فیصل آباد کے صداقت انصاری چند دن قبل قریبی سرکاری ڈسپنسری گئے تو انہیں مایوس لوٹنا پڑا۔عملے نے بتایا کہ ڈسپنسری بند ہو گئی ہے اور ادویات نہیں ہیں۔آئندہ انہیں دوا لینےآٹھ کلومیٹر دور بنیادی مرکز صحت بلوچ والا جانا پڑے گا۔
پچھتر سالہ صداقت انصاری شہر سے 15 کلومیٹر دور چک 242 آر بی دسوہا کے رہائشی ہیں۔ وہ درجہ چہارم کے ملازم تھے۔
صداقت بتاتے ہیں کہ 15 ہزار افراد کی آبادی کے اس گاؤں میں یہ ڈسپنسری 1908ء سے قائم تھی۔یہاں سےان کے خاندان سمیت پانچ دیہات کے 30 ہزار لوگ فائدہ اٹھاتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ روزانہ سو سے ڈیڑھ سو افراد دوا لینے آتے تھے مگر اب ڈسپنسری کو وجہ بتائے بغیر بند کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح فیصل آباد سے آٹھ کلومیٹر پر گاؤں گوکھوال میں قائم نورالامین گورنمنٹ ڈسپنسری بھی بند کر دی گئی ہے۔
اسی گاؤں کے رہائشی 35 سالہ محمد سفیان سرکاری ملازم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس ڈسپنسری سےچار نواحی دیہات کے تقریبا ساڑھے تین ہزار افراد مستفید ہو رہے تھے۔
یہاں مسیحی کمیونٹی کے ڈیڑھ ہزار سے زائد لوگ آباد ہیں۔یہ ڈسپنسری سے چھوٹی موٹی بیماری کی دوا لے لیتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈسپنسری بند ہونے کے بعد زیادہ ترآبادی اتائیوں کے رحم و کرم پر ہو گی کیونکہ شہر اور بنیادی مرکز صحت اکال گڑھ دونوں ہی یہاں سے آٹھ کلومیٹر دور ہیں۔
پنجاب کے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ نے یکم جولائی 2023ء سے ضلع فیصل آباد کے مختلف علاقوں میں قائم 114 میں سے 62 ڈسپنسریاں بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
یہ ڈسپنسریاں لائل پور ضلع بننے سے2001ء تک قائم کی گئی تھیں۔ تمام ڈسپسنریوں کی اپنی عمارتیں موجود ہیں۔ان کو مختلف ادوار میں میونسپل کارپوریشن اور ضلعی کونسل کے زیر انتظام چلایا جاتا رہا تھا۔ جنوری 2017ء میں تمام کو محکمہ صحت سے منسلک کر دیا گیا تھا۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر(ڈی ایچ او) نے بتایا کہ ڈسپنسریوں کو الگ سے کوئی بجٹ جاری نہیں کیا جاتا ہے بلکہ ہر ڈسپنسری میں مریضوں کی اوسط تعداد کے لحاظ سے ماہانہ بنیادوں پر ادویات و دیگر طبی سامان فراہم کیا جاتا ہے۔
"یہاں او پی ڈی کی سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔ ہر ڈسپنسری میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر، ایک ایل ایچ وی، ایک ڈسپنسر اوربچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانےکے لئے ایک ویکسی نیٹر تعینات تھا"۔
انہوں نے کہا کہ بند کی جانے والی ڈسپنسریوں کے سٹاف کو قریبی بینیادی مراکز صحت، رورل ہیلتھ سنٹرز اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال یا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کے نوٹیفکیشن میں ڈسپنسریاں بند کرنے کے فیصلہ کو صوبائی محتسب پنجاب کے 'احکامات کی تعمیل' قرار دیا گیا ہے۔
تاہم محتسب پنجاب کے پبلک انفارمیشن آفیسر شاہد عباس نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے ادارے کی جانب سے محکمہ صحت کو ایسا کوئی حکم یا ڈائریکشن جاری نہیں کی گئی۔
"محکمہ صحت والے ہمارا کندھا استعمال کر کے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات محتسب کے نوٹس میں آ چکی ہے اور اس پر جلد تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔"
محکمہ صحت نے صوبائی محتسب کواپنی رپورٹ میں بتایا تھا کی پنجاب میں کل ایک ہزار468 ڈسپنسریاں ہیں۔ان میں سے مبینہ طور پر 164 غیر فعال جبکہ دیگر جزوی غیر فعال ہیں۔ غیر فعال ڈسپنسریوں کو یکم جولائی سے بند کر کے قریب ترین مراکز صحت میں ضم کیا جا رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 2001ء کے بعد ڈسپنسریوں کی مرمت کے لئے کوئی بجٹ جاری نہیں ہوا۔اب ان کی تعمیر ومرمت کے لئے تین ارب 23 کروڑ روپے سے زائد درکار ہو ں گے۔
ڈی ایچ او فیصل آباد محکمہ صحت کی اس رپورٹ سے اتفاق نہیں کرتے۔
"بند ہونے والی ڈسپنسریوں میں سے کوئی بھی غیر فعال نہیں تھی اور نہ ہی کسی میں عملے کی کوئی اسامی خالی تھی"۔
صوبائی محتسب کے مشیر محمد ناصر جمال واضح کرتے ہیں کہ محتسب کی طرف سے صرف سفارشات دی گئیں تھیں۔ڈسپنسریوں کی بندش یا انضمام کا فیصلہ خالصتاً محکمہ صحت اور صوبائی حکومت کا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ محتسب پنجاب کے نام کو غلط استعمال کرنے پر سیکرٹری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کو مراسلہ جاری کیا گیا ہے کہ نوٹیفکیشن کی تصیح کر کے رپورٹ جمع کرائی جائے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی فیصل آباد کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر اسفند یار محکمہ صحت کی جانب سے ڈسپنسریوں کی بندش کے فیصلے کا دفاع کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان ڈسپنسریوں کو ناقص کارکردگی کی وجہ سے بند کیا گیا۔ تاہم انہوں نے 'ناقص کارکردگی' کی وضاحت نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف فیصل آباد میں ہی نہیں بلکہ پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی متعدد ڈسپنسریاں بند کی جا رہی ہیں۔
"ہم نے صوبائی احکامات پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ڈسپنسریوں سے ادویات، ویکسین کے فریزر،الٹرا ساونڈ مشینیں اور فرنیچر وغیرہ کی منتقلی بھی شروع کر دی گئی ہے۔"
ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر تھری ڈاکٹر محمد عدنان نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں ضلع کونسل کی 40 ڈسپنسریاں بند کی جارہی ہیں۔ دوسرے مرحلے میں تحصیل کونسلز اور تیسرے مرحلے میں شہری علاقوں کی ڈسپنسریاں بند کی جائیں گی۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ ڈسپنسریوں کی کارکردگی بری نہیں تھی۔
"کمزور ترین ڈسپنسری میں یومیہ 40 سے 50 اور اچھی ڈسپنسریوں میں دو سے ڈھائی سو مریض آتے ہیں"۔
انہوں نے بتایا کہ بعض علاقوں میں مقامی لوگوں نے ڈسپنسریوں کی بندش کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔
چک 172 گ، ب کے مکینوں نے بھی حکم امتناع کی درخواست دی ہے۔ ملتان اور لاہور میں بھی ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔
ڈی ایچ او کا کہنا تھا کہ اوسطاً ہر ڈسپنسری کا سالانہ خرچ 25 سے 30 لاکھ روپے کے درمیان ہوتا ہے۔ پندرہ سے بیس لاکھ تنخواہوں اور پانچ سے سات لاکھ ادویات یوٹیلٹی بلز وغیرہ پر صرف ہوتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ یکم جولائی سے بند کی جانے والی ڈسپنسریوں سے متعلق کمشنر کی زیر صدارت اجلاس ہوا تھا۔ بند ہونے والی ڈسپنسریز کو 'ویکسینیشن سنٹر' بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
"جن علاقوں میں سرکاری مراکز صحت زیادہ دور ہیں وہاں ڈسپنسریاں بحال کرنے کے لئے اعلیٰ حکام کو سفارشات بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔"
فیصل آباد شہر کی ڈسپنسری میں کام کرنے والے ایک ویکسینیٹر کا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پرکہنا تھا کہ شہر سے دور ڈسپنسریوں میں ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ موجود نہیں ہوتا تھا۔ عمارتیں خستہ ہیں اور انہیں مناسب فنڈز بھی نہیں دیئے جاتے ۔
ان الزامات میں کچھ صداقت یوں نظر آتی ہے کہ جنوری 2021ء میں ڈپٹی کمشنر فیصل آباد محمد علی کو شہر کی 44 ڈسپنسریوں کے لئے بھی"اون اے ڈسپنسری" ( Own a dispensary ) سکیم کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ مگر اس میں پیشرفت نہیں ہو سکی۔
وائس چانسلر فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ظفر علی چودھری نے کچھ سال پہلے الائیڈ ہسپتال اور ڈی ایچ کیو میں مریضوں کا رش کم کرنے کے لئے ڈسپنسریوں کومزید فعال بنانے کی تجویز دی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ڈسپنسریوں میں ابتدائی چیک اپ کے بعد مریض کومزید علاج کے لئے الائیڈ ہسپتال یا ڈی ایچ کیو ریفر کیا جائے۔
سرکاری ذرائع کے مطا بق الائیڈ ہسپتال کے اوپی ڈی میں روزانہ چار سے پانچ ہزار، الائیڈ ہسپتال ٹو یا ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ڈھائی سے تین ہزار اور جنرل ہسپتال غلام محمد آباد کی اوپی ڈی میں دو سے ڈھائی ہزار مریض آتے ہیں۔
ڈاکٹر اسفندیار' ریفرل سسٹم ' کی تجویز کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسے حکومتی منظوری کے بغیر شروع کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'اسے لاہور لے جائیں': ننکانہ صاحب کا ضلعی ہسپتال ہر چوتھے مریض کو دوسرے شہروں کے ہسپتالوں میں کیوں ریفر کر دیتا ہے؟
سی ای او ہیلتھ کا دعویٰ ہے کہ ہر یونین کونسل میں بنیادی مرکز صحت موجود ہے اس لیے ڈسپنسریوں کی بندش سے لوگوں کو زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔
تاہم موضع وار سروے کے مطابق ضلع کے طبی مراکز کا دیہات سے اوسطاً چھ کلو میٹر دور ہیں۔ دس فیصد دیہات کا بنیادی مراکز صحت اور 16 فیصد کا دیہی مراکز صحت سے فاصلہ 10 کلو میٹر سے زیادہ ہے۔
ضلع کونسل اور میونسپل کارپوریشن ملا کر فیصل آباد کی 315 یونین کونسلوں میں 168 بنیادی مراکز صحت، 12 رورل ہیلتھ سنٹر، پانچ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور تین ٹیچنگ ہسپتال ہیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن فیصل آباد کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر محمد عرفان کہتے ہیں کہ ڈسپنسریوں کی حالت بہتر بنائی جاتی تو لوگوں کو گھر کے قریب صحت کی سہولتیں میسر ہو سکتی تھیں۔
"یہاں ٹیچنگ ہسپتال پہلے ہی او پی ڈیز میں گنجائش سے زیادہ مریض دیکھ رہے ہیں۔اب تعداد مزید بڑھ جائے گی"۔
سماجی ادارے سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹو (سی پی ڈی آئی) کے پراجیکٹ منیجر فیصل منظور کہتے ہیں کہ ملک میں صحت وتعلیم کبھی حکومتوں اور پالیسی سازوں کی ترجیح نہیں رہے۔اسی لیے پاکستان ان شعبوں میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
تاریخ اشاعت 11 جولائی 2023