تھرپارکر میں کوئلہ بنانے کے کُپے اور اینٹوں کے غیرقانونی بھٹے صحت عامہ کے لیے سنگین خطرہ بن گئے

postImg

جی آر جونیجو

postImg

تھرپارکر میں کوئلہ بنانے کے کُپے اور اینٹوں کے غیرقانونی بھٹے صحت عامہ کے لیے سنگین خطرہ بن گئے

جی آر جونیجو

ساٹھ سالہ عبدالغنی بلوچ ہر وقت کھانستے رہتے ہیں۔ ان کا گلا بیٹھا رہتا ہے اور اکثر ان کے لیے بولنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ کبھی سرکاری تو کبھی پرائیویٹ ہسپتال جاتے ہیں۔کوئی ڈاکٹر اینٹی بایوٹک تو کوئی اینٹی الرجک دوا تجویز کرتا ہے مگر کھانسی ہے کہ جانے کا نام نہیں لے رہی۔

عبدالغنی ضلع تھرپارکر کے گاؤں ونگو کے رہائشی ہیں۔یہ علاقہ تحصیل ہیڈکوارٹر کلوئی شہر سے آٹھ کلومیٹر دور ضلع بدین کی سرحدپر واقع ہے۔ عبدالغنی بتاتے ہیں کہ انہیں تکلیف تو گھر میں بھی محسوس ہوتی ہے۔مگر جب باہر آتے تو کھانسی زیادہ ہو جاتی ہے۔کام اور مال مویشی کے لیے گھر سے تو نکلنا ہی پڑتا ہے۔

صرف عبدالغنی ہی نہیں یہاں قریبی بستیوں کی نصف سے زیادہ آبادی سانس کی بیماریوں کا شکار ہے ۔اور اس کی وجہ یہاں موجود اینٹوں کے بھٹوں اور کوئلے کے کپوں کا دھواں ہے۔

عبدالغنی کھیت مزدور ہیں ۔وہ 20 ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں اور پانچ بچوں سمیت سات افراد پر مشتمل اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بھٹے اور کپے بااثر افراد کی ملکیت ہیں۔یہ لوگ کسی کی نہیں سنتے۔ اگر کوئی آواز اٹھائے تو اسے دباؤ ڈال کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

 "ہم غریب لوگ ہیں ۔بھٹہ مالکان کی مزدوری کرتے اور انہیں کی زمینیں کاشت کرتے ہیں۔ہم کچھ نہیں کر سکتے بس بیماریاں ہی بھگت رہے ہیں۔"

 کلوئی ہی کے باون سالہ زمیندار میرحسن بتاتے ہیں کہ یہاں 50 سے 60 بھٹے اور کوئلے کے لگ بھگ 70 کپُے چل رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے کلوئی شہر اور 50 نواحی دیہات کی ایک لاکھ آبادی مشکلات سے دوچار ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دھوئیں اور آلودہ فضا سے نہ صرف انسان بلکہ پرندے اور فصلیں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ ان بھٹوں اور کُپوں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ لوگ بھی آواز اُٹھانے سے ڈرتے ہیں۔

تحصیل کلوئی کا یہ علاقہ سکھر سے نکلنے والی مٹھڑاؤ کینال کی ٹیل بنتا ہے۔ پانی کی قلت کے باعث یہاں ہزاروں ایکڑ اراضی پر جنگلی کیکر(دیوی) کا جنگل وجود میں آگیا ہے۔مقامی لوگ اب اس لکڑی سےکوئلہ بناتے اور اسےبیچ کر گزارا کرتے ہیں۔

 کوئلہ بنانے کے لیے گیلی یا سوکھی لکڑی کو جھونپڑی نما 'کپوں' میں جلایا جاتا ہے ۔جلتی آگ کے دوران کپوں کا منہ بند کر دیا جاتا ہے۔بعد میں کئی روز ان سے مسلسل دھواں نکلتا رہتا ہے۔

یہی صورت حال تحصیل کلوئی میں اینٹوں کے بھٹوں کی ہے۔ایک لاکھ 18ہزار آباد ی پر مشتمل اس چھوٹی سی تحصیل میں 50 سے زیادہ  بھٹے ہیں۔ شہر کے ارد گرد چار کلو میٹر علاقے کے میں دس بھٹے کام کر رہے ہیں جن کی وجہ سے علاقے پر دھوئیں کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔

اس علاقے کا قریب ترین سرکاری ہسپتال کلوئی رورل ہیلتھ سنٹر ہے۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہاں آؤٹ ڈور میں اوسطاًروزانہ 120 مریض آتے ہیں جن میں سے تقریباً 70 نزلہ ،کھانسی ،دمہ اور سر میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔

ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر نھچل داس کہتے ہیں کہ دھوئیں سے کئی طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اس سے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ دمہ بھی اسی سے شروع ہوتا ہے اور مریضوں کی سانس گھٹی رہتی ہے۔

صرف کلوئی ہی نہیں بدین کی تحصیل ٹنڈوباگو کے 30 سے زیادہ دیہات میں بھی یہی صورتحال ہے۔

سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014ء کی شق 17 کے تحت ماحول پر منفی اثرات مرتب کرنے والا کوئی بھی یونٹ لگانے پر پابندی ہے۔ایسا کوئی کمرشل یا صنعتی کام شروع کرنے سے پہلے سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی(سیپا) سے منظوری لازم ہے۔

سیپاایکٹ کے تحت ایسا یونٹ  شروع کرنے سے قبل  معائنہ نہ کرانے اور منظوری نہ لینے (سیکشن 11، 17، 18اور 21 کی خلاف ورزی) کی صورت میں 50 لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ ماحولیات کو نقصان پہنچانے پر روزانہ ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے مگر ایسا کبھی ہوا نہیں ہے۔

سابق ایم پی اے سریندر ولاسائی نے اس حوالے سے سندھ اسمبلی میں سوال آواز اٹھائی تھی۔جس پر بتایا گیا کہ کلوئی تحصیل میں صرف 6 بھٹے ہی رجسٹرڈ ہیں اور ان میں کوئی بھی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر نہیں ہے۔

 یہ معاملہ سامنے آنے پر اسمبلی میں ہیومن رائٹس کمیٹی بنائی گئی تھی۔کمیٹی نے علاقے کا دورہ کیا۔وہاں ایک طبی کیمپ لگایا گیا۔اس کے بعد کمیٹی واپس چلی گئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔

آغا خان ہسپتال کراچی میں دماغی و اعصابی بیماریوں کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع کہتے ہیں کہ نوجوانوں سمیت پاکستان کی نصف آبادی کسی نہ کسی غیر متعدی مرض میں مبتلا ہے۔بلڈ پریشر، شوگر، فالج اور دل کی بیماریوں میں اضافے کی بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔

ڈپریشن اور نفسیاتی امراض میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

سندھ کے سابقہ وزیر ماحولیات اسماعیل راہو بتاتے ہیں کہ زگ زیگ ٹیکنالوجی کے بغیر چلنے والے یہ اینٹوں کے بھٹے غیرقانونی ہیں ۔ان میں پلاسٹک اور ٹائروں سمیت بہت سی ایسی چیزیں جلائی جاتی ہیں جن کا دھواں ماحول کے لیے تباہ کن ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ غیر قانونی بھٹوں کے خلاف کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ عمرکوٹ میں 27 بھٹوں کے خلاف کاروائی کی گئی ہے۔ 13 افراد پر مقدمات بھی ہو چکے ہیں۔

محمد خان رند سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھٹوں کے معاملے میں عمرکوٹ کی عدالت میں بھی ایک درخواست دی گئی ہے۔اس پر انہیں بھی ایک لیگل نوٹس آیا تھا اور ابھی کیس کی سماعت چل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر: 'مقامی معیشت، زراعت اور قدرتی ماحول کی تباہی کا ذمہ دار'۔

ان کا کہنا ہے کہ بھٹہ مالکان کو ای پی اے نے نوٹس بھیجے ہیں اور عدالت نے بھی انہیں رجسٹریشن کرانے کی ہدایات دے رکھی ہیں۔اگر بھٹے زگ زیگ ٹیکنالوجی شروع نہیں کریں گے تو ای پی اے انہیں عدالت لے جائے گی۔

محمد خان دعویٰ کرتے ہیں کہ کہ عمرکوٹ کے بعد کلوئی کے گردونواح میں بھٹوں اور درخت کاٹ کر کوئلہ بنانے والوں کے خلاف بھی جلد ایکشن لیا جانا ہے۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھرپارکر عبدالحمید مغل تصدیق کرتے ہیں کہ کلوئی میں بہت سے بھٹے غیر قانونی کام کر رہے ہیں ۔وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں ای پی اے فعال نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں انوائرمنٹ ایجنسی کو لکھیں گے۔ اور دیگر محکموں سے مل کر کام کریں گے۔

ادارہ تحفظ ماحولیات (ای پی اے)سندھ کے ڈی جی نعیم مغل بھی اعتراف کر تے ہیں کہ بھٹے ماحول کے لیے خطرناک بنتے جا رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی انسانی صحت کے ساتھ معمول کی انسانی سرگرمیوں کو متاثر کرنے لگی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ماحولیاتی مسائل میں آگہی اور تعلیم کی کمی کے باعث سے اضافہ ہو رہا ہے۔اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے صرف ای پی اے ہی نہیں تمام اداروں اور افراد کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

تاریخ اشاعت 9 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.