موسمیاتی تبدیلی، شہد کی پیداور اور مگس بان خواتین کے روزگار کو کیسے تباہ کر رہی ہے؟

postImg

شاہ خالد

postImg

موسمیاتی تبدیلی، شہد کی پیداور اور مگس بان خواتین کے روزگار کو کیسے تباہ کر رہی ہے؟

شاہ خالد

پچاس سالہ شاہی مندروز بی بی، باجوڑ کے ضلعی ہیڈکوارٹر خار سے 26 کلومیٹر دور واقع گاؤں گیلے کی رہائشی ہیں جو 20 سال سے گھر میں مگس بانی کر رہی ہیں۔ انہوں نے شہد کی مکھیاں پالنے کا کام اپنی ساس سے سیکھا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ پچھلے سال تک اس کاروبار سے انہیں اچھی آمدنی ہوتی رہی  وہ سال میں دو مرتبہ شہد فروخت کرتی تھیں اور آسانی سے گھر چلا لیتی تھیں۔ لیکن اب شہد کی مکھیوں نے ان کے مٹکوں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

’’میں نے گھر میں چار مٹکے لگا رکھے ہیں جن سے سال میں دو مرتبہ 10کلو سے زائد شہد حاصل ہوتا تھا۔ یوں مجھے چار ہزار روپے فی کلو کے حساب سے تقریباً ایک لاکھ روپے آمدنی ہو جاتی تھی لیکن اب ان مٹکوں میں مکھیاں نہیں آتیں اور اگر آتی ہیں تو کچھ ہی دنوں میں مر جاتی ہیں۔"

وہ کہتی ہیں کہ مگس بانی کی آمدنی پوری طرح ختم ہو چکی ہے اور اب گزارہ صرف مردوں کی محنت مزدوری پر چل رہا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے 14 سالہ بیٹے کی تعلیم جاری نہیں رکھ پائیں اور وہ مزدوری کے لیے کشمیر چلے گئے ہیں۔

ایسا صرف شاہی مندروز بی بی کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس گاؤں میں شہد کی مکھیوں کے لیے رکھے تمام مٹکے خالی پڑے ہیں۔

باجوڑ کے پہاڑی علاقوں کے اکثر مرد مزدوری اور خواتین گھروں میں روایتی طریقوں سے شہد کی مکھیاں پالتی ہیں۔ تین لاکھ فراد پر مشتمل تحصیل ماموند میں بھی یہی صورت حال ہے جہاں بیشتر خاندانوں کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ مگس بانی ہے۔

گیلے گاؤں میں 200 گھرانے آباد ہیں۔ مقامی کونسلر کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے صرف اسی یونین کونسل میں پانچ سو سے زائد خواتین کا روزگار ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ جس سے ان گھروں میں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ چکے ہیں۔

پاکستان بزنس کونسل کے مطابق ملک میں سالانہ تقریباً 15ہزار ٹن خالص شہد پیدا ہوتا ہے جس کا تقریباً 25 فیصد ہی برآمد ہو پاتا ہے۔

مئی 2022ء میں جاری کردہ بزنس کونسل کی ریسرچ رپورٹ  بتاتی ہے کہ شہد کی عالمی مارکیٹ کا حجم 7.84 ارب امریکی ڈالر ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ خالص شہد پیدا کرنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں چین پہلے نمبر پر ہے جس کے بعد بالترتیب ترکی، ایران، ارجنٹائن، یوکرین، امریکہ، بھارت، روس، میکسیکو اور ایتھوپیا  آتے ہیں۔

شہد کی عالمی پیداوار میں 50 فیصد حصہ ٹاپ فائیو ممالک کا ہے جبکہ مجموعی عالمی پیداوار کاایک تہائی سے زیادہ صرف چین اور ترکی پیدا کرتے ہیں۔

ماموند کے نواحی گاؤں ناواگئی کے رہائشی 55سالہ مولانا خان زیب پچھلے 30 برس سے مگس بانی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پاکستان میں شہد کی مکھیوں کے تقریباً 30 ہزار  فارمز ہیں لیکن گھر یلو مگس بانی کا کوئی مستند ڈیٹا دستیاب نہیں۔

پاکستان  نے 2020 ء میں 98 لاکھ امریکی ڈالر ( عالمی تجارت کا نصف فیصد سے بھی کم) کا شہد برآمد کیا جبکہ اسی سال 18 لاکھ ڈالر مالیت کا شہد درآمد کیا گیا۔

تاہم پاکستانی شہد کی برآمد اب مزید کم ہو گئی ہے جوعالمی تجارتی ڈیٹا ویب سائٹ  'ورلڈ انٹیگریٹڈ ٹریڈ سالوشن' کے مطابق 2022ء میں 80 لاکھ 49 ہزار ڈالر رہی جبکہ ایک اور ویب سائٹ او ای سی  یہ ایکسپورٹ 87 لاکھ 40 ہزار ڈالر اور امپورٹ 12 لاکھ 80 ہزار ڈالر بتاتی ہے۔

پاکستان بزنس کونسل کی رپورٹ کہتی ہے کہ شہد کی عالمی پیداوار 2015ء میں تقریباً 1.87 ملین میٹرک ٹن تک پہنچ گئی تھی لیکن 2020ء میں کم ہو کر تقریباً 1.77 ملین میٹرک ٹن پر آ گئی۔

"شہد کی پیداوار میں حالیہ کمی کی بڑی وجوہات کیڑے مار ادویات کا بڑھتا استعمال، مکھیوں کے مسکن کی تباہی، فضائی آلودگی اور گلوبل وارمنگ ہیں۔"

مولانا خان زیب بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مگس بانی  سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے جن میں بیشتر خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ضلع باجوڑ میں مگس بانی کے لگ بھگ ایک ہزار فارم ہیں جہاں تقریباً تین ہزار لوگ کام کرتے ہیں۔

"ہمارے ضلعے میں سالانہ تین ٹن سے زائد خالص شہد پیدا ہوتا ہے جس میں گھروں میں پالی جانے والی مکھیوں کا شہد بھی شامل ہے۔

باجوڑ سمیت ملک بھر میں مئی اور ستمبر میں شہد حاصل کیا جاتا ہے جس کی اقسام میں پلوسہ، شوہ، مالٹا، بیکھڑ، الائچی، کریچی، شینشوب اور بیر کا شہد قابل ذکر ہیں۔"

طیب خان مروت، ضم شدہ اضلاع میں محکمہ نان ٹمبر فاریسٹ پراڈکٹس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں اور مگس بانی کے ماہر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پھولوں کے موسم کا دورانیہ کم ہو گیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ پھولوں کے موسم کا دورانیہ کم ہونے کے نتیجے میں شہد کی مقامی مکھیوں کی اقسام جو چار ہوتی تھیں اب کم ہو کر دو رہ گئی ہیں۔ یعنی شہد کی مکھیوں کی دو اقسام ہی ختم ہو گئی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی اور مگس بانی

ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سوات میں تعینات، ماہرموسمیات ڈاکٹر روشن علی بتاتے ہیں کہ اگر 2008ء سے 2022ء تک کے موسمیاتی ڈیٹا پر نظر ڈالیں تو بہت زیادہ فرق آچکا ہے۔ اس ریجن میں پہلے اوسط درجہ حرارت کم اور بارشیں زیادہ ہوتی تھیں جس کے نتیجے میں موسم خوشگوار رہتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں کے موسم میں دو بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جو فصلوں اور باغات کے لیے نقصان کا باعث بن رہی ہیں۔ ایک تو بارشوں کے سیزن میں تبدیلی آئی ہے اور دوسرا ایک ہی وقت میں زیادہ بارش ہوتی ہے۔

"ان بے ہنگم تبدیلیوں سے فصل میں زیادہ جڑی بوٹیاں اگ آتی ہیں جنہیں تلف کرنے کے لیے کاشت کار زہریلی دوا کا بے دریغ سپرے کرتے ہیں جوشہد کی مکھیوں کو تباہ کر رہا ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ متعدل موسم شہد کی مکھیوں کی پیداواری صلاحیت بڑھاتا ہے۔ اس کے برعکس بے وقتی بارشوں، تیز ہواؤں اور شدید موسمی حالات کی وجہ سے نہ صرف شہد کی مکھیوں کی تعداد بلکہ ان کی نسلوں (اقسام) میں بھی نمایاں کمی آ گئی ہے۔

شاہی مندروز کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتیں کہ موسمیاتی تبدیلی کیا ہوتی ہے تاہم انہیں اس بات کا علم ہے کہ اس علاقے میں پہلے ہر طرف ہریالی تھی، پہاڑوں اور میدانوں میں پھول کھلے رہتے تھے۔ لیکن اب بے وقتی بارشوں اور خشک سالی کے باعث مکھیوں نے خوراک کی تلاش میں ادھر آنا چھوڑ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

خلیجی ممالک میں منافع بخش پاکستانی شہد کےکاروبار کو زوال کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟

"شہد کی جو مکھیاں ہمارے مٹکوں میں آتی ہیں انہیں بیماریاں لگ جاتی ہیں اور وہ مرنا شروع جاتی ہیں۔"

شاہی مندروز کے شوہر ابراہیم شاہ اپنی اہلیہ کے کاروبار سے بہت خوش تھے اور مگس بانی میں ان کی مدد کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ کاروبار ٹھپ ہونے سے انہیں تنگدستی نے گھیر لیا ہے۔ اب حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے کا حل نکالے۔

اگرچہ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کی رپورٹ 21-2020ء میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہد کی مکھیوں میں بہتری (منیجمنٹ ٹیکنالوجیز امپروومنٹ) لائی گئی ہے جو بیماریوں کے خلاف زیادہ مزاحمت اور خشک سالی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

 "ان اقسام کو مختلف زرعی ماحولیاتی زونز یعنی بلوچستان، شمالی علاقہ جات کے خشک اور سرد ماحول کے لیے منتخب کیا گیا ہے جن کے پھیلاؤ (تقسیم کاری)نے پاکستان کو شہد کی زیادہ پیداوار دینے والا ملک بنا دیا ہے۔" تاہم باجوڑ میں اس کے آثار دیکھنے کو نہیں ملے۔

محکمہ نان ٹیمبر فارسٹ پراڈکٹس ضلع باجوڑ کے سینئر سپروائزر گل بادشاہ بتاتے ہیں کہ ان کا ڈیپارٹمنٹ 2014ء سے 2019ء تک لوگوں کو شہد کی مکھیاں پالنے کے لیے سالانہ 900 باکس تقسیم کرتا رہا مگر وہ بھی اب نہیں دیے جاتے۔

"تاہم خواتین ہمیشہ سے اپنی مدد آپ کے تحت گھروں میں مگس بانی کرتی رہی ہیں لیکن اب ان کو مالی امداد اور تربیت کی شدید ضرورت ہے۔"

تاریخ اشاعت 25 جون 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شاہ خالد کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ وہ مختلف علاقائی اور قومی نیوز ویب سائٹس، میگزین، اخبارات اور ریڈیو کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

معلومات تک رسائی کا قانون بے اثر کیوں ہو رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ریاست خاموش ہے.....

وہ عاشق رسولﷺ تھا مگر اسے توہین مذہب کے الزام میں جلا دیا

وزیراعلیٰ پنجاب کے مسیحی ووٹرز سہولیات کے منتظر

thumb
سٹوری

پانی کی قلت سے دوچار جنوبی پنجاب میں چاول کی کاشت کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

سندھ، عمرکوٹ: ایک طرف ہجوم کی شدت پسندی، دوسری طرف مانجھی فقیر کا صوفیانہ کلام

جامشورو پار پلانٹ: ترقیاتی منصوبوں کے سہانے خواب، مقامی لوگوں کے لیے خوفناک تعبیر

سندھ: وزیر اعلیٰ کے اپنے حلقے میں کالج نہیں تو پورے سندھ کا کیا حال ہو گا؟

thumb
سٹوری

لاہور کی چاولہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ
thumb
سٹوری

جامشورو تھرمل پاور سٹیشن زرعی زمینیں نگل گیا، "کول پاور پراجیکٹ لگا کر سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

پہلا پرکاش: گرو گرنتھ صاحب، شبد(لفظ) رہنما ہیں

thumb
سٹوری

لسانی ہجرت 2023: پنجابی اپنی ماں بولی کو گھروں سے نکال رہے ہیں

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.