس سے بچاؤ کے لئے فوری طور پر ایک ایسی حکمتِ عملی کی ضرورت محسوس ہوئی جو کہ طبی نظام کو مفلوج ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکے۔ اس کے لئے وفاقی حکومت نے ایک مرکزی حکمتِ عملی ترتیب دی۔ جس کے تحت وفاقی محکمہ صحت کی زیرِ نگرانی نیشنل کمانڈ کنٹرول سنٹر قائم کیا گیا جس کا کام تمام معلومات کو ایک جگہ اکٹھا کرنا اور پھر اس کے مطابق صوبائی اور مقامی سطحوں پر ہدایات اور ساز و سامان جاری کرنا ہے۔ مگر اس انتظام کے نتیجے میں مختلف سطحوں پر کام کرنے والے حکام اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے رہتے ہیں۔
لیکن حکومتی حکمتِ عملی کا سب سے پریشان کن پہلو ہسپتالوں کا کورونا سے متعلق حفاظتی قواعد و ضوابط پر عمل پیرا نہ ہونا ہے۔
ڈاکٹر محمود شوکت نامی ایک سرجن کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کے سربراہ ہیں جو حکومتِ پنجاب نے طبی اداروں میں کورونا وبا سے متعلق مشاورت کے لئے قائم کیا ہے۔ اسی گروپ کے قیام کا مقصد یہ بھی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں اور نرسوں کو کورونا سے متعلق تربیت دی جائے، کورونا کے علاج کی سہولیات کا جائزہ لیا جائے اور صوبہ بھر میں کورونا کے علاج کی حکمتِ عملی بنائی جائے۔
ڈاکٹر محمود شوکت کہتے ہیں کہ ایک ایسے نظام کو چلانے کے لئے جس میں وفاقی صوبائی اور مقامی سطح کے ادارے شامل ہوں ضروری ہوتا ہے کہ اس کا ہر حصہ اپنے طور پر ٹھیک کام کرے۔ ان کے مطابق ’اگر اس پورے نظام میں ایک کڑی بھی کمزور ہو تو پورا نظام ہی بیٹھ جاتا ہے‘۔
پنجاب میں کمزور کڑیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے کورونا کے مریضوں کے ٹیسٹوں اور علاج کے لئے 14 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے 2.5 ارب روپے اضافی طور پر بھی رکھے ہوئے ہیں تا کہ علاج کی سہولیات فراہم کرنے میں کسی بھی ادارے کو دشواری نہ ہو۔ ان کے مطابق ’پنجاب میں کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ہر ہسپتال کو اس رقم سے دس کڑور روپے فراہم کئے گئے ہیں‘۔
مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام اضافی رقم ابھی تک استعمال ہی نہیں کی گئی۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کا گروپ مشورہ تو دے سکتا ہے اور ہسپتالوں کو حکمتِ عملی بھی بنا کر دے سکتا ہے کہ وہ اس پیسے کو کیسے استعمال کریں مگر وہ کسی فیصلے پر عمل درآمد نہیں کروا سکتا۔
وفاقی وزارتِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رانا محمد صفدر بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت اگر فیصلے لیتی بھی ہے تو ان پر عمل درآمد نہیں کر سکتی کیونکہ یہ اختیار صرف صوبائی اور مقامی حکومتوں کو حاصل ہے۔
ان کے مطابق ان کی وزارت کا بنیادی مقصد نیشنل کمانڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے ساتھ مل کر روزانہ کی بنیاد پر کورونا کے متعلق سہولیات کا جائزہ لینا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے کورونا سہولیات سے متعلق شکایات درج کرنے کے لئے ایک ڈیجیٹل نظام بھی قائم کیا ہے۔ اگرچہ یہ ساری شکایتیں بالآخر صوبائی حکومتوں کو ہی بھیج دی جاتی ہیں۔ ان شکایات کو دور کرنے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو ’اس کا مطلب ہے کہ متعلقہ صوبے کے طبی نظام میں مسائل ہیں‘۔
مریضوں اور ان کے عزیز و اقارب کی شکایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم پنجاب میں تو یہ مسائل شدید نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ7 فروری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 9 ستمبر 2021