لتا کماری ضلع تھرپارکر میں بطور کمیونٹی مڈوائف کام کرتی ہیں۔ وہ سرکاری ڈسپنسری جڑھیار سومرا میں تعینات ہیں۔ اگرچہ یہ ڈسپنسری ان کی بستی (ڈھانی ) سے زیادہ دور نہیں ہے۔ تاہم وہ محکمہ صحت سے سخت نالاں ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کی نوکری کو تین سال ہو چکے ہیں۔ کنٹریکٹ دیتے وقت ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر نے انہیں مستقل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اب محکمہ تنخواہوں کے لیے بھی چکر پر چکر لگوا رہا ہے۔
"ہم مسلسل ڈیوٹی کر رہے ہیں لیکن پہلے نو مہینے کی تنخواہیں ایک ساتھ دی گئیں۔ اب پھر چھ ماہ سے تنخواہ بند ہے۔ اس سے پہلے محکمے والے مجموعی طور پر ہماری ایک سال کی تنخواہیں کھا گئے ہیں۔"
ضلع تھرپارکر میں 'ماں اور بچے کی صحت' کے حوالے سےصورت حال میں بہتری لانے کے لیے سندھ حکومت نے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر پانچ اضلاع میں کمیونٹی مڈوائیوز(سی ایم ڈبلیو) بھرتی کی گئی تھیں۔
پرو گرام کے تحت نومبر 2020ء میں تھرپارکر میں 65 خواتین بھرتی کی گئی تھیں۔ دیگر چار اضلاع ٹھٹہ، سجاول، بدین اور دادو میں 20 سے 30 سی ایم ڈبلیوز رکھی گئی تھیں۔ امیدوار خواتین کے لیے تعلیم میٹرک اور مڈوائفری کورس لازم قرار دیا گیا تھا۔
تھرپارکر میں سرکاری اشتہار اور انٹرویوز کے بعد ان خواتین کو ایک سال کے کنٹریکٹ پر رکھا گیا۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفسر نے آفر لیٹرز دیے تھے۔ یہ تقریب ضلعی صدر مقام مٹھی میں ہوئی تھی جس میں اس وقت کے پارلیمانی سیکرٹری ہیلتھ قاسم سومرو بھی شریک تھے۔
کمیونٹی مڈوائف کا کام دیہات میں حاملہ خواتین کو ان کی اپنی صحت اور بچوں کی پرورش و غذا سے متعلق آگاہی دینا تھا۔ سی ایم ڈبلیو کی تنخواہ 25 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی لیکن پروگرام کے آغاز ہی سے چھ ماہ تک انہیں تنخواہیں نہیں دی گئیں۔
کمیونٹی مڈوائیوز نے جب احتجاج شروع کیا تو جون 2021ء میں ڈسٹرکٹ انچارج تھرپاکر کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے آفر لیٹر جعلی ہیں۔ جس پر ایک وکیل سندیپ کمار نے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی تھی۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور جسٹس عدنان الکریم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ دیا کہ ان کمیونٹی مڈوائیوز کا آئی بی اے(انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) کے ذریعے ٹیسٹ لیا جائے۔ لیکن اس وقت تک تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے باعث متعدد سی ایم ڈبلیو نوکری چھوڑ چکی تھیں۔
دسمبر 2021ء میں 52 سی ایم ڈبلیوز نے آئی بی اے کا ٹیسٹ کلیئر کیا اور انہیں دوبارہ محکمہ صحت میں جوائن کرا لیا گیا۔ ان میں سے چار خواتین محکمہ تعلیم میں نوکری ملنے پر یہاں سے کام چھوڑ کر چلی گئیں، ایک اور لڑکی نے بھی این جی او جوائن کر لی۔
محکمہ صحت کے مطابق اب ضلع تھرپارکر میں کمیونٹی مڈوائیوز کی تعداد 47 رہ گئی ہے۔
لتا کہتی ہیں کہ انہیں عدالت میں کیس کے دوران کی مدت کی تنخواہیں نہیں دی گئیں۔ جب انہوں نے دوبارہ جوائننگ دی تو اس وقت بھی انہیں ریگولر کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
"اب چھ مہینے گذر گئے ہیں ہماری تنخواہیں پھر سے بند ہیں۔ ڈسٹرکٹ آفس جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے آپ کو جلد تنخواہیں ادا کی جائیں گی مگر ابھی تک کچھ نہیں ملا۔ ہم دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی دیتی ہیں جہاں افسر بھی دورے پر نہیں آتے۔ لیکن اس کے بدلے میں ہمیں سڑکوں پر رُلایا جا رہا ہے۔"
ورلڈ بینک کی گذشتہ سال دسمبر میں جاری کی گئی فیکٹ شیٹ کے مطابق سندھ میں حمل سے متعلق ایک لاکھ پر اموات کی شرح 345 ہے جبکہ پنجاب میں ایک لاکھ پر یہ شرح اموات 219 بتائی گئی ہے۔
ضلع تھرپارکر کے ہسپتالوں سے گزشتہ سال 862 بچوں کی اموات رپورٹ ہوئی تھیں۔ رواں سال ضلعے میں اب تک 715 بچوں کی اموات سامنے آ چکی ہیں۔
ماں اور بچوں کی صحت کے حوالے سے تشویشناک صورت حال کے باعث ہی صوبائی حکومت نے آگاہی پروگرام شروع کیا تھاجس کے لیے بجٹ بھی مختص کیا گیا تھا۔
لیکن تھر میں محکمہ صحت غفلت کا مرتکب نظر آتا ہے۔ تاہم دیگر اضلاع میں سی ایم ڈبلیوز کو تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔
ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے پروگرام کے تھر میں ضلعی انچارج اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر بھگوان داس اعتراف کرتے ہیں کہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کمیونٹی مڈوائیوز کا حقیقی مسئلہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کنٹریکٹ ملازمیں کو محکمے کی منظوری کے بعد ہی تنخواہیں جاری کی جاتی ہیں۔ اگر ان کا کنٹریکٹ کنفرم ہو جائے تو ان کو باقاعدگی سے تنخواہیں جاری ہو سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
کام پورا مگر اجرت صرف 10 فیصد: خیبرپختونخوا میں لیڈی ہیلتھ ورکر تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر پر نالاں
"کمیونٹی مڈوائیوز کو ریگولر کرنے کا مسئلہ صوبائی کابینہ کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔ تاہم یہاں سے ہم مراسلے ضرور لکھ رہے ہیں۔ تنخواہوں کے لیے بھی محکمے کو ہم نے لیٹر بھیجا ہے،کوشش یہی ہے ان کو جلد ادائیگیاں ہو جائیں۔"
پینتیس سالہ شبانہ تحصیل چھاچھرو کے گاؤں چھچھی جونیجو ہسپتال میں ڈیوٹی کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر کام پر جاتی ہیں لیکن تنخواہوں کے لیے بار بار سو کلومیٹر دور مٹھی کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ محکمہ صحت والے کچھ بتانے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
"ہم ہر ماہ پریس کلبوں کے باہر احتجاج کرتے ہیں۔ مٹھی میں 10 اکتوبر کو بھی مظاہرہ کیا۔ ہم ایمانداری سے فرائض انجام دیتی ہیں۔ پتہ ہوتا کہ یہ لوگ تنخواہیں نہیں دیں گے تو ہم یہ نوکری جوائن ہی نہ کرتے۔"
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ ڈاکٹر ارشاد میمن سے رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے اس معاملے پر موقف دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے محکمہ صحت تھرپارکر ضلعے کے افسر بتائیں گے۔
تاریخ اشاعت 5 دسمبر 2023