جہاں دنیا بھر کو موسمیاتی تبدیلیوں نے اپنی لیپٹ میں لے رکھا ہے وہیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی اس کے سنگین منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جن سے خاص طور پر مقامی کسانوں کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔
اس علاقے کے صدر مقام مظفرآباد کے جنوب میں دو گھنٹے کی مسافت پر تقریباً دو ہزار آبادی کے گاؤں تھور میں رہنے والے محمد شکور کا واحد ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے، لیکن بدلتے موسمی حالات کے باعث پیداوار میں کمی کے باعث ان کے لیے اپنی زمین کی آمدنی سے گزر بسر کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پچھلی بار جب انہوں ںے بوائی کی تو تین ماہ تک بارش ہی نہ ہوئی۔ اس کے بعد اس قدر شدید طوفانی بارشیں آئیں کہ زمین کا کٹاؤ شروع ہو گیا۔
"زرعی زمین جو پہلے ہی کم تھی اس میں اب مزید کمی آ گئی ہے اور پیداوار پر بھی اثر پڑا ہے، ہمارا انحصار اسی زمین پر رہا ہے، چھ ماہ محنت کرکے فصل اگاتے تھے تو گھر کیلئے راشن بھی آجاتا تھا، فصل کا کچھ حصہ فروخت کرکے گھریلو ضروریات کیلئے کچھ نقد رقم بھی مل جاتی تھی، مگر اب یہ ممکن نہیں رہا۔"
شازیہ کنول کا تعلق وادیٔ نیلم کے علاقے لیسوا سے ہے۔ ان کے شوہر کچھ عرصہ پہلے سیلاب میں جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ ان کا گھر اور زرعی زمین بھی سیلاب کی نذر ہو گئی تھی۔ اس طرح ان کے خاندان کا واحد ذریعہ معاشی نہ رہا اور اب وہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ بمشکل گزربسر کر رہی ہیں۔
حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے متبادل زمین فراہم کرنے یا مالی معاونت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت نے انہیں صرف ڈیڑھ لاکھ روپے معاوضہ دیا جس میں ان کے لیے زمین خریدنا اور گھر بنانا ممکن نہیں تھا۔
انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی زمین پر ایک خیمہ لگایا ہے جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ چونکہ اس جگہ سے قریب ایک برساتی نالہ گزرتا ہے اسی لیے انہیں اپنے بچوں کے تحفظ کی بابت دھڑکا لگا رہتا ہے۔ کوئی متبادل جگہ میسر نہ ہونے کے باعث وہ وہیں رہنے پر مجبور ہیں۔
شازیہ نے بتایا کہ انہوں نے سنا تھا کہ سعودی حکومت کی جانب سے لیسوا متاثرین کو متبادل زمین فراہم کرنے اور رہائشی کالونی بنانے کیلئے حکومت آزاد کشمیر کو امدادی رقم دی گئی تھی، مگر انہیں کوئی خبر نہیں کہ اس کا کیا ہوا۔
ضلع نیلم کی انتظامیہ کے مطابق 2019 کے سیلاب میں صرف لیسوا میں چار سو بہتر کنال زرعی رقبہ متاثر ہوا تھا۔ ڈپٹی کمشنر آفس سے رائٹ ٹو انفارمیشن (آرٹی آئی) کے قانون کے تحت حاصل کردہ معلومات کے مطابق بے زمین متاثرین کو متبادل اراضی فراہم کرنے کا معاملہ تاحال التوا کا شکار ہے۔ جہاں تک معاوضوں کا تعلق ہے تو متعین شدہ حکومتی شرح کے مطابق نو افراد کے ورثاء کو امدادی رقوم، 76 مکانات، 42 دکانیں، مال مویشی کا نقصان برداشت کرنے والے 56 افراد ایک کروڑ اکیا سی لاکھ روپے ادا کیے جا چکے ہیں۔
سٹیٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی( ایس ڈی ایم اے ) کے مطابق 2019 سے جون 2023 تک سیلاب آنے کے مختلف واقعات میں 254 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ تاہم نقصان کی کل کتنی مالیت کے بارے میں بورڈ آف ریونیو کے پاس کوئی اعداد وشمار نہیں ہیں۔
گزشتہ پانچ سال میں زرعی رقبہ کتنا کم ہوا حکومتی ادارے اس بارے میں بھی لاعلم ہیں۔ محکمہ زراعت کے پاس بھی اس حوالے سے کسی طرح کی کوئی تحقیق یا اعدادوشمار نہیں ہیں۔
محکمۂ زراعت کے سابق ریسرچ آفیسر شفیق الرحمان سے جب اس بارے میں معلومات لی گئیں تو انہوں نے بتایا کہ آزاد کشمیر میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث فصلوں، پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ فصلوں کی کاشت کا وقت تبدیل ہوا ہے جس سے فصلوں اور پھلوں کے معیار اور ذائقے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
"سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے بارشوں کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کہیں پر بارش زیادہ ہوتی ہے اور کہیں کم۔ وادی نیلم، وادی لیپہ ،باغ ،حویلی ،کوٹلی اور بھمبر میں بارشوں کا اپنا نظام تھا، کھیتی باڑی ایک مخصوص وقت پر ہوا کرتی تھی، مگر اب بارشوں کے اوقات کار میں تبدیلی کے باعث زرعی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ ان تبدیلیوں سے نہ صرف پھلوں اور فصلوں کی بیماریوں میں اضافہ ہوا، بلکہ نت نئے حشرات کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے جن میں ٹڈیوں، فروٹ فلائی اور کیڑوں کی مختلف اقسام شامل ہیں۔
شفیق الرحمان نے مزید بتایا کہ موسمی تغیر کی وجہ سے زمین بنجر اور کٹاؤ کا شکار ہو رہی ہے جبکہ اس کی زرخیزی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قدرتی طور پر پہاڑوں کے اوپر پائے جانے والے پودے کم درجہ حرارت پر موجود زرخیزی کو استعمال کرتے ہیں تاہم درجہ حرارت بڑھ جانے سے یہ زرخیزی بھی ختم ہو رہی ہے۔
ظفر جہانگیر محکمۂ زراعت میں بطور ریسرچ آفیسر کام کرتے ہیں۔ جب ان سے فصلوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے تحفظ دینے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مکئی اور گندم کی فصل، سبزیوں اور پھلوں پر اس حوالے سے تحقیق جاری ہے اور نئے بیج متعارف کرانے کی کوششیں ہورہی ہیں تاکہ پیداوار بڑھائی جاسکے اور فصلوں کے انتخاب میں بھی کسانوں کی رہنمائی کی جارہی ہے۔
"ہمارے ہاں فروٹ فلائی کے حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، پہلے کم درجۂ حرارت کے باعث سے یہ مرجاتی تھیں، مگر اب ایسا نہیں ہو رہا، اسی طرح پہلے اس خطے میں جنگلی سؤروں کے موجودگی کے کوئی آثار نہیں ملتے مگر موسمیاتی تبدیلی سے اس خطے میں ان کی افزائش بڑھی ہے اور جو تھوڑی بہت فصل ہوتی ہے، وہ اسے بھی تباہ کر دیتے ہیں۔"
ان سے جب پوچھا گیا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران کتنی فیصد زرعی زمین کو نقصان پہنچا ہے اور پیداوار پر کیا اثر پڑا ہے تو انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ان کے پاس کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
ان معلومات کے حصول کے لیے جب سیکرٹری زراعت سردار جاوید ایوب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ ڈائریکٹر محکمۂ زراعت اعظیم خان نے بتایا کہ ڈیٹا محکمے زراعت کے پاس سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
ادارۂ تحفظ ماحولیات کی جانب سے 2018 میں ماحولیاتی صورت حال سے متعلق رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر میں نئے گھروں کی تعمیرات اور بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پہلے ہی زرعی زمین کم ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے، کہ آزاد کشمیر میں زرعی رقبہ صرف 24.5 فیصد ہے اور 2018 کے بعد اس بارے میں کسی بھی حکومتی ادارے نے مزید کوئی تحقیق نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں
ہواؤں کے بدلتے رخ سے انجان رہے ہم: پاکستان کا زرعی شعبہ موسمیاتی تبدیلی سے کن تبدیلیوں کی زد میں ہے؟
کلائمیٹ چینج سیل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار رفیق کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی زراعت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
"آزاد کشمیر کا زرعی رقبہ نہ صرف سکڑا ہے بلکہ مختلف فصلیں بھی ناپید ہوگئی ہیں۔ وادیٔ نیلم میں شونٹر اور گریس ویلی میں شہریوں کی زندگی کا انحصار جن فصلوں پر تھا اب ان کے صرف تذکرے ہی سننے کو ملتے ہیں۔"
"پانچ سال قبل وادی نیلم میں دو کلو تک وزن کا ایک خاص آلو پیدا ہوتا تھا مگر اب وہ ختم ہو گیا ہے، اسی طرح سردیوں میں جب بارش اور برف باری کے باعث راستے بند ہو جاتے تھے تو لوگ تونبہ کی روٹی استعمال کرتے تھے مگر اب یہ ناپید ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔
سردار رفیق نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث موسم بہار ختم ہو چکا ہے، سردی سے فوراً بعد گرمی شروع ہوجاتی ہے۔گزشتہ پچاس سال میں اوسطاً درجہ حرارت میں 2 سینٹی ڈگری اضافہ ہوا ہے جبکہ اگلے پچاس سال میں مزید تین ڈگری اضافے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بدلتے موسمی حالات کو مدنظر رکھ کر اگر کاشت کاری کی جائے تو مستقبل میں غذائی قلت کے خطرے سے بچاؤ ممکن ہے۔
تاریخ اشاعت 21 ستمبر 2023