پیاس جب بڑھتی ہے تو ڈر لگتا ہے پانی سے: حیدرآباد میں آلودہ پانی کے استعمال سے بیماریوں اور اموات میں اضافہ۔

postImg

رحمت تونیو

postImg

پیاس جب بڑھتی ہے تو ڈر لگتا ہے پانی سے: حیدرآباد میں آلودہ پانی کے استعمال سے بیماریوں اور اموات میں اضافہ۔

رحمت تونیو

پچھلے چار سال میں اسد پالاری کے تین بچے فوت ہو چکے ہیں۔ ان کی عمریں سات، پانچ اور چار سال تھیں-

اسد پالاری محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ان کی عمر 37 سال کے لگ بھگ ہے اور وہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد کے مضافات میں سپر ہائی وے نامی شاہراہ پر واقع کچی بستی بڈھو پالاری گوٹھ میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے بچے آلودہ پانی کے استعمال سے لگنے والی بیماریوں کا شکار ہوئے۔ 

اسی بستی کے رہنے 30 سالہ غفار پالاری کی چار سالہ بیٹی اِس سال جنوری میں اسہال میں مبتلا رہنے کے بعد فوت ہو گئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کی بیماری کا سبب بھی آلودہ پانی کا استعمال تھا۔ گوٹھ محمد بخش شورو اور لالو پالاری گوٹھ جیسے کئی قریبی دیہات کے بچوں میں بھی اسہال، ہیضہ، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں عام ہیں جن کے بارے میں مقامی ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ یہ سب آلودہ پانی پینے سے لاحق ہوتی ہیں۔

حیدرآباد کے سرکاری شفا خانے، سول ہسپتال، میں کام کرنے والے ڈاکٹر ہیم راج کہتے ہیں کہ ان بیماریوں سے ہونے والی اموات اس قدر عام ہیں کہ مقامی صحافی اب اسے کوئی خبر ہی نہیں سمجھتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ روزانہ ہیپاٹائٹس کے 15 سے 20 مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں "جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہوتی ہے"۔ 

لالو پالاری گوٹھ کے رہائشی اور مزدروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم، تعمیراتی مزدور ستھ، کے مقامی رہنما عبدالشکور ان حالات کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں کو جو پانی فراہم کیا جاتا ہے وہ اتنا گندہ ہے کہ "شاید نہانے کے لیے بھی موزوں نہیں ہے"۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی بستی اور اس کے قریبی دیہات میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت محنت مزدوری کرتی ہے۔ انہیں نہ تو صاف پانی تک رسائی ہے اور نہ ہی ان کے پاس علاج معالجے کے لیے کوئی مالی وسائل ہیں۔ اس لیے ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے "قابلِ علاج بیماریوں کا شکار لوگ بھی جانبر نہیں ہو پاتے"۔

گزشتہ چند مہینوں میں ہونے والی بچوں کی کم از کم چھ اموات کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہ سب ایسے ہی قابلِ علاج امراض میں مبتلا تھے۔ 

زہرآلود نہری نظام

اقوام متحدہ میں بچوں کی بہبود پر کام کرنے والے ادارے یونیسف کے ایک تازہ ترین جائزے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر سال پانچ برس سے کم عمر کے 53 ہزار بچے اسہال میں مبتلا ہو کر انتقال کر جاتے ہیں۔ اس جائزے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہیں یہ بیماری آلودہ پانی پینے سے لگتی ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی گزشتہ سال تیار کردہ ایک رپورٹ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان میں ہونے والی 30 فیصد بیماریوں اور 40 فیصد اموات کا سبب آلودہ پانی ہے۔ اس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ہر پانچواں پاکستانی اسہال میں مبتلا ہے جو کہ بچوں میں موت کا سبب بننے والی سب سے بڑی بیماری ہے۔

حیدرآباد میں ایسی بیماریوں اور اموات کی شرح اور بھی بلند ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ یہاں استعمال کیے جانے والے پانی کا معیار ملک کے کئی دیگر حصوں کی نسبت بہت ناقص ہے۔

یہاں کی 17 لاکھ سے زیادہ آبادی کو 30 ہزار کلومیٹر طویل پائپ لائنوں کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے جسے صاف کرنے کے لیے حکومت نے پانچ بڑے اور تقریباً 50 چھوٹے فلٹریشن پلانٹ لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے متعدد پلانٹ خراب پڑے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حیدرآباد-جام شورو روڈ پر واقع سب سے بڑا سرکاری فلٹریشن پلانٹ چل تو رہا ہے لیکن اس سے نکلنے والا پانی پوری طرح صاف نہیں ہوتا۔ 

سپر ہائی وے کے ساتھ ساتھ واقع دیہات کے مکین یہی نیم صاف پانی پینے پر مجبور ہیں۔ 

پاکستان میں دریائی پانی کی تقسیم کے ذمہ دار ادارے، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (اِرسا)، کے سابق رکن مظہر علی شاہ  کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں پانی کے مضرِ صحت ہونے کی بنیادی وجہ دریائے سندھ کی آلودگی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دریا کا پانی گلگت-بلتستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب سے ہوتا ہوا جب گڈو بیراج کے مقام پر صوبہ سندھ میں پہنچتا ہے تو وہ اس قدر آلودہ ہو چکا ہوتا ہے کہ، عالمی ادارہ صحت کے قائم کردہ معیار کے مطابق، وہ انسانی استعمال کے قابل نہیں رہتا۔

حیدرآباد کے قریب واقع کوٹری بیراج پر پہنچنے سے پہلے اس دریا کا پانی اور بھی آلودہ ہو جاتا ہے کیونکہ،  مظہر علی شاہ کے مطابق، اس وقت تک اس میں صوبہ سندھ کے شہروں، فیکٹریوں اور بجلی گھروں سے نکلنے والا گندا پانی بھی بھاری مقدار میں شامل ہو چکا ہوتا ہے۔ 

دریائے سندھ کی طرح کوٹری بیراج سے نکلنے والی اور حیدرآباد کے شمال میں بہنے والی نہر پھلیلی کینال بھی شہر کے پانی کی آلودگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سات سو کلومیٹر سے زیادہ طویل اس نہر کا پانی ناصرف زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ اسے شہری آبادی کو پینے کے لیے بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ اس پانی کے معیار پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر اسماعیل کنبھر کہتے ہیں کہ حیدرآباد کے سینکڑوں کارخانوں کا آلودہ فضلہ اس نہر میں ڈالا جا رہا ہے جس میں بیٹریاں بنانے والی فیکٹریوں سے نکلنے والا زہریلا مواد بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق ہسپتالوں سے نکلنے والا کچرا بھی اسی نہر میں پھینکا جا رہا ہے۔

نتیجتاً، ان کے مطابق، "اچھی طرح صاف کیے بغیر یہ پانی ناصرف پینے کے قابل نہیں ہوتا بلکہ اس کا زرعی مقاصد کے لیے استعمال بھی انسانی صحت کے لیے بہت سے بالواسطہ خطرات پیدا کرتا ہے"۔

حکومت سندھ کے قائم کردہ واٹر کمیشن نے دریائی اور نہری پانی کی اس شدید آلودگی کو تسلیم کیا ہے۔ کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چار سو 14 مقامات پر شہروں اور کارخانوں کا استعمال شدہ گندا پانی دریائے سندھ اور اس سے نکلنے والی نہروں میں ڈالا جارہا ہے۔ 

صاف پانی کہاں سے آئے گا؟

گوٹھ محمد بخش شورو کے رہائشی اٹھارہ سالہ محمد حسن روزانہ دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ایک قریبی گاؤں میں جاتے ہیں جہاں وہ ہاتھ سے چلائے جانے والے ایک پمپ سے پینے کا پانی بھر کر اپنے گھر لاتے ہیں۔ حیدر آباد کے دیہی علاقوں کے رہنے والے بہت سے لوگ انہی کی طرح اپنے گردونواح میں واقع ٹیوب ویلوں اور ہاتھ سے چلنے والے پمپوں کا پانی استعمال کرتے ہیں۔

لیکن اسماعیل کنبھر خبردار کرتے ہیں کہ زمین سے نکالا جانے والا یہ پانی بھی انسانی صحت کے لیے مضر ہے کیونکہ  نہری اور دریائی پانی کی آلودگی زیرزمین پانی میں بھی شامل ہو چکی ہے۔ آبی وسائل پر تحقیق کرنے والے سرکاری ادارے، پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز، کی 2021 میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ ان کے اس خدشے کی تصدیق کرتی ہے۔ اس کے مطابق حیدرآباد اور اس کے مضافات میں 80 فیصد زیر زمین پانی آلودہ ہے۔

اس لیے اسماعیل کنبھر کے نزدیک اس مسئلے کا واحد حل معیاری اور طویل مدت تک کارآمد رہنے والے پانی صاف کرنے کے پلانٹوں کی تنصیب کرنا ہے۔  

تاہم سندھ کے صوبائی محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے سیکرٹری سعید اعوان کا دعویٰ ہے کہ یہ کام پہلے ہی کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں فراہم کیے جانے والے پانی کو صاف کرنے اور انسانی استعمال کے قابل بنانے کے لیے نئے واٹر فلٹریشن اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ  لگائے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہروں میں ڈالے جانے والے گندے پانی کو صاف کرنے کے لیے 99 نئے پلانٹ نصب کیے جا چکے ہیں جبکہ اس سال مزید ایک سو 38 پلانٹ بھی نصب کر دیے جائیں گے۔

لیکن سپر ہائی وے کے ساتھ واقع بستیوں کے رہنے والے ابھی تک پانی کے ناقص معیار کے شاکی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان نئی تنصیبات کے باوجود وہ وہی گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں جو وہ پچھلے سالوں سے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔

تاریخ اشاعت 22 مارچ 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رحمت تونیو نے سندھ مدرستہ الاسلام کراچی یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کیا ہے اور سندھ کے سیاسی سماجی اور ماحولیاتی معاملات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

thumb
سٹوری

پانی کی تقسیم پر آگ کا کھیل: ارسا آرڈیننس، سندھ، پنجاب کی تکرار کو جھگڑے میں بدل سکتا ہے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

وادی تیراہ میں کھاد کی ترسیل اور امن و امان کے درمیان کیا تعلق ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

پاکستان کے دریاؤں کے 'نئے مالک' سے ملیے! ارسا ایکٹ 1992ء اور ارسا آرڈیننس 2024ء کا ایک تقابلی جائزہ

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ، کلیم اللہ

آزاد کشمیر: مظفر آباد کی بیکری جہاں خواتین کا راج ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.