ساجد علی حافظ آباد کے علاقے کسوکی روڈ کے رہائشی اور چمڑے کے کاروبار سے وابسطہ ہیں ان کی بہن طاہرہ یاسمین کی اپنے شوہر سے نو سال قبل علیحدگی ہوئی تب وہ دو بچوں کی ماں تھیں۔
ساجد بتاتے ہیں کہ ستمبر 2017ء کی ایک رات ان کی بھانجی مہرین رانی جس کی عمر تقریبا پانچ سال تھی کو شدید بخار ہو گیا ساجد فوری طور پر بچی کو قریبی ہسپتال لے گئے جہاں بچی کو داخل کرکے علاج معالجہ شروع کر دیا گیا۔
دو روز ہسپتال میں علاج معالجے کے بعد جب طبعیت نہ سنبھل پائی تو نجی ہسپتال کے ڈاکٹر نے لاہور چلڈرن ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا جس پر ساجد علی نے فوری عمل کیا اور چلڈرن ہسپتال لاہور کی ایمرجنسی میں لے گئے۔ ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے بچی کا مکمل چیک اپ کیا اور انہیں داخل کر لیا۔
علاج کے باوجود بچی کی طبعیت مزید بگڑتی گئی، گلے میں زخم اور سانس کی تکلیف بڑھتی گئی۔ تین روز تک زیر علاج رہنے کے بعد اس کا انتقال ہو گیا۔
"ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ بچی کے گلے میں انفیکشن اس کی موت کی وجہ ہے اور یہ بیماری شاید غیرمناسب آب و ہوا کی وجہ سے ہوئی چونکہ بچی کا مدافعتی نظام کمزور تھا تو وہ زیادہ متاثر ہوئی اور پھر صحت یابی کی طرف بھی نہیں لوٹ سکی۔"
ساجد علی کہتے ہیں کہ اس اچانک موت سے ان کی بہن شدید صدمے میں چلی گئیں۔ اب وہ اپنے بیٹے کی صحت کے حوالے سے بہت ہی زیادہ حساس ہو گئی ہیں اور اس کے آمد و رفت بھی کافی محدود کردی ہے۔
ان کے مطابق جس سال ان کی بھانجی کا انتقال ہوا تھا ان دنوں ان کے محلے میں مزید دو بچوں کی ایسی ہی بیماری کی وجہ سے موت ہوئی تھی۔
ان دنوں میں آس پاس کے محلے والوں بھی کافی پریشان تھے اور انھوں نے محدود وسائل کے باوجود بچوں کے لیے پینے کے پانی اور خوراک کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اپنائیں۔
بچوں کی شرح اموات میں حافظ آباد پہلے نمبر پر
اقوام متحدہ کی جانب سے بچوں کے فنڈ سے تیار کردہ پروگرام کے تحت مختلف ممالک میں ملٹی پل انڈیکیٹر کلسٹر سروے (MICS ) کروایا جاتا ہے۔
صوبہ پنجاب میں حکومت پاکستان، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسف کے تعاون سے یہ سروے 2017ء سے 2018ء میں ہوا تھا اور اس سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے ضلع حافظ آباد میں بچوں کی شرح اموات پنجاب کے دوسرے تمام اضلاع سے زیادہ ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق حافظ آباد میں ہر ایک ہزار میں سے 109 بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔
پنجاب حکومت کی طرف سے 2022ء میں جاری ہونے والی ڈسٹرکٹ پروفائل رپورٹ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی شرح اموات کے حوالے سے حافظ آباد پنجاب کے 36 اضلاع میں سب سے آگے ہے۔ پنجاب میں ہر ایک ہزار بچوں میں انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد 69 ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق صرف پانچ سال ہی نہیں بلکہ حافظ آباد میں ایک ہزار نوزائیدہ بچوں(ایک ماہ سے کم عمر) میں سے 59 اور ایک سال سے کم عمر ہر ہزار میں سے97 بچوں کا انتقال ہوجاتا ہے۔ پنجاب میں یہ شرح 41 اور 60 ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق بچوں کی شرح اموات میں جہاں پر آب و ہوا یا ناقص خوراک کا عمل دخل ہے وہیں پر غربت اور صحت کی کم سہولیات کا ہونا بھی وجہ ہے۔
دو سال پہلے حکومت پنجاب کی طرف سے جاری صنفی امتیاز (جینڈر پیرٹی رپورٹ) میں کہا گیا ہے کہ حافظ آباد صحت کی سہولیات میں پنجاب کے 36 اضلاع میں سب سے آخری نمبر پر ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ضلع میں بی ایچ یو، آر ایچ سی، تحصیل و ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور سرکاری ڈسپنسریوں سمیت کل 61 مراکز صحت یا طبی سہولیات فعال ہیں۔
یہی نہیں زچگی کے دوران اور اس کے بعد بچے کی صحت و خوراک کی دیکھ بھال کے لیے قائم مراکز صحت کی تعداد اس ضلع میں خوشاب کے بعد سب سے کم یعنی 22 ہے۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر میڈیسن ڈاکٹر بلال رفیق ملک کہتے ہیں کہ کم عمر بچوں کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے اور ان میں اموات کی بیشتر وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے جراثیم کا خوارک اورسانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو جانا، قبل از وقت پیدائش، حمل کے دوران ماں کا مناسب خوراک استعمال نہ کرنا اور بچوں کے درمیان پیدائش کا مناسب وقفہ نہ ہونا اور بچے میں خوراک کی کمی۔
کیا حفاظتی ٹیکے خطرناک ہیں؟
محکمہ صحت حافظ آباد کے ایک عہدے دارکی نظر میں اس ضلع میں بچوں کی شرح اموات زیادہ ہونے کے پیچھے ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ حفاظتی ٹیکے ہیں۔ وہ جلال پور بھٹٰاں سے تعلق رکھنے والے محنت کش خرم شہزاد کی مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھوں نے 14 اپریل 2022ء میں اپنے تین ماہ کے بیٹے علی شیر کو حفاظتی ٹیکہ لگوایا جس کے بعد بخار ہوا اور دوسرے ہی روز بچے کی موت ہو گئی، محکمہ صحت حافظ آباد کی ٹیم نے تحقیق کے بعد رپورٹ تیار کی جس میں ویکسینیشن کو موت کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر شیخوپورہ ڈاکٹر جمیل نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حفاظتی ٹیکہ جات سمیت دیگر ویکسینیشن بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کے لیے انتہائی ضروری ہیں ایسے کیسز نہ ہونے کے برابر ہیں جن میں یہ ثابت ہو کہ ویکسینیشن موت کا سبب بن سکتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ویکسینیشن کی ایک وائل 20 بچوں پر استعمال کی جاتی ہے اگر بیس سے میں ایک بچہ مر جائے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ویکسینیشن درست نہیں، ہو سکتا ہے بچہ بیمار ہو اسکی قوت مدافعت کمزور یا وہ الرجی کا شکار ہو جو رئیکشن کا سبب بن جائے۔
حافظ آباد کے پڑوسی ضلع شیخوپورہ میں ہیلتھ وزٹرز کے طور کام کرنے والے والے عملے کے انچارج محمد روؑف نے لوک سُجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حفاظتی ٹیکہ جات لگانے والے عملے کو مکمل تربیت فراہم کی جاتی ہے تاکہ ٹیکہ جات کے مضر اثرات سے بچا جا سکے۔
محمد رؤف نے بتایا کہ عملے کی غفلت بھی موت کی وجہ بن سکتی ہے جس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ برس ٹوبہ ٹیک سنگھ اور بہاولپور میں خسرے سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگنے سے سات سے آٹھ بچوں کی اموات ہوئیں۔
محکمہ ہیلتھ پنجاب کی جانب سے انکوائری کروانے پر سامنے آیا کہ ہیلتھ ورکرز نے انجکشن بنانے کے لیے ڈائلونٹ کی بجائے ڈرپ کا پانی استعمال کیا جس کا ری اکشن ہوا اور بچوں کی اموات ہوئیں۔
موت کی کیا وجوہات ہیں؟
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے رپورٹ 2020ء کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار بچوں میں سے 44 بچے پیدائش کے وقت ہی فوت ہو جاتے ہیں اور 75 بچے پانچ سال کی عمر کو نہیں پہنچ پاتے۔
مجموعی طور پر پاکستان میں بچوں کی شرح اموات 2018ء میں میں69.3 تھی جو کہ 2013ء میں 80.5 تھی۔ یہی تعداد جنگ زدہ اور غربت کا شکار افغانستان میں پاکستان سے کئی درجے بہتر یعنی 62.3 کی سطح پر ہے اور بھارت میں 61، نیپال میں 48 اور بنگلہ دیش میں 46 ہے۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق ایک سے چار سال کی عمر تک کے بچے پاکستان کی کل آبادی کا 13 فیصد ہیں جبکہ پاکستان کے تقریبا نصف بچے وٹامن اے، وٹامن ڈی، زنک، کیلشیم اور معدنیات کی کمی کا شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 51.5 فیصد بچے وٹامن اے کی کمی اور 12.1 فیصد بچے شدید کمی کا شکار ہیں جبکہ پانچ سال کی عمر تک کے 62.7 فیصد بچے وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔
ماہرین کے مطابق جسم میں وٹامن اے کی کمی سے آنکھوں کی بینائی اور وٹامن ڈی کی کمی سے ہڈیاں شدید متاثر ہوتی ہے۔
رپورٹ میں53.7 فیصد بچوں میں خون کی کمی کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہروں کی نسبت دیہات میں مقیم بچوں میں خون کی زیادہ کمی ہے، خواتین کی کم عمری میں شادی ، بار بار حمل کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کا اثر ماں کے ساتھ بچوں پر بھی ہوتا ہے اور وہ مناسب دیکھ نہیں کر پاتیں جسکی وجہ سے بچوں میں بیماریاں اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
پانچ سال سے کم عمر بچوں میں موت کی وجوہات میں نمونیا اور اسہال کے علاوہ خسرہ، ملیریا، پیمولیٹک امراض، زچگی کے انفیکشن اورغذائیت کی کمی بھی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق بچوں کی شرح اموات کے متعلق پاکستان کے تمام صوبوں کی صورتحال مختلف ہے،
پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے ( PDHS ) کے مطابق پاکستان کے دیہاتوں میں شہروں کی نسبت بچوں کی شرح اموات زیادہ ہیں ، دیہات میں شرح اموات ہر ایک ہزار میں 83 جبکہ شہروں میں تعداد 56 ہے جس کی وجہ شہروں کی نسبت دیہات میں صحت کی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔
حفاظتی ٹیکے ضروری ہیں
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر بلال رفیق ملک کہتے ہیں کہ بچوں کی شرح اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے تاہم اس میں حکومت کے ساتھ والدین کو بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔
"انہیں وقت پر بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے ہیں بعض اوقات ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جہاں والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکے بروقت نہیں لگواتے جس سے بچوں کی ایک بڑی تعداد ان جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہے ۔"
طبی ماہرین کے مطابق بچوں کی شرح اموات میں کمی کے لیے سرکاری سطح پر ہیلتھ سسٹم میں بھی بہتری لانا بہت ضروری ہے، کم تعلیم یافتہ اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو شعور فراہم کرنا بھی حکومتی ترجیحات کا حصہ ہونا چائیے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو صحت کے شعبے میں کم از کم ہر شہری کے لیے سالانہ 86 ڈالرز خرچ کرنے چاہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق ہم اپنی قومی پیداوار کا تقریبا ایک فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتے ہیں جو انتہائی کم ہے۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طبی سہولیات کا فقدان، ناقص خوراک کی وجہ سے بچوں کی شرح اموات میں خاطر خواہ کمی نہیں ہو پا رہی۔
یہ بھی پڑھیں
بھوک چہروں پر لیے چاند سے پیارے بچے: آجروں کے تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟
محمد رؤف جو شیخوپورہ محکمہ ہیلتھ میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں مزید بتاتے ہیں کہ 2017ء، 2018ء میں ہونے والا (MICS) سروے پنجاب میں اسی سال 2024ء میں ہوگا۔ سترہ فروری 2024ء کو لاہور میں محکمہ ہیلتھ پنجاب کے افسران کی جانب سے تربیتی سیشن رکھا گیا تھا جس میں پنجاب کے تمام اضلاع سے متعلقہ نمائندوں کو بلایا گیا تھا۔
تربیتی سیشن میں محکمہ ہیلتھ پنجاب کی جانب سے تمام اضلاع کو حفاظتی ٹیکہ جات کی کوریج کے متعلق اپنے تمام اہداف مکمل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
سی ای او ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی حافظ آباد ڈاکٹر عمر نے "لوک سُجاگ" سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ضلع بھر میں حفاظتی ٹیکہ جات اور پولیو سمیت تمام حفاظتی مہم کے دوران اہداف حاصل کیے جا رہے ہیں۔ محکمہ ہیلتھ کی ٹیمیں تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے حفاظتی ٹیکہ جات ، وٹامنز اور پولیو کے قطرے گھر گھر جاکر بچوں کو پلاتے ہیں تاکہ بچوں کی قوت مدافعت کو بڑھایا جا سکے۔
ڈاکٹر عمر بتاتے ہیں کہ بعض اوقات مخصوص علاقوں سے ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جہاں والدین بچوں کو پولیو کے قطرے اور حفاظتی ٹیکہ جات لگوانے سے انکار کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال سے بروقت نمٹنے کے لیے " ہائی رسک موبائل پاپولیشن " ( HRMP ) کے نام سے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو محکمانہ رپورٹ اعلی حکام کو پیش کرتے ہیں، اس میں پولیس کی مدد بھی حاصل کی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں ایسے واقعات بھی رپورٹ ہو چکے ہیں جہاں والدین محکمہ صحت کی مانیٹرنگ ٹیموں کو حفاظتی ٹیکہ جات کا ریکارڈ فراہم کرنے میں ناکام رہتے تھے اور صحت کے نمائندوں سے ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے تھے۔
"بچوں کے نام اندراج کروانے کے لیے ریکارڈ کارڈ کو لازم قرار دیا گیا یے ساتھ ہی مقدمہ کا اندراج بھی کروایا جا سکتا ہے ۔ جس کا مقصد والدین کو حفاظتی ٹیکہ جات کی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ محکمہ صحت کی ٹیمیں ان پڑھ افراد کو خصوصی آگاہی بھی فراہم کر رہی ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج موصول ہوئے ہیں۔ مارچ 2024ء میں ہونے والی پولیو و وٹامنز مہم میں ضلع حافظ آباد نے 99 فیصد سے زائد اہداف حاصل کیا ہے۔
محکمہ ہیلتھ حافظ آباد کے افسران امید ظاہر کرتے ہیں کہ سال 2024ء میں ہونے والے سروے میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں ماضی کی نسبت خاصی کمی سامنے آئے گی۔
تاریخ اشاعت 18 مارچ 2024