ضد ہماری ہستیوں کی ابر ہے برسات ہے: چنے کی بہتر پیداوار کے لیے روایتی طریقہ کاشت میں تبدیلی کی ضرورت ہے

postImg

وقاص احمد خان

postImg

ضد ہماری ہستیوں کی ابر ہے برسات ہے: چنے کی بہتر پیداوار کے لیے روایتی طریقہ کاشت میں تبدیلی کی ضرورت ہے

وقاص احمد خان

بھکر کے شوکت حیات اور ان کے پانچ بھائیوں کے پاس تحصیل منکیرہ میں 21 ایکڑ زرعی زمین ہے اور یہ سب چنے کے کاشتکار ہیں۔ ان کی زندگی اچھی گزر رہی تھی لیکن پچھلے آٹھ سال سے پانچوں بھائی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ زمین اب بھی ان کے پاس ہے لیکن آسمان نامہربان ہے۔

ان لوگوں کا 21 میں سے 18 ایکڑ رقبہ بارانی ہے۔ شوکت حیات بتاتے ہیں کہ سات آٹھ سال پہلے وہ بارانی رقبے سے تقریباً دو تا ڈھائی سو من تک چنا اٹھاتے تھے یعنی ایک ایکڑ سے انہیں تقریباً آٹھ تا دس من پیداوار ہوتی تھی۔ لیکن کئی سال سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے اب وہ بمشکل پچاس سے ساٹھ من تک ہی حاصل کر پاتے ہیں۔

شوکت کا کہنا ہے کہ اخراجات اور آمدن کے فرق کو دیکھیں تو اس عرصہ میں انہوں نے نقصان ہی اٹھایا ہے۔

"آمدن ختم ہوئی تو مجبوراً ہمیں مزدوری کرنا پڑی۔اب ہم بڑے زمینداروں کی فصلوں کی کٹائی کر کے گزارہ کرتے ہیں۔ ہر سال ہم بارش کی امید پر چنا کاشت کرتے ہیں لیکن جب مارچ میں فصل اٹھانے کا وقت آتا ہے تو 90 فیصد پودے سوکھ چکے ہوتے ہیں۔''

ان کا کہنا ہے کہ اس سال بھی انہیں کوئی اچھی امید نہیں ہے کیونکہ اب تک اتنی بارش نہیں ہوئی جتنی اس فصل کو درکار ہوتی ہے۔

بھکر رقبے کے لحاظ سے صحرائے تھل کا سب سے بڑا ضلع ہے جہاں 18 لاکھ 32 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین زیرکاشت ہے۔ اس میں تقریباً ساڑھے دس لاکھ ایکڑ رقبہ بارانی ہے اور باقی آبپاشی کے مختلف ذرائع سے سیراب ہوتا ہے۔ یہاں شوکت حیات جیسے چھوٹے کسانوں کا دارومدار بارش پر ہے۔ تاہم بڑے زمینداروں نے اپنے رقبے پر ٹیوب ویل لگا رکھے ہیں۔

چنا اس علاقے میں کاشت ہونے والی سب سے بڑی فصل ہے۔

رواں سال پنجاب میں 18 لاکھ 41 ہزار ایکڑ رقبے پر چنا کاشت کیا گیا جس کا 97 فیصد تھل کے پانچ اضلاع میں اگایا گیا جن میں بھکر، خوشاب، لیہ، جھنگ اور میانوالی شامل ہیں۔ ان اضلاع میں چنے کے زیرکاشت رقبے کا 52 فیصد بھکر میں ہے۔

<p>پچھلے دس سال کے دوران پاکستان میں چنے کے زیر کاشت رقبے میں تقریباً 14&nbsp; فیصد تک کمی آئی ہے<br></p>

پچھلے دس سال کے دوران پاکستان میں چنے کے زیر کاشت رقبے میں تقریباً 14  فیصد تک کمی آئی ہے

اسد شاہ منکیرہ میں 13 ایکڑ رقبے کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایکڑ پر 30 کلو چنے کے بیج لگا کر چھ ماہ بعد 60 کلو پیداوار ملے تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ تین سال پہلے پیداوار کچھ بہتر ہوئی تھی لیکن اس کے بعد پچھلے دو سال سے اخراجات نکالنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔

اسد کے حالات خراب ہوئے تو انہوں ںے تین سال قبل نجی بینک سے زرعی قرضہ حاصل کیا لیکن وہ اب تک اسے واپس نہیں کر سکے اور اس پر سود بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرض تب ہی اترے گا جب فصل اچھی ہو گی۔

منکیرہ میں محکمہ مال کے گرداور مرید عباس بتاتے ہیں کہ بھکر میں چنے کے صرف چھوٹے کاشتکار ہی مشکل میں نہیں بلکہ بڑے زمیندار بھی پریشان ہیں۔ ان کے خیال میں خراب موسمی حالات پیداوار میں کمی کی واحد وجہ نہیں ہیں۔

"بڑے زمینداروں نے اپنی اراضی کو ہموار کر کے ٹیوب ویل لگا لیے ہیں۔ لیکن وہ فصل کو محفوظ رکھنے کے لیے کسی قسم کا سپرے نہیں کرتے۔ نتیجتاً پودوں کو فنگس لگ جاتی ہے اور پھلی کے اندر بنتا بیج سکڑ جاتا ہے یا بالکل ختم ہو جاتا ہے"۔

انہوں ںے بتایا کہ چنے کے کاشتکار فصل کی قیمت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔

"جب چنا کھیت سے اٹھایا جاتا ہے تو اس کا ریٹ کم ہوتا ہے۔ پچھلے دو سال سے یہ ریٹ 10 ہزار روپے فی بوری کے آس پاس رہا۔ چونکہ چھوٹے کسان فصل کاشت کرنے کے لیے ادھار لیتے ہیں اس لیے وہ اپنی فصل فوری طور پر آڑھتی کو بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ ادھار اتار سکیں۔ بڑے زمین دار عموماً چنے کو سٹاک کر لیتے ہیں اور جب اچھی قیمت ملتی ہے تو اسے بیچ دیتے ہیں"۔

"گزشتہ سال چنے کا فی بوری ریٹ 18 سے 20 ہزار تک گیا تھا لیکن اس قیمت کا فائدہ بڑے زمینداروں نے ہی اٹھایا"۔

<p>ملکی طلب کو پورا کرنے کے لیے ہر سال 5 ارب روپے کے چنے درآمد کرنے پڑتے ہیں<br></p>

ملکی طلب کو پورا کرنے کے لیے ہر سال 5 ارب روپے کے چنے درآمد کرنے پڑتے ہیں

بھکر میں قائم ایرڈ زون ریسرچ سنٹر موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تھل کے علاقوں میں کسانوں کو کاشت کے جدید ذرائع سے متعلق رہنمائی دیتا اور بہترین بیجوں کی تیاری اور کسانوں کو ان کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔ اس ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد حسین نے سجاگ کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ہوتے ہوئے روایتی طریقہ کاشت میں تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن زیادہ تر کاشت کار پرانے طور طریقوں پر قائم ہیں۔

"محکمہ زراعت نے چند سال پہلے خاص طور پر بارانی علاقوں میں ڈرپ اور سپرنکلر نظامِ آبپاشی پر کسانوں کو 60 فیصد سبسڈی کی سہولت کا اعلان کیا تھا لیکن پورے علاقے میں شاید ہی کچھ لوگ ہوں جو اس نظام کی طرف گئے ہوں۔

ڈاکٹر خالد حسین کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے ادارے کے تحقیقی فارم پر دیسی چنے کے بیجوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق بہتر بنا کر کاشت کیا ہے۔ ہموار زمین پر ٹیوب ویل جبکہ غیر ہموار زمین کو سپرنکلر نظام آبپاشی کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے نتیجتاً صرف ایک سے دو پانی دینے پر ہی یہاں بھرپور پیداوار ہوتی ہے۔

 "ہم وقتاً فوقتاً یہ آگاہی کسانوں تک پہنچا رہے ہیں لیکن نتائج انتہائی مایوس کن ہیں"۔

انہوں نے بتایا کہ ایک تو دور دراز کے کسان ان پروگراموں میں شرکت نہیں کر پاتے اور دوسرا  یہاں کا کسان بارانی فصل پر اس طرح محنت نہیں  کرتا جس طرح وہ ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب کی جانے والی فصلوں پر کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا: 'سندھ میں ہونے والے موسمیاتی تغیرات کا اثر فصلوں کی پیداوار اور کسانوں کی آمدن دونوں پر پڑے گا'۔

"سپرنکلر نظام آبپاشی نہ اپنانے کی ایک وجہ آگاہی کی کمی اور دوسری وجہ سہل پسندی ہے۔ اس طریقے میں پانی کے نظام کی کڑی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے جبکہ چنے کے کاشتکاروں کو اکتوبر میں چنا بونے کے بعد مارچ اپریل تک بے فکر ہو کر رہنے کی عادت ہے"۔

انہوں نے کہا کہ کسان فصل کو کھاد دینے اور سپرے کرنے سے بھی لاپروائی برتتے ہیں حالانکہ فصل کو ایک مرتبہ ڈی اے پی کھاد ضرور دینی چاہیے۔ اسی طرح فنگس کو بھی سپرے کرکے آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسان ان اقدامات پر عمل کریں تو بہتر پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔

پچھلے دس سال کے دوران پاکستان میں چنے کے زیر کاشت رقبے میں تقریباً 14فیصد تک کمی آئی ہے۔ چنانچہ ملک میں چنے کی درآمد بڑھتی جا رہی ہے اور ملک کو ہر سال اس کی طلب پوری کرنے کے لیے پانچ ارب روپے خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔

تاریخ اشاعت 7 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وقاص احمد خان کا تعلق بھکر سے ہے. پچھلے سات برس سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ علاقائی، سماجی اور سیاسی مسائل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

thumb
سٹوری

پانی کی تقسیم پر آگ کا کھیل: ارسا آرڈیننس، سندھ، پنجاب کی تکرار کو جھگڑے میں بدل سکتا ہے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

وادی تیراہ میں کھاد کی ترسیل اور امن و امان کے درمیان کیا تعلق ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

پاکستان کے دریاؤں کے 'نئے مالک' سے ملیے! ارسا ایکٹ 1992ء اور ارسا آرڈیننس 2024ء کا ایک تقابلی جائزہ

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ، کلیم اللہ

آزاد کشمیر: مظفر آباد کی بیکری جہاں خواتین کا راج ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.