ریوو بھیل 30 اپریل کو دن بھر محنت مزدوری کر کے گھر پہنچے تو اہلیہ نے بتایا کہ ان کا بیٹا نریش کام کے بعد واپس نہیں آیا۔ یہ سن کر ریوو بازار میں بڑھئی کی اس دکان پر گئے جہاں نریش کام کرتا تھا۔ لیکن انہیں بتایا گیا کہ اس دن وہ سرے سے کام پر آیا ہی نہیں۔
وہ دو روز تک بیٹے کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتے رہے۔ تیسرے دن کسی نے انہیں بتایا کہ کیلے کے باغ میں پولیس کو ایک بچے کی لاش ملی ہے۔ ریوو دھڑکتے دل سے جائے وقوعہ پر پہنچے تو وہ نریش کی لاش تھی جسے کسی نے قتل کر کے باغ میں پھینک دیا تھا۔
نریش تین بہنوں اور پانچ بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ ان کے بڑے بھائی لال چند ساتویں جماعت میں پڑھنے کے ساتھ سو روپے دیہاڑی کے عوض ایک کلینک پر صفائی، پانی بھرنے اور مریضوں کی دیکھ بھال کا کام کرتے ہیں۔
لال چند بتاتے ہیں کہ بارہ سالہ نریش سرکاری پرائمری سکول میں زیرتعلیم تھے۔ انہوں نے پانچویں جماعت کے امتحانات میں پانچ پرچے دے رکھے تھے اور ان کے چار پرچے ابھی باقی تھی۔ وہ پڑھائی کے ساتھ بڑھئی کی دکان پر کام کر کے گھر کے اخراجات میں بھی ہاتھ بٹاتے تھے۔ دکان پر انہیں کبھی پچاس اور کبھی سو روپے معاوضہ ملتا تھا جسے وہ عام طور پر اپنی والدہ کے ہاتھ میں رکھ دیتے تھے۔
نریش کی لاش تو مل گئی لیکن انہیں قتل کرنے والے ملزموں کا پتا نہ چل سکا۔ دو مئی کو ان کے والد نے قتل کی ایف آئی آر نامعلوم ملزموں کے خلاف درج کرائی لیکن ڈیڑھ ماہ تک کسی ملزم کا سراغ نہ ملا۔
اس دوران سول سوسائٹی کے ارکان نے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ایس ایس پی ٹنڈو الہ یار کے دفتر کے سامنے احتجاجی دھرنا دے دیا۔
لوگوں کے احتجاج پر پولیس نے واقعے کی تحقیقات کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ اس دوران مقتول کے کپڑوں اور جسم کے نمونے لے کر ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا۔ چونکہ واقعہ تاج پور میں ہوا تھا اس لیے مقامی علاقے سے سے 70 مشکوک افراد کے ڈی این اے کے نمونے کراس میچنگ کے لیے لیبارٹری بھجوائے گئے۔
ٹنڈو الہ یار کے ایس ایس پی سید سلیم شاہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کیس کو چیلنج سمجھ کر ملزموں تک پہنچنے کی کوشش کی۔ دوران تفتیش دو افسر تبدیل کیے گئے۔
سی آئی اے پولیس کو اس کیس کا حصہ بنایا گیا اور 18 جون کو ہیومن انٹیلی جنس کی بنیاد پر تفتیشی انسپکٹر افضل احمد مگسی مرکزی ملزم فرحان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
ملزم نے گرفتاری کے بعد اپنا جرم قبول کیا اور دیگر چار ملزموں کے نام بھی بتائے۔ تاہم عدالت میں وہ پولیس کو دیے گئے اپنے بیان سے مکر گیا۔اس کے بعد ڈی این اے میچنگ ہی ٹھوس قانونی شہادت رہ گئی تھی۔
لیبارٹری ٹیسٹ میں فرحان کے علاوہ مومن علی نامی ملزم کا ڈی این اے نریش کے کپڑوں اور جسم سے ملنے والے ڈین این اے سے میچ ہو گیا۔
اس کے علاوہ ایک نامعلوم فرد کا ڈی این اے بھی سامنے آیا جس کے بارے میں پولیس کا شبہ ہے کہ وہ سجاد نامی ملزم ہے جو اس واقعے کے بعد مفرور ہے۔ اس واقعے میں ملوث رمیش اور رضوان نامی دو مزید ملزموں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
کراچی میں پولیس سرجن کے طور پر خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر سمعیہ سید کا کہنا ہے کہ اندھے قتل کے اس کیس میں ڈی این اے کی بدولت ہی ملزموں کی گرفتاری ممکن ہوئی۔ اس کیس میں ملنے والے نامعلوم ڈی این اے کا پتا اسی صورت چل سکتا ہے اگر گرفتاری کے بعد ملزم کا نمونہ لیا جائے اور اسے کراس میچ کیا جائے۔
سپریم کورٹ علی حیدر عرف پپو کیس میں سات جنوری 2021ء کو دیے گئے فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ کسی ملزم کی شناخت کے لیے ڈی این اے کی شہادت قانونی متصور ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں
بچوں سے جنسی زیادتی کے مقدمات: ملزموں کو معاف کرنے کے لیے لواحقین پر کس قِسم کا دباؤ ہوتا ہے۔
صوبہ سندھ میں ڈی این اے کی جانچ کے لیے دو لیبارٹریاں ہیں۔ان میں ایک لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جامشورو میں ہے جبکہ دوسری یونیورسٹی آف کراچی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز میں قائم سندھ فارنزک ڈی این اے اینڈ سیرولوجی لیبارٹری (ایس ایف ڈی ایل) ہے۔
یکم جنوری 2022ء سے 20 جولائی 2023ء تک 'ایس ایف ڈی ایل' میں 16 سال سے کم عمر افراد کے ساتھ جنسی زیادتی کی جانچ کے کل 131 کیس آئے۔ ان میں 51 بچوں اور 80 بچیوں سے متعلق تھے۔ ان میں سے 72 کیسز میں ڈی این اے میچ ہوا۔
لیاقت یونیورسٹی کی ڈی این اے لیبارٹری سے ملنے والی معلومات کے مطابق یکم جنوری 2022ء سے 25 جولائی 2023ء تک 16 سال سے کم عمر افراد کے ساتھ جنسی زیادتی کے 101 کیس ڈی این اے میچنگ کے لیے آئے۔ ان میں 53 بچوں اور 48 بچیوں کے کیس تھے جن میں سے 60 میں ڈی این اے میچ ہوا۔
تاریخ اشاعت 7 اگست 2023