ضلع کیچ کے نواحی علاقوں میں کجھور کے درجنوں باغات ہیں جہاں کئی اقسام کی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔ عبدالرحیم کا باغ نواحی علاقے سامی میں ہے۔ انہوں نے 10 ایکڑ پر کھجور کی مختلف اقسام کے تقریباً ایک ہزار درخت لگا رکھے ہیں۔ ان میں بیگم جنگی، حلینی، حسینی اور کونگو اقسام اہم ہیں۔ تاہم عبدالرحیم اپنے کام سے خوش نہیں ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایک درخت سال میں تقریبا ایک من کھجور دیتا ہے۔ اس میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے لیکن پچھلے چند سال سے پیداوار میں بہت زیادہ گراوٹ ہے۔
"بے موسمی بارشوں اور پھر ان کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں نے کھجور کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پیداوار کا ایک چوتھائی گل سڑ جاتا ہے، یہی ہماری آمدن تھی جس سے ہم محروم ہوگئے ہیں"۔
ایگریکلچر مارکیٹنگ اینڈ انفارمیشن سروس کے مطابق کیچ میں تقریباً 61 ہزار ایکڑ پر کجھور کے باغات ہیں اور یہاں کجھور کی سالانہ پیداوار ایک لاکھ 50 ہزار ٹن سے زائد ہے۔
یہاں پیدا ہونے والی کھجور کی مشہور اقسام میں موزاتی، ایلینی، شکر، گوک ناہ، پشپاک، کُنگو، کُروچ، دشتیاری، گوں زلی، آب دندان اور چپشوک شامل ہیں۔
بلوچی زبان میں کھجور کے لیے اورماگ اور ناہ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ جس سیزن میں کھجور اتاری جاتی ہے اسے "ہامین " کہا جاتا ہے۔
پنجگور، بلوچستان میں کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرا بڑا ضلع ہے۔ یہاں تقریباً 47 ہزار ایکڑ پر پھیلے کجھور کے باغات سے سالانہ تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار ٹن پیداوار ہوتی ہے۔
اس ضلع میں موزاوتی، کہربا، جوان سہر، سبزو، ربئی اور شریفہ کھجور کی معروف اقسام ہیں۔
ان میں سب سے زیادہ قیمتی اور لذیز کجھور موزاوتی ہے۔ پنجگور میں موزاوتی کی پیداور ضلعے کی کل پیداوار کا تقریباً 20 فیصد ہے۔
واشک، خاران، آواران اضلاع اور ضلع کچھی کی تحصیل مچھ میں بھی محدود پیمانے پر کجھور کی پیداوار ہوتی ہے۔
ورلڈ سٹیس کے مطابق 2023ء میں دنیا بھر میں کھجور کی پیداوار میں مصر، سعودی عرب، ایران، الجیریا اورعراق کے بعد پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2013-14ء سے لے کر 2021-22ء تک ہر سال اوسطً تقریباً پانچ لاکھ 43 ہزار ٹن کھجور پیدا ہوئی ہے۔
مالی سال 2021-22ء میں پاکستان میں کل آٹھ لاکھ 38 ہزار ٹن کجھور پیدا ہوئی تھی جس میں سے پانچ لاکھ 94 ہزار ٹن بلوچستان سے تھی یعنی کھجور کی مجموعی پیداوار میں بلوچستان کا حصہ 71 فیصد تھا۔ لیکن ملک بھر میں سے صرف ایک لاکھ ٹن سے زائد کھجور برآمد کی جاتی ہیں اور باقی یا تو مقامی طور پر استعمال ہوتی ہیں یا پھر ضائع ہو جاتی ہیں۔
مکران ڈویژن میں کھجور کی درجنوں اقسام پیدا ہوتی ہیں، جنہیں امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔
محکمہ زراعت کے ریسرچ آفیسر حامد آزاد بلوچ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پاکستان میں اعلی معیار کی کھجور پیداہوتی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کجھور کے باغات پر بھی پڑ رہے ہیں۔ بے وقت اور غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے کجھور کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔بدقسمتی سے مکران ڈویژن میں کھجور کے کاشتکاروں کو پہلے پانی کی کمی اور پھر شدید سیلاب کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ بے وقت کی بارشوں سے موسم نم ہوجاتا ہے اور کجھور کے لیے نمی نقصان دہ ہوتی ہے۔
"جب کجھور پولینیشن پراسس میں ہو یا پکنے کے آخری مراحل میں ہو تو زیادہ نمی کی وجہ سے سڑنے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔کجھور کو پکنے کے لیے خشک اور گرم موسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2020ء میں زیادہ بے موسمی بارشوں کی وجہ سے پنجگور میں تقریباً 90 فیصد کجھور ضائع ہو گئی تھی جس سے زمینداروں کو کروڑوں روپوں کا نقصان ہوا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صوبے کے مکران ڈویژن میں تقریباً ایک تہائی زمینداروں کا ذریعہ معاش کجھور پر منحصر ہے۔ تاہم صوبے میں سرکاری سطح پر کھجوروں کی پیداوار کو محفوظ بنانے کے لیے جدید طریقے کی سہولیات کا فقدان ہے۔
"کولڈ اسٹوریج، پراسیسنگ یونٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال پیداوار کا 30 فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے، ایسے میں مقامی زمینداروں کی جانب سے مختلف روایتی طریقوں کا استعمال کر کے فصل کو محفوظ بنانے کی کوشش کرتے ہیں"۔
انہو نے کہا کہ اس وقت کیچ کی تحصیل تربت اور پنجگور میں ایک ایک سرکاری کولڈ سٹوریج موجود ہیں لیکن پنجگور کا سرد خانہ غیر فعال ہے۔ ان علاقوں میں دو نجی کولڈ سٹوریج اور پراسیسنگ یونٹ کام کر رہے ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔
زرعی ماہر حامد آزاد بلوچ کے مطابق سرکاری سطع پر ایک کولڈ اسٹوریج میں کجھور رکھنے کی گنجائش صرف ایک ہزار ٹن ہے اور نجی کولڈ اسٹوریج میں کجھور رکھنے اور اسٹور کرنے کی گنجائش صرف 100 ٹن کی ہے، جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
حامد آزاد بلوچ نے لوک سجاگ کو بتایا کجھور کی پیداوار کو موسمیاتی تبدیلی سے بچانے کے لیے حکومت کچھ حد تک اقدامات کر رہی ہے۔
گذشتہ کچھ سالوں سے محکمہ زراعت اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے زمینداروں کو نہ صرف آگاہی تربیت فراہم کی جا رہی ہے بلکہ اس دوران زمینداروں کے مختلف گروپس کو ملکی اور غیر ملکی دورے بھی کرائے گئے ہیں جس سے انہیں معلومات اور نئی ٹیکنالوجی سے آگاہی ملی ہے۔
"لیکن تربیتی عمل محدود پیمانے پر ہونے کی وجہ سے ابھی بھی بہت سے مقامی زمیندار اس تربیتی پروگرام سے محروم ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت اور نجی شعبے کو ایسے آگہی پروگراموں کو وسعت دینے کی ضرورت ہے"۔
انہوں نے کہا کہ کھجور کو زیادہ پانی درکار نہیں ہوتا لیکن بلوچستان میں کاریز سسٹم، جو کہ یہاں کا ایک پرانا طریقہ آب پاشی ہے، بھی عدم توجہی کا شکار ہے جسے اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔
"حکومت کو چاہیے کہ زمینداروں کو سولر انرجی پر منتقل ہونے میں مدد کرے اس کے ساتھ ساتھ پراسسنگ یونٹ اور کولڈ سٹوریج کی تعداد کو بھی دوگنا کرنا ہوگا"۔
تربت میں کجھور کے باغات میں کام کرنے والے مزدور عبداللہ بلوچ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ تربت میں انڈسٹری اور نوکریاں نہ ہونے کی وجہ سے شہر کی آبادی کا بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔
"تربت کی کجھور دنیا میں پسند کی جاتی ہیں لیکن حکومتی عدم دلچسپی کے باعث زمینداروں کو ہر سال نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
ہواؤں کے بدلتے رخ سے انجان رہے ہم: پاکستان کا زرعی شعبہ موسمیاتی تبدیلی سے کن تبدیلیوں کی زد میں ہے؟
انہوں نے بتایا کہ مقامی زمینداروں کو ایکسپورٹ اور کوالٹی پیکنگ کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا ہے۔
"موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کے لیے پکے ہوئے خوشوں کو نمی سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈھانپنا ضروری ہے۔ اس کے لیے پلاسٹک بیگز،گرین ہاوس جالیاں وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں لیکن یہ طریقہ مہنگا پڑتا ہے اور غریب اور متوسط طبقے کے زمینداراروں کی گنجائش سے باہر ہے"۔
پنجگور کے زمیندار گہرام بلوچ نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مقامی زمینداروں کے پاس وسائل اور تربیت کے فقدان کے باعث ضلع کی کجھور مقامی مارکیٹ تک پہنچتے پہنچتے خراب ہو جاتی ہیں۔ پنجگور میں سرکاری کولڈ اسٹوریج مکمل فعال نہ ہونے کی وجہ سے مقامی زمینداروں کو پرائیوٹ کولڈ اسٹوریج میں کجھوروں کو رکھنا پڑتا ہے۔ جو پورے شہر کے لیے ناکافی ہیں اور زمینداروں پر اضافی بوجھ الگ سے پڑتا ہے۔
"پاکستان کی مارکیٹوں میں ایرانی کجھور تو باآسانی دستیاب ہے لیکن بلوچستان کی کجھور بہت کم ملتی ہے"۔
وہ اس کی یہ وجہ بتاتے ہیں کہ ایران میں حکومت ہر زمیندار کو تمام سہولیات جیسا کہ پانی اور کھاد بھی مفت فراہم کرتی ہے۔ پھل تیار ہونے کے بعد سرکار کی جانب سے ہی کھجور خرید لی جاتی ہے۔ یوں زمیندار پر کسی قسم کا بوجھ نہیں پڑتا۔
"لیکن پاکستان میں تمام اخراجات زمیندار خود کرتا ہے۔ اس کے باوجود مارکیٹ میں پروڈکٹ کی مناسب قیمت نہیں ملتی جس سے زمینداروں کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے"۔
تاریخ اشاعت 22 فروری 2024