فقیر محمد ڈھائی سال سے اپنے سسرال سے نہیں ملے۔ وہ کہتے ہیں کہ فروری 2020 سے پہلے وہ ہر تین چار مہینے بعد اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ اُن سے ملنے چلے جاتے تھے لیکن اب ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔
وہ بلوچستان کے مغربی ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین میں رہتے ہیں لیکن ان کی شادی 15 سال پہلے ایران کے صوبہ سیستان-بلوچستان کے شہر زاہدان میں اپنے قریبی رشتہ داروں میں ہوئی تھی۔ اِن رشتہ داروں کے خوشی اور غم کے مواقع میں شرکت کے لیے وہ ایک خصوصی سرکاری اجازت نامہ استعمال کرتے تھے جو اَب منسوخ کر دیا گیا ہے۔
پاک-ایران سرحد پر واقع تفتان نامی قصبے کے رہنے والے خدا بخش مینگل بھی اسی طرح کا اجازت نامہ استعمال کر کے وقتاً فوقتاً اپنے رشتہ داروں سے ملنے ایران جایا کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اجازت نامہ ان کے ضلع چاغی میں رہنے والے "غریب خاندانوں کے لئے بہت بڑی نعمت تھا کیونکہ اس کے تحت وہ پاسپورٹ اور ویزے کے حصول جیسے مشکل اور مہنگے مراحل سے گزرے بغیر سرحد پار رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے مل سکتے تھے"۔ ان کے بقول، اس اجازت نامے کی تنسیخ سے "خونی رشتوں کے درمیان دیواریں کھڑی ہو گئی ہیں"۔
فقیر محمد اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ایران کا ویزا حاصل کرنے کے لیے کوئٹہ میں اس کے قونصل خانے میں جانا پڑتا ہے۔ اس عمل میں کم از کم 10 روز لگتے ہیں اور اس پر کم از کم 20 ہزار روپے خرچہ آتا ہے"۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ چاغی کے لوگوں کے پاس "اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ وہ ایسے تمام خرچے برداشت کر کے اپنے خاندان کے پاسپورٹ بنوائیں اور پھر ان پر ویزے لگوائیں"۔
چنانچہ، ان کے بقول، خصوصی اجازت ناموں کی عدم موجودگی میں "کچھ لوگ اپنی جان پر کھیل کر غیر قانونی طریقے سے دشوار گزار اور خطرناک راستوں کے ذریعے ایران میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں"۔
سرحدیں روک نہ پائیں گی کبھی رشتوں کو
پاکستان اور ایران کے درمیان باہمی سرحدی حدود طے پانے کے بعد دونوں ملکوں نے 1958 میں ان کے آرپار آنے جانے کے لیے ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں چاغی، واشُک، گوادر، پنجگور اور کیچ جیسے سرحدی اضلاع کے ایسے لوگوں کو خصوصی سفری اجازت نامے جاری کیے گئے جن کے خاندان سرحدوں کی نشان دہی کی وجہ سے منقسم ہو گئے تھے۔
ان اجازت ناموں کو استعمال کر کے وہ پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر جب چاہتے ایران چلے جاتے بشرطیکہ ان کے پاس سرحد پار سے آیا ہوا کسی تقریب کا دعوت نامہ یا کسی مرگ یا بیماری کی اطلاع کا دستاویزی ثبوت موجود ہوتا۔ پاکستانی سرحدی حکام کے مطابق ہر سال دس ہزار سے بارہ ہزار لوگ اس طریقے سے پاکستان سے ایران اور ایران سے پاکستان آتے جاتے تھے۔
ان خصوصی اجازت ناموں پر سفر کرنے والے لوگ تفتان میں پاک ایران سرحد پر بنائے گئے ایک مخصوص راستے سے گزرتے تھے جسے راہداری گیٹ کہا جاتا ہے۔ اس پر متعین پاکستانی لیویز فورس کے اہل کار الٰہی بخش نوتیزئی کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے بین الاقوامی سفر پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے پیشِ نظر اس گیٹ کو 20 فروری 2020 کو بند کر دیا گیا اور اس میں سے گزرنے کے تمام خصوصی اجازت نامے منسوخ کر دیے گئے۔
اب اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان موجود دیگر سفری انتظامات بحال ہو چکے ہیں لیکن ایرانی حکام چاغی اور واشُک کے اضلاع میں رہنے والے منقسم خاندانوں کو خصوصی اجازت ناموں پر ایران میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے (حالانکہ گوادر، کیچ اور پنجگور کے رہنے والے لوگ یہ اجازت نامے استعمال کر کے ماضی کی طرح سرحد کے آرپار آ جا رہے ہیں)۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تعاون اور دیگر متعلقہ معاملات کو چلانے اور بہتر بنانے کے لئے بنائے گئے کمیشن میں شامل ایک پاکستانی اہل کار اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ اس کی ایک بڑی وجہ جیش العدل نامی ایک شدت پسند تنظیم کی طرف سے کی جانے والی کارروائیاں ہیں جو نہیں چاہتی کہ سیستان-بلوچستان جیسے سُنّی علاقے ایران کی شیعہ حکومت کے نظم و نسق کے تابع رہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ "پچھلے کچھ سالوں میں اس تنظیم نے نہ صرف ایرانی سرحدی چوکیوں پر متعدد حملے کئے ہیں بلکہ 2018 کے اواخر میں اس کے ارکان نے چاغی سے متصل لولکدان نامی ایرانی سرحدی چوکی سے 12 ایرانی سرحدی محافظوں کو اغوا بھی کر لیا تھا"۔ اس واقعے کے بعد ایران کے وزیرِ داخلہ نے واضح طور پر کہا تھا کہ ان محافظوں کے اغوا کار پاکستان سے آئے تھے۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر پاکستانی حکام نے ان کی سرگرمیوں کو نہ روکا تو ایرانی سکیورٹی اہل کار خود پاکستانی حدود میں داخل ہو کر ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا: سکیورٹی مسائل کے باعث پاک-افغان سرحدی تجارت سے وابستہ ڈرائیوروں کی زندگی اجیرن۔
تاہم اس امکان کو ختم کرنے کے لیے پاکستانی سکیورٹی اداروں نے چاغی سے نو مغوی محافظوں کو بازیاب کرا کے ایرانی حکام کے حوالے کر دیا۔ باقی کے تین اہلکاروں کی رہائی کے حوالے سے مقامی لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ ایسا مبینہ طور پر ایک ایسے خفیہ معاہدے کے نتیجے میں ممکن ہوا جس کے تحت ایرانی حکام نے بھی کچھ سُنّی شدت پسندوں کو اپنی حراست سے رہا کیا تھا۔ تاہم آزادانہ اور سرکاری ذرائع سے اس تاثر کی تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔
چاغی میں موجود متعدد سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی بنا پر ایران چاہتا ہے کہ پاکستان فوری طور پر جیش العدل کے کارکنوں کو اپنے علاقوں سے نکالے۔ چنانچہ، ان ذرائع کے مطابق، وہ اس وقت تک چاغی اور واشُک کے لوگوں کے لیے راہداری گیٹ کھولنے کے لیے تیار نہیں جب تک پاکستان اسے اس حوالے سے کوئی ٹھوس یقین دہانی نہ کرا دے۔
اگرچہ تفتان میں متعین اسسٹنٹ کمشنر ظہور بلوچ ایسے کسی ایرانی مطالبے سے واقف نہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ راہداری گیٹ کھلوانے کے لیے چاغی کی ضلعی انتظامیہ نے ایرانی سرحدی حکام کے ساتھ گزشتہ چند مہینوں میں کئی مرتبہ بات چیت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بات چیت کے دوران انہیں دوسری جانب سے ہمیشہ یہی جواب ملتا ہے کہ وہ "تہران میں اپنے اعلیٰ حکام سے بات کر کے ہی اس پر کوئی فیصلہ کر سکیں گے"۔
چاغی کے ڈپٹی کمشنر انعام الحق بھی یہی کہتے ہیں۔ ان کے مطابق خصوصی اجازت ناموں کے ذریعے سفر کرنے پر عائد پابندی کا "خاتمہ اس وقت تک ممکن دکھائی نہیں دیتا جب تک تہران سے اس کے بارے میں کوئی نیا حکم نہیں آ جاتا"۔
تاریخ اشاعت 26 اگست 2022