سندھ میں میرپور خاص کے بعد ٹنڈو الہ یار کو آم کا دوسرا بڑا گڑھ کہا جاتا ہے۔ یہاں شہر کے گرد چار سُو آم کے باغات دکھائی دیتے ہیں جہاں سندھڑی، انور رٹول، لنگڑا، چونسا، اور دسہری سمیت کئی طرح کے آم اگائے جاتے ہیں جنہیں اندرون و بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سال یہاں آم کی پیداوار میں کم از کم 20 فیصد کمی کا اندیشہ ہے جس نے کسانوں، آم کے تاجروں اور اس پھل کی فصل اور صنعت سے وابستہ لاکھوں لوگوں کو پریشانی سے دوچار کر دیا ہے۔
ٹنڈو الہ یار کی تحصیل چمبڑ کے ہادی بخش لغاری 80 ایکڑ پر آم کے باغات کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال آنے والی شدید بارشوں اور سیلاب سے آموں کے باغت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
''مجھے اپنے باغوں میں بیس فیصد درخت کاٹنا پڑے جو سیلابی پانی کے باعث ناکارہ ہو گئے تھے۔ اس سال بھی بارش اور ژالہ باری سے سے درختوں پر بور ختم ہو گیا۔ پہلے میں فی ایکڑ آم کا سودا تین لاکھ روپے میں کرتا تھا جبکہ امسال مجھے ڈھائی لاکھ سے زیادہ نہیں ملیں گے۔''
محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر علی نواز کے مطابق گزشتہ سال جب بارشیں شروع ہوئیں تو وہ آم کی برداشت کا موسم تھا۔ بارشوں میں تقریباً 15 فیصد پھل ضائع ہو گیا۔ ٹنڈو الہ یار کے علاوہ میرپور خاص، مٹیاری، سانگھڑ اور دیگر اضلاع میں بھی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
کراچی میں آم کے کاروبار سے منسلک فدا حسین کا کہنا ہے کہ وہ ہر سال ٹنڈو الہ یار اور میرپور خاص میں آم کے باغات ٹھیکے پر لیتے ہیں اور فصل کو اندرون و بیرون ملک برآمد کرتے ہیں۔ گزشتہ سال ان کی فصل کو اس قدر نقصان پہنچا کہ وہ آم برآمد نہ کر سکے۔
''پچھلےسال میں نے سو ایکڑ کا باغ تین لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے دو سال کے ٹھیکے پر لیا تھا۔ اس فصل سے مجھے آم کے صرف 40 ٹرک حاصل ہوئے۔ ایک ٹرک میں تقریباً ایک ہزار کلو آم آتا ہے۔ اس فصل کا ریٹ بھی اچھا نہ مل سکا اور مجموعی طور پر مجھے تین کروڑ کے ٹھیکے میں ایک کروڑ کا نقصان ہوا۔''
ٹنڈو الہ یارمیں اس سال آم کی پیداوار میں کم از کم 20 فیصد کمی کا اندیشہ ہے
فدا حسین کہتے ہیں کہ طوفانی بارشوں اور گرمی میں اضافے سے آم کی پیداوار بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ پیداوار کم ہونے سے اس مرتبہ پنجاب اور بلوچستان سے آموں کے بیوپاریوں کی آمد کے امکانات بھی کم ہیں۔
''جس علاقے میں میرے باغات ہیں وہاں مارچ میں بارش بہت کم ہوئی ہے لیکن درجہ حرارت میں اچانک اور بار بار تبدیلی سے آم کے پھل کو 'محلو' نامی بیماری نے آ لیا ہے جس سے پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔
پاکستان آم پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے اور یہاں اوسطاً سالانہ 1.7 سے 1.8 ملین ٹن آم اگایا جاتا ہے۔ دو سال پہلے پاکستان نے ایک لاکھ 25 ہزار ٹن آم برآمد کیا تھا جبکہ گزشتہ سال برآمدی ہدف میں 25 ہزار ٹن کمی کر دی گئی تھی۔ پاکستانی آم 37ممالک کو برآمد کیے جاتے ہیں۔ ملک میں آم کی مجموعی پیداوار میں سندھ کا حصہ 20 فیصد اور برآمد میں اس کا حصہ 50 فیصد ہے۔
سرکاری اعداد شمار مطابق 2021 میں سندھ میں ایک لاکھ 62 ہزار 232 ایکڑ رقبے پر آم کے باغات تھے۔ ٹنڈوالہ یار میں آم کا زیرکاشت رقبہ ساڑھے 21 ہزار ایکڑ تھا جہاں 54 ہزار 715 میٹرک ٹن پیداوار ہوئی جبکہ پچھلے سال آنے والی بارشوں کے بعد نئے درختوں کی کاشت نہ ہونے کے برابر ہوئی ہے۔
آبادکار رہنما علی پلھ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ آم کی پیداوار کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ آم کو بڑھنے کے لیے 34 ڈگری درجہ حرارت درکار ہوتا ہے جبکہ گزشتہ سال ٹنڈو الہ یار میں 50 ڈگری تک گرمی پڑی جس میں آم کا پھل نشوونما نہیں پاتا اور نہ ہی اس میں مٹھاس آتی ہے۔ گزشتہ سال بارشوں کی وجہ سے باغات میں پانی کھڑا ہو گیا تھا جس سے آم کی فصل کو بہت نقصان ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا: 'سندھ میں ہونے والے موسمیاتی تغیرات کا اثر فصلوں کی پیداوار اور کسانوں کی آمدن دونوں پر پڑے گا'۔
سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے سینئر نائب صدر نبی بخش سٹھیو اور ڈگھڑی کے احسان جروار آم کے کاشت کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مارچ میں ہونے والی بارشوں اور ژالہ باری نے آم کے بور کو ختم کر دیا ہے۔ اس مرتبہ کیریاں بھی کم اُگی ہیں اور امسال درجہ حرارت زیادہ رہا تو آم کا نقصان بھی بڑھ جائے گا۔
پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے ترجمان نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال آم کی برآمد 25 ہزار ٹن تک کم رہی تھی جس میں اس سال مزید کمی آنے کا خدشہ ہے۔
سندھ زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر اور زرعی ماہرڈاکٹر اسماعیل کنبہر کہتے ہیں کہ پاکستان میں 300 اقسام کا آم پیدا ہوتا ہے جس میں سے 200 اقسام سندھ میں اگائی جاتی ہیں۔ میرپورخاص، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو جان محمد، سانگھڑ، ٹنڈو آدم اور دیگر علاقوں کے باغات میں گزشتہ سال بارش کا پانی کئی ماہ تک کھڑا رہا جس سے آم کے پودوں کو سخت نقصان پہنچا۔ اندیشہ ہے کہ اس سال پیداوار بہت کم رہے گی۔
''حکومت نے تمام پھلوں کی پیداوار کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں مگر آم کے باغات کے لیے کوئی بندوبست نہیں کیا۔ ہر سال لاکھوں ٹن آم خراب ہو جاتا ہے جس کی حفاظت کے لیے کولڈ چین قائم کرنے اور کاشتکار کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ "
تاریخ اشاعت 5 اپریل 2023