ڈیرہ اسماعیل، خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے مشرق اور جنوب میں اس کی سرحدیں پنجاب کے شہروں میانوالی، بھکر اور ڈیرہ غازی خان سے ملتی ہیں جبکہ بلوچستان کے شہر ژوب سے اس کی سرحد تحصیل درازندہ کے ذریعے ملتی ہے، پھر اس کے پڑوس میں لکی مروت، ٹانک اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع ہیں۔
تینوں صوبوں کے سنگم پر یہی ایک بڑا شہر ہے، اسی لئے لوگ اپنی مختلف ضروریا ت کے لئے اسی شہر کا رُخ کرتے ہیں۔ ملحقہ قبائلی اضلاع اور 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع ٹانک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور ان علاقوں میں صحت اور دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں کے زیادہ تر خاندان جز وقتی اور کل وقتی ڈیرہ اسماعیل خان میں رہائش اختیار کر چکے ہیں۔جبکہ کئی خاندان اپنے بچوں کی معیاری تعلیم اور بہتر مستقبل کے لئے عارضی بنیادوں پر اس شہر میں رہائش پذیر ہیں۔
سولہ لاکھ سے بھی زائد آبادی والے اس شہر میں تین بڑے ہسپتال، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر زنانہ ہسپتال اور مفتی محمود ہسپتال موجود ہیں۔جہاں ضلع ڈی آئی خان کے علاوہ ٹانک، پیزو، درازندہ، بھکر، وانا، جنڈولہ، مکین، دریا خان اور ملحقہ علاقوں سے مریض لائے جاتے ہیں۔
ان مریضوں کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہوتی ہے، ان تین ہسپتالوں کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں بیسیوں پرائیویٹ ہسپتال بھی ہیں لیکن نہ صرف ضلع بھر بلکہ پورے جنوبی ریجن میں بچوں کے علاج کے لیے کوئی مناسب اور مخصوص ہسپتال موجود نہیں ہے۔
ماضی میں برسر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں ، بشمو ل پاکستان تحریک انصاف جو دو بار صوبے کی باگ دوڑ سنبھال چکی ہے، نے ہمیشہ یہاں چلڈرن ہسپتال تعمیر کرنے کا وعدہ تو ضرور کیا، مگر کبھی اس وعدے کو وفا کرنے کے لئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مریض بچوں کی اکثریت کو ملتان، پشاور، لاہور یا اسلام آبادکے ہسپتالوں میں بھیج دیا جا تا ہے۔
میڈیسن کمپنی میں بطور ایس ٹی ایم کام کرنے والے ڈی آئی خان کے نوجوان محمد عامر بتاتے ہیں ان کا چار سالہ بیٹا جب بھی بیمار ہوتا ہے تو وہ اسے ملتان لے جاتے ہیں کیونکہ انہیں ڈی آئی خان میں بچوں کے بہتر علاج کے لیے کسی بھی ماہر امراض اطفال پر اعتماد نہیں۔
"ڈی ایچ کیو میں بچوں کی مختلف بیماریوں جیسے یرقان، نیورو پروبلم (پیدائش کے وقت سانس میں مشکلات کی وجہ سے دماغ کو پہنچنے والے نقصان )، ٹائیفائڈ، دماغی امراض، ہڈیوں کی کمزوری (اوسٹیو پوریسس)، پیدائش کے بعد جھٹکے لگنا جیسی بیماریوں کا علاج یہاں ممکن نہیں ان بچوں کو بھی دیگر شہروں میں لے جایا جاتا ہے"۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے زنانہ ہسپتال میں روزانہ درجنوں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے، کئی سال قبل تعمیر ہونے والے زنانہ ہسپتال کے لیے شاید اب مزید بچوں کی دیکھ بھال کی گنجائش ممکن نہیں۔ نرسری وارڈ میں گنجائش نہیں ہوتی اور ایک بیڈ پر دو دو خواتین اور ان کے نومولود بچے زیر علاج ہوتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں زچہ و بچہ ڈپارٹمنٹ قائم تھے بعدازاں 1981 میں ڈسٹرکٹ زنانہ ہسپتال کو الگ کر کے نئی بلڈنگ دی گئی۔
محمد عامر کہتے ہیں کہ بچوں اور خواتین کے علاج کے لئے ضلع بھر میں نجی ہسپتالوں اور کلینکس کا رخ کیا جاتا ہے، جہاں قابل ڈاکٹر موجود ہیں لیکن یہ ہسپتال کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔
بچوں کے لئے مخصوص ہسپتال کی عدم موجود گی کے حوالے سے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر، ڈیرہ اسماعیل خان ڈاکٹر فاروق گل نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ضلعی اور زونل ہیلتھ کوارٹرز پر مریضوں کا بہت دباؤ ہے۔
" اتنی بڑی تعداد میں مریض آتے ہیں کہ دیگر سہولتوں کے ساتھ ساتھ ادویہ بھی کم پڑ جاتی ہیں اور بہتر دیکھ بھال بھی نہیں ہو پاتی۔ خاص طور پر زنانہ ہسپتال میں روزانہ 25 سے 28 بچے پیدا ہوتے ہیں"۔
ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق بچوں کی پیدائش کے فورا" بعد تشویش ناک حالت یا درپیش مرض کے لیے مناسب سہولیات نا ہونے کی وجہ سے روزانہ دو سے چار بچوں کو ملتان یا اسلام آباد ریفر کیا جاتا ہے۔ کچھ والدین بذات خود اپنوں بچوں کو دیگر شہروں میں علاج کے لیے لے جاتے ہیں۔اس طرح ایک ماہ میں اوسطاً 90 بچے دوسرے ہسپتالوں کو ریفر کیے جاتے ہیں۔
نیشنل لیبارٹری آف میڈیسن کی رپورٹ کے مطابق نوزائیدہ بچوں میں سے تقریباً 65 فیصد اموات صرف 10 ممالک میں ہوتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک ایشیا میں واقع ہیں۔
ان ٹاپ ٹین ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ ملک میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ تین لاکھ نوزائیدہ بچوں کی اموات ہوتی ہیں۔
تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں نوزائیدہ اموات کی شرح 42 فی 1000 زندہ پیدائش ہے، یعنی زندہ پیدا ہوانے والوں میں 42 کا پیدائش کے بعد انتقال ہو جاتا ہے۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 20 اور افغانستان میں 35 فی 1000 زندہ پیدائش نوزائیدہ اموات کی شرح ہے۔
یونیسف کی 2015ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں ایک ماہ سے کم عمر پانے والے 77 فیصد نوزائدہ بچے پیدائش کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر فاروق کہتے ہیں کہ روزانہ دو درجن سے زائد بچوں کی پیدائش کی وجہ سے نرسری وارڈ میں بھی جگہ کم پڑجاتی ہے، کیونکہ نومولود بچوں کی ابتدائی نگہداشت کے لئے انہیں وہاں رکھنا پڑتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات دوران پیدائش ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث بھی بچے کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈی آئی خان میں بچوں کے لئے الگ سے ہسپتال موجود ہو تو نہ صرف نرسری وارڈ سے اضافی بوجھ کم ہو جائے گا بلکہ بچوں کی شرح اموات میں کمی بھی ہو گی، کیونکہ بعض کیسز میں بچوں کی حالت ایسی نازک ہوتی ہے کہ ملتان، پشاور یا کسی اور شہر پہنچنے سے پہلے ہی وہ دم تو ڑ جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
دوائیں، نہ ٹیسٹ نہ ڈاکٹر: ٹنڈو محمد خان کا ضلعی ہسپتال مریضوں کے لیے 'مسائل گاہ' بن گیا
ڈاکٹر فاروق گل بتاتے ہیں کہ بطور ڈاکٹر اور بحیثیت ڈپٹی ڈی ایچ او، ڈیرہ اسماعیل خان میں چلڈرن ہسپتال کے قیام کے لیے انہوں نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پور سے بھی درخواست کی۔ انہوں نے چلڈرن ہسپتال کے قیام کا وعدہ کیا لیکن دس سال صوبائی اور وفاقی دور گزارنے کے باوجود اس پر کسی قسم کی پیش رفت ممکن نہیں ہوسکی۔
چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر اکرام اللہ کہتے ہیں کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں چلڈرن ہسپتال کا نہ ہونا صوبائی حکومتوں اور یہاں کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔چلڈرن ہسپتال کے قیام سے بچوں کی شرح اموات میں یقینی طورپر کمی آئے گی۔
مسلم لیگ(ن) کے سابق ڈویژنل صدر یوتھ اور سرگرم ورکر رحمت اللہ خان عرف گلو نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ماضی کی حکومتوں کا سارا زور گلیوں، سڑکوں، نالیوں کی تعمیر اور ٹرانسفارمرز کی تنصیبات پر رہا، جبکہ بارہا چلڈرن ہسپتال کے قیام کا وعدہ کرنے کے باجود اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
المددگار فاونڈیشن کے چیئرمین زین خان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومتوں نے دیگر ترقیاتی کاموں پر توجہ ضرور مرکوز رکھی، لیکن بچوں کی شرح اموات میں کمی اور ان کی بہتر نشوونما اور علاج معالجے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔"
تاریخ اشاعت 4 جنوری 2024