نارنگ منڈی میں فرقہ واریت کی آگ کون بھڑکا رہا ہے؟

postImg

سجاگ رپورٹ

postImg

نارنگ منڈی میں فرقہ واریت کی آگ کون بھڑکا رہا ہے؟

سجاگ رپورٹ

15 فروری 2024ء کو ضلع شیخوپورہ کے محمد طیب مقصود نامی شہری نے تھانہ نارنگ منڈی میں توہین صحابہ کی ایک ایف آئی آر درج کرائی جس کے مطابق چھ افراد نے ایک نجی محفل میں بیٹھ کر صحابہ کرام کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کیے اور پھر ان میں سے ایک نے اس کی ویڈیو بنا کر وٹس ایپ سٹیٹس لگا دیا۔ یہ واقعہ 12 فروری کو ہوا اور وڈیو جلد ہی وائرل ہو گئی۔ مدعی مقدمہ نے موقف اختیار کیا اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی اور وہ شدید غصے میں ہیں لہذا ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ علاقے کا امن و امان برقرار رکھا جا سکے۔

پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 اے کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے چار ملزمان کو گرفتار کر لیا جبکہ دو ملزمان ابھی تک روپوش ہیں۔ گرفتار نہ ہوسکنے والوں میں سے ایک پر پہلے بھی اس طرح کے مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

ملزمان کا تعلق اہل تشیع مسلک سے ہے جبکہ مدعی دیوبند فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔

اس واقعے کے دو ماہ بعد 12 اپریل کو اسی تھانے میں تحریک لبیک کے مقامی رہنما اویس مختار کی مدعیت میں اسی نوعیت کی ایک اور ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ اس میں بھی نامزد ملزم اہل تشیع مسلک سے ہے جبکہ گواہ مسلک دیوبند کے رہنما طیب مقصود ہیں جو 12 فروری والی ایف آئی آر کے مدعی تھے۔

اس کے تین دن بعد تحریک لبیک پاکستان کے رہنما سید قمر الدین شاہ کی مدعیت میں ایک اور مقدمہ درج ہوا جس کے متن کے مطابق ایک اور ملزم نے 12 اپریل کو سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے گستاخانہ مواد کی ناصرف تشہیر اور حمایت کی بلکہ اس قسم کے واقعات پر مقدمات درج کیے جانے پر بھی تنقید کی۔

بات یہیں پر نہیں تھمی بلکہ 20 اور 25 اپریل کو ایسے واقعات پر نارنگ منڈی تھانے میں مزید مقدمات درج ہوئے جن میں دیو بندی مسلک اور تحریک لبیک کے رہنما یا تو مدعی ہیں یا گواہ۔ ان واقعات نے تحریک لبیک کی قیادت اور مسلک دیوبند کے سرگرم افراد کو اکٹھا کر دیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق انھوں نے معاہدہ کیا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے وہ مل کر اقدامات اٹھائیں گے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق نارنگ منڈی میں دفعہ 298 اے کے تحت پہلا مقدمہ 2010ء میں اور پھر ایک اس سے اگلے سال درج ہوا تھا۔ ان دونوں مقدمات میں مدعی کا تعلق دیوبند مسلک سے تھا اور ان کے ملزمان گرفتاری کے بعد چند ماہ جیل رہے لیکن پھر دیوبند مسلک کی ضلعی قیادت نے فریقین کے درمیان صلح کرا دی اور معاملہ ختم ہو گیا۔

ناموس امہات المومین، اہل بیت، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام سے متعلق دفعہ 298 اے کو تعزیراتِ پاکستان میں 1980ء میں جاری کیے گئے ایک ترمیمی آرڈینینس کے ذریعے شامل کیا گیا تھا جس میں مجرمان کے لیے تین سال قید، جرمانہ یا دونوں کی سزا رکھی گئی تھی۔ 2020ء میں قومی اسمبلی میں سزا کو عمر قید یا کم از کم دس سال تک بڑھانے کے لیے ایک ترمیمی بل پیش کیا گیا جو جنوری 2023ء میں منظور ہوا جس کے بعد اگست میں اسے سینیٹ نے بھی منظور کر لیا لیکن اسے صدر نے حتمی منظوری نہیں دی اور اس پر دوبارہ غور کرنے کے لیے اسے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا۔

ابتدائی دو واقعات کے بعد نارنگ منڈی میں ان مقدمات کا سلسلہ 2020ء میں دوبارہ شروع ہوا، اس سال شہر میں اس نوعیت کے دو مقدمات درج ہوئے۔ پھر 2022ء میں دو اور 2023ء میں ایک اور مقدمہ درج ہوا۔ ان تمام کے ملزمان گرفتاری کے بعد ضمانت پر ہیں اور ان کے خلاف مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔

2024ء میں ان واقعات میں اچانک تیزی آ  گئی ہے اور صرف اپریل کے مہینے میں ہی پانچ مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

امن کمیٹی اور تحریک لبیک کے متوازی اجلاس کیا رنگ لائیں گے؟

2010ء اور 2011ء کے ابتدائی واقعات کے بعد ان کی مستقل روک تھام اور بین المسالک ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے نارنگ کے شہریوں نے ایک امن کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں تمام مسالک، انجمن تاجران اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو شامل کیا گیا تھا۔ یہ کمیٹی دس سال ان واقعات کی روک تھام کرنے میں موثر رہی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ صورت حال اس کے بس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔

حالیہ واقعات کے تناظر میں امن کمیٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس 25 اپریل 2024ء کو منعقد ہوا جس میں تمام مسالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں سوال اٹھایا گیا کہ توہین صحابہ کے حوالے سے واقعات میں زیادہ تر اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد ہی کیوں شامل ہوتے ہیں جس پر مسلک اہل تشیع کے اکابرین نے نہ صرف ایسے واقعات کی مذمت کی بلکہ ان کی روک تھام کے لیے دیگر تمام مسالک، پولیس، سکیورٹی اداروں اور انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔

یہاں پر یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ تمام مسالک کے تین تین افراد اور امن کمیٹی کی مجلس عاملہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ایک ہفتہ میں فرقہ واریت کی روک تھام،گزشتہ واقعات پر لائحہ عمل اور آئندہ ایسے واقعات کے سدباب پر تجاویز تیار کرکے لائے۔

امن کمیٹی کے اجلاس کے دس روز بعد 5 مئی کو شہر میں ایک اور اجلاس تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی دفتر میں کیا گیا جس میں اہل تشیع کے علاوہ باقی تمام مسالک، تحریک لبیک لاہور ڈویژن اور تحریک لبیک ضلع شیخوپورہ کے نمائندوں نے شرکت کی۔

اطلاعات کے مطابق اس روز شہر میں حالات کی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے حساس اداروں کے افسران بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے جبکہ سب ڈویژنل پولیس آفیسر (ایس ڈی پی او) مرید کے سرکل ڈی ایس پی طاہر صدیق خصوصی طور پر یہاں آئے اور تھانہ نارنگ منڈی میں موجود رہے۔

اس اجلاس میں تحریک لبیک پاکستان کے ضلعی امیر چوہدری شاہد گجر نے زور دیا کہ ملزمان کو لگام ڈالی جائے اور اگر پولیس اور سکیورٹی ادارے اس حوالے سے تعاون نہیں کریں گے تو سب کچھ جام کرکے شدید احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔

اجلاس میں مسلک اہلسنت، دیوبند اور اہلحدیث کے علماء پر مشتمل کمیٹی بنانے کا کہا گیا جو آئندہ ہونے والے ایسے واقعات پر تصدیق اور تحقیق کرکے فیصلہ کریں گے کہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔

ابھی یہ اجلاس جاری تھا کہ شہر میں صحابہ اکرام کی شان میں گستاخی کا ایک اور واقعہ رپورٹ ہوا جس پر پولیس نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرلیا اور ڈی پی او شیخوپورہ بلال ظفر شیخ نے 13 ایم پی او کے تحت ملزم کو جیل بھیج دیا۔

تحریک لبیک کے اجلاس کے کچھ دیر بعد اسی روز نارنگ امن کمیٹی کا بھی اجلاس منعقدہ ہوا جس میں اہل تشیع مسلک کے نمائندوں نے تحریک لبیک کے دفتر میں ہونے والے اجلاس کے لیے انہیں نظر انداز کرنے پر شدید احتجاج کیا۔

ان مسلک کے اکابرین کا کہنا تھا کہ بہتر ہوتا ہے کہ شہر میں جاری مذہبی فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے اہل تشیع مسلک کو بھی شامل کیا جاتا۔

اب اگر تحریک لبیک کے اجلاس کے فیصلے کے مطابق دیگر مسالک کے علماء پر مشتمل کمیٹی بنائی جاتی ہے تو وہ متنازع ہوگی کیوں کہ اگر خدانخواستہ شہر میں دوبارہ فرقہ واریت کے حوالے سے کوئی سرگرمی ہوئی یا اہل تشیع کے مقدسات کی توہین کی گئی تو اس حوالے سے کیا اقدامات کیے جائیں گے کیونکہ کمیٹی میں اہل تشیع کے نمائندوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے مذہبی فرقہ واریت کی روک تھام کیلئے اہل تشیع سمیت تمام مسالک کا کمیٹی کاحصہ بننا ضروری ہے۔

تحریک لبیک ضلع شیخوپورہ کے معاون نشر و اشاعت یاسر رضوی نے لوک سجاگ کے سوال پر کہا کہ "چونکہ صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کے واقعات مسلسل مسلک اہل تشیع کی جانب سے رونما ہو رہے ہیں اس لیے اس کمیٹی میں ان کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ ہماری طرف سے تجویز کردہ مشترکہ کمیٹی میں تین مسالک سے تین تین افراد شامل کیے جائیں گے جس کا مقصد یہ ہوگا کہ جو کوئی بھی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرے گا، کمیٹی اس پر تحقیق اور تصدیق کرے گی کہ گستاخی کس نوعیت کی ہے اس میں کون کون شامل ہے، اس پر کیا سزا تجویز کی جائے، مقدمہ درج کروایا جائے یا کوئی اور ردعمل دیا جائے تاکہ کسی بھی بےگناہ کو سزا نہ مل سکے جو ملوث پایا جائے صرف اسی کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔

پولیس: ہم معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے چل رہے ہیں

اس دوران شہر میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران نے دیگر مذہبی جماعتوں سمیت اہل تشیع کے اکابرین سے ملاقاتیں بھی کیں جس پر جن افراد پر توہین کا الزام ہے انھوں نے شہریوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر معافی بھی مانگی۔

بعض لوگوں کی طرف سے ان کیسوں میں پولیس کی طرف سے جانبداری برتے جانے کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں لیکن پولیس کا موقف ہے کہ وہ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے چل رہے ہیں اور تمام کیسوں میں قانون کے مطابق کارروائیاں کی جارہی ہیں۔

ایس ایچ او تھانہ نارنگ انسپکٹر رانا اعظم علی خاں کہتے ہیں کہ فرقہ واریت کے واقعات میں اضافے پر کافی تشویش ہے لیکن پولیس قانون کے مطابق تمام وہ اقدامات اٹھا رہی ہے جو شہر کے امن و امان کے لیے ضروری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر واقعے پر قانون کے مطابق مقدمات درج کیے ہیں کچھ ملزمان منظر عام سے غائب ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی جن واقعات کا فوری علم ہوا ان پر فوری گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے۔ پولیس چاہتی ہے کہ عوام قانون ہاتھ میں نہ لے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پولیس کے ساتھ مذہبی جماعتوں اور تمام مسالک کا کردار بھی اہم ہے۔

سب ڈویژنل پولیس آفیسر (ایس ڈی پی او) مرید کے سرکل ڈی ایس پی طاہر صدیق کا بھی یہی کہنا ہے کہ پولیس اپنی ذمہ داری ایمانداری اور فرض شناسی کے تحت پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس کے لیے تمام مسالک کے ساتھ عوام کے تعاون کی بھی بہت ضرورت ہے۔

شیعہ گروپوں کا نیا اتحاد: ہم بھی امن چاہتے ہیں

اس صورت حال میں نارنگ منڈی میں اہل تشیع مسلک کے تمام گروپوں کا ایک اتحاد القائم متحدہ شیعہ کونسل کے نام سے سامنے آیا ہے اور بااثر سماجی، سیاسی اور مذہبی شخصیات پر مشتمل ایک 9 رکنی کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے: شیعہ مسلک کے ماننے والوں کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات میں اضافہ۔

اس کمیٹی کی سربراہی چوہدری سخاوت علی ڈگرا  کو سونپی گئی ہے جن پر تمام گروپوں نے مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے شہر کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے اٹھائے جانے والے ہر فیصلے کو قبول کرنے کی حامی بھری ہے۔

چوہدری سخاوت علی ڈگرا نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک لبیک کی مقامی قیادت کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں ان کے مسلک کو شریک نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق اس فیصلے سے ان کے مسلک کے لوگوں میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ انہیں شاید الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔

"ہمارا مؤقف تو سنتے ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ جس کسی نے بھی خلاف ورزی کی ہے اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے لیکن اگر کوئی شرمندگی کااظہار کرتے ہوئے معافی مانگتا ہے تو اسے موقع ملنا چاہیے دوسری صورت میں اس سے کوئی رعایت نہیں برتنی چاہیے۔"

وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی شہر میں امن چاہتے ہیں اور اس کے لیے ماضی میں عملی کردار بھی ادا کیا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر جو توہین آمیز مواد گردش کر رہا ہے ہم اس کی اور اس کو شیئر کرنے والے افراد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

بطور سرپرست شیعہ کمیونٹی کو پیغام دیتا ہوں کہ دوسرے مسالک اور ان کے مقدسات کا احترام کریں۔

"ہم ایسے تمام عناصر کا ہر لحاظ سے بائیکاٹ کریں گے جو شہر کا امن خراب کرنے کی کوشش کرے گا، اس کے لیے ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑے تھے، ہیں اور رہیں گے۔"

تاریخ اشاعت 11 جون 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.