آواران کے چار سال سے بند پڑے کمیونٹی سکول: لڑکیوں کا تعلیمی مستقبل غارت ہو گیا

postImg

شبیر رخشانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

آواران کے چار سال سے بند پڑے کمیونٹی سکول: لڑکیوں کا تعلیمی مستقبل غارت ہو گیا

شبیر رخشانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

گیارہ سالہ عابد تین سال پہلے دوسری جماعت کے طالب علم تھے لیکن اب ان کا سکول نہیں رہا اور وہ بھیڑ بکریاں چراتے ہیں۔

عابد کا تعلق بلوچستان کے ضلع آوران سے ہے جہاں ان کا گھرانہ تحصیل جھاؤ کے گاؤں موسیٰ گوٹھ میں رہتا ہے۔ عابد اور ان کے دو بڑے بہن بھائی مقامی کمیونٹی سکول میں تعلیم حاصل کرتے تھے جو 2019 میں بند ہو گیا تھا۔ اب ان کے بھائی ڈرائیونگ کرتے ہیں اور بہن گھر کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں۔

عابد کا سکول قریبی گاؤں بکر سرمستانی گوٹھ میں واقع تھا جس کی عمارت اب ایک تعمیراتی کمپنی کے زیر استعمال ہے جس نے سکول کے ایک کمرے کو سٹور اور دوسرے کو باورچی خانہ بنا رکھا ہے۔

یہاں طلبہ کے زیراستعمال رہنے والے ڈیسک اور بینچ کھلے احاطے میں پڑے گل سڑ رہے ہیں۔

موسیٰ گوٹھ کے نادر علی اور بکر سرمستانی گوٹھ کے دل مراد تین سال پہلے تک اس سکول میں پڑھاتے رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس سکول میں قریبی دیہات کیلکوری، غریب آباد، پیردان، صالح بزنجو گوٹھ، چاکر گوٹھ، موصل پیر اور مامو گوٹھ کے طلبہ بھی پڑھنے آتے تھے۔مجموعی طور پر یہاں زیرتعلیم 56 طلبہ میں لڑکیوں کی اکثریت تھی۔ سکول بند ہونے سے ان تمام بچوں کی تعلیم چھوٹ گئی ہے۔

بکر سرمستانی گوٹھ کا یہ سکول نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) اور پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ (پی پی اے ایف) کے مشترکہ منصوبے کے تحت 2010ء میں قائم کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں بلوچستان کے ضلع آواران اور پنجگور میں مجموعی طور پر 10 سکول قائم کیے گئے جنہیں کمیونٹی سکولوں کا نام دیا گیا۔ ان میں سات آواران کے علاقوں سری مچی، لعل بازار، سرمستانی گوٹھ، موسیٰ بازار، سستگان، گدّور گوٹھ اور مروکی میں کھولے گئے تھے۔

ضلع کیچ میں این آر ایس پی کے علاقائی دفتر میں سینئر پروگرام آفیسر سعید عالم نے بتایا کہ کمیونٹی سکولوں کا منصوبہ 2015ء میں ختم ہو گیا تھا۔ اسی سال پاورٹی ایلیویشن فنڈ نے 'غربت میں کمی لانے کا پروگرام' شروع کیا جس میں فروغ تعلیم کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ اس منصوبے کے تحت سوشل انٹرپرائز سکول قائم کیے گئے جن میں آواران کے ساتوں کمیونٹی سکولوں کو بھی شامل کر لیا گیا اور اس طرح یہ سکول 2019 تک قائم رہے۔

سعید عالم بتاتے ہیں کہ اس منصوبے کا ماڈل بنگلہ دیش سے لیا گیا تھا۔ اس کے تحت اساتذہ کو اپنی مدد آپ کے تحت سکول چلانے کی تربیت دی گئی لیکن وہ چلا نہ پائے اور یوں ابتدائی چار سالہ مدت مکمل ہونے پر بند ہو گئے۔

آواران میں این آر ایس پی کے پروگرام آفیسر عبدالغنی میروانی کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ ختم ہونے  سے قبل فروری 2019ء میں انہوں نے ادارے کے دیگر لوگوں کے ساتھ آواران کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر مسعود حلیم سے ملاقات کی اور انہیں تحریری طور پر آگاہ کیا کہ تعلیمی منصوبہ ختم ہو رہا ہے اس لیے محکمہ تعلیم ان سکولوں کو اپنے ذمے لے۔ مگر وہ ایسا نہ کر سکے۔

اس حوالے سے مسعود حلیم کا کہنا ہے کہ این آر ایس پی ٹیم ان کے پاس آئی تھی مگر اس کے پاس صرف سکول کی محکمہ تعلیم کو حوالگی کی درخواست پر مبنی لیٹر تھا۔ مجاز حکام کے تحریری احکامات کے بغیر محکمہ سکول کی ذمہ داری نہیں لیتا۔

این آر ایس پی کے مطابق ساتوں کمیونٹی سکولوں میں 364 طلبہ نے داخلہ لیا تھا جن میں 198 لڑکیاں تھیں جبکہ نو سوشل انٹرپرائز سکولوں میں 446 طلبہ و طالبات زیرتعلیم تھے۔

گدّور گوٹھ کے بند ہو جانے والے سکول کے استاد محمد اسلم بتاتے ہیں کہ ان سکولوں کی انتظامیہ میں مقامی لوگوں کو بھی شامل کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی استاد غیرحاضر رہتا تو لوگوں کی شکایت پر اسے نوکری سے نکال کر دوسرے استاد کو بھرتی کیا جاتا تھا۔ ہر استاد کو 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ اس منصوبے کے تحت اساتذہ کو تربیت دینے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔

اسلم کے مطابق گدّور گوٹھ کے سکول میں 50 بچے اور بچیاں زیرتعلیم تھے جن میں سے صرف سات کو ہی پرائمری تعلیم مکمل کرنے کا موقع مل سکا۔

نواحی گاؤں شاہی تریپ کے حنیف بھی اسی سکول میں پڑھتے تھے جو بند ہوا تو انہیں مزید تعلیمی مواقع دوبارہ میسر نہ آئے اور اب وہ محنت مزدوری کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک دن ان کے اساتذہ کو این آر ایس پی کی طرف سے زبانی اطلاع ملی کہ فنڈ ختم ہو گئے ہیں اور سکول کو مقامی لوگ چلائیں گے۔ لیکن لوگوں نے یہ ذمہ داری لینے سے معذوری ظاہر کر دی۔

سعید عالم کا کہنا ہے کہ کمیونٹی سکولوں کے منصوبے سے قبل وہ بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن (بی ای ایف) کے 20 سکولوں کو چلا رہے تھے۔ 2016ء میں یہ سکول بی ای ایف کے حوالے کر دیے گئے۔ یہ سکول اب بھی چل رہے ہیں کیونکہ بی ای ایف نے انہیں چلانے کے لئے حکومتِ بلوچستان سے معاہدہ کر رکھا تھا۔ مگر پی پی اے ایف کی جانب سے ایسا کوئی تحریری معاہدہ ان کی نظروں سے نہیں گزرا۔

 پاورٹی ایلیویشن فنڈ کے پروگرام مینیجر برائے تعلیم احسان اللہ بیگ نے بتایا کہ وہ آواران اور دیگر اضلاع میں نہ صرف کمیونٹی سکول چلا رہے تھے بلکہ سرکاری سکولوں کی معاونت بھی کر رہے تھے۔ 2019ء میں جب کورونا کی وبا آئی تو یہ منصوبہ بھی متاثر ہوا۔ شراکت دار ادارے این آر ایس پی نے منصوبےکی مدت ختم ہونے کے بعد سکولوں کو لوکل سپورٹ آرگنائزیشنز (ایل ایس اوز) کے تحت چلانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ لیکن نہ جانے وہ ایسا کیوں نہ کر پائے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ناقص منصوبہ بندی یا سیاسی اقربا پروری: خضدار کے بچے اپنے تعلیمی حق سے کیوں محروم ہیں؟

لوکل سپورٹ آرگنائزیشنز (ایل ایس اوز) کا ڈھانچہ این آر ایس پی نے تیار کیا تھا۔ جس کا مقصد مقامی تنظیموں کی صلاحیت بہتر بنا کر انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا اور سکولوں کو سنبھالنےکے قابل بنانا تھا۔

جھل جھاؤ کے علاقے واجہ باغ میں 2010 میں قائم ہونے والی لوکل سپورٹ آرگنائزیشن کو چھ کمیونٹی سکولوں اور اس کے بعد چار سوشل انٹرپرائزز سکولوں کا نظم و سنبھالنا تھا۔ اس تنظیم کے عہدیدار گوہر اسد عمرانی بتاتے ہیں کہ جب سکولوں کے منصوبے ختم ہوئے تو  مقامی کمیونٹی کے پاس انہیں چلانے کے لیے وسائل نہیں تھے۔ ایل ایس او کو اندرونی اختلافات نے بھی نقصان پہنچایا اور اس طرح سکول بند ہو گئے۔

موسیٰ گوٹھ سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر صالح بزنجو آباد میں بھی سوشل انٹرپرائز سکول بنایا گیا تھا۔ اس گاؤں کے محمد حسن کے خاندان کی پانچ لڑکیاں ان سکولوں میں پڑھتی تھیں جو اب تعلیم سے محروم ہو گئی ہے۔

حسن بتاتے ہیں کہ اس سکول میں 37 طلبہ و طالبات زیرتعلیم تھے۔یہ مںصوبہ ختم ہونے سے لڑکیوں کی تعلیم خاص طور پر متاثر ہوئی۔ لڑکے تو موٹرسائیکلوں پر پانچ کلومیٹر دور لنجار کے گورنمںٹ بوائز ہائی سکول جانے کے قابل تھے لیکن لڑکیوں کو ایسی سہولت میسر نہیں تھی جس کی وجہ سے ان کا تعلیمی مستقبل اب غارت ہو چکا ہے۔

تاریخ اشاعت 12 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شبیر رخشانی کا تعلق بلوچستان کے علاقے جھاؤ آواران سے ہے۔ مختلف صحافتی اداروں دنیا نیوز، روزنامہ آزادی آن لائن نیوز پیپر حال احوال کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.